اگر موسمی ،حفاظتی اور سیاسی حالات معمول پر رہے تو، میاں نوازشریف اور مریم نواز ، لندن سے ابوظہبی کی پرواز 18 سے آج شام 6 بجے لاہور ائیر پورٹ پر طیارے سے برآمد ہوں گے ۔ کل (12 جولائی) کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں اپنے کالم ’’ طلوع‘‘ میں برادرِ عزیز ارشاد احمد عارف نے اور اُسی روز ’’92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر رانا محمد عظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’نواز شریف کی گرفتاری کے لئے آنے والے نیب کے اہلکاروں سے یہ فرمائش / ضد کی جائے گی کہ وہ اُن کی والدہ شمیم اختر ؔصاحبہ کے آنے تک طیارے سے نہیں اُتریں گے ‘‘ ۔ رانا محمد عظیم کے رپور ٹ کے مطابق ، نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ لندن سے آنے والے مسلم لیگی کارکنوں کے خلاف ، کارِ سرکار میں مداخلت، کا مقدمہ بھی بن سکتا ہے۔ 

 معزز قارئین! ۔ اِس سے قبل 10 جولائی کے روزنامہ ’’ جنگ‘‘ کے صفحہ اوّل پر خبر شائع ہُوئی تھی کہ ’’ آپی جی ‘‘ کے لقب سے معروف نواز شریف کی 85 سالہ والدہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ، مَیں 13 جولائی کو اپنے بیٹے (نوازشریف) کا استقبال کرنے کے لئے خُود ائیر پورٹ جائوں گی‘‘ ۔ آپی جی ؔنے یہ بھی کہا تھا کہ، مَیں نے اپنے خاندان والوں کو بتا دِیا ہے کہ ’’مَیں نواز شریف کو گرفتار نہیں ہونے دوں گی اور اگر اُسے گرفتار کِیا گیا تو، مَیں بھی اُس کے ساتھ چلی جائوں گی‘‘۔ حیرت ہے کہ ، اِس سے قبل نواز شریف کئی بار مختلف حکومتوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی لیکن، ’’ آپی جی ‘‘ نے کسی بھی تحریک میں حصّہ نہیں لِیا، البتہ پھر دوبار الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اُن کا چرچا ہُوا تھا۔

26 مئی 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف بھارت کے نو منتخب وزیراعظم شری نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے دِلّی گئے ۔ اُنہوں نے اُس شب ( شب ِ معراج ِ رسولؐ) کو 50 منٹ تک وزیراعظم مودی سے "One On One" ملاقات کی ۔ پھر خبر شائع ہُوئی کہ ’’ وزیراعظم مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو "Man of the Peace" (مردِ امن) کا خطاب دِیا ہے‘‘ ۔ وزیراعظم مودی نے وزیراعظم نواز شریف کی والدہ ( آپی جی) کے لئے شال ؔ کا تحفہ بھجوایا ۔ پھر وزیراعظم نواز شریف نے بھی وزیراعظم مودی کی ماتا جی ؔکے لئے سفید ساڑھی کا تحفہ بھجوایا۔

معزز قارئین! 25 دسمبر 2015ء کو (قائداعظم ؒ اور وزیراعظم نواز شریف کی بھی سالگرہ کے موقع پر ) الیکٹرانک میڈیا پر ، مریم نواز کی بیٹی مہر اُلنساء کی تقریب ِ رسم ِ حنا میں دِکھایا جا رہا تھا کہ ’’ وزیراعظم مودی اپنے پورے لائو لشکر سمیت اُس تقریب میں رونق افروز ہُوئے ۔ وزیراعظم نوازشریف نے اُنہیں اپنے بھائی شہباز شریف ، دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز سے ملوایا اور اپنی والدۂ محترمہ آپی جیؔ سے بھی ۔ دوسرے روز قومی اخبارات میں آپی جی ؔ اور شری مودی کے مکالمات شائع ہُوئے۔ آپی جی ؔ نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا تھا کہ ’’ مِل کر رہو گے تو، خُوش رہو گے!‘‘۔ مودی جی نے بھی سعادت مندی سے کہا تھا کہ ’’ ماتا جی! ہم اِکٹھے ہی ہیں!‘‘۔ اِس پر میرے دوست شاعرِ سیاست نے کہا تھا کہ …

 دْکھ بانٹے کچھ غریبوں کے ، پڑھ لی نماز بھی!

مہر اْلنساء کی ، رسمِ حِنا کا جواز بھی!

شردھا سے پیش کردِیا ، حسن ؔاور حسین ؔکو!

مصروفِ کاراْن کا چچا ، شاہباز ؔبھی!

مَیں برتھ ڈے پہ قائداعظمؒ کی کیا کہوں؟

مودی ؔنواز نکلا، محمد نواز ؔبھی!

معزز قارئین!۔ سیاست میں سرگرم آپی جی ؔ کے دونوں بیٹے نواز شریف اور شہباز شریف ’’ شریف برادران‘‘ کہلاتے ہیں۔ آپی جی ؔ نے جِس جوش و جذبے سے اپنے بڑے بیٹے نواز شریف کے لئے محبت کا اظہار کِیا ہے ، اُس سے مجھے ’’تحریکِ آزادی۔ تحریک خلافت اور تحریک پاکستان ‘‘ کے دو نامور قائدین ، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر ؔ کی والدۂ محترمہ ۔ آبادی بانو بیگم المعروف ’’ بی اماّں ‘‘ یاد آگئی ہیں۔ بی اماّں ؔنے خُود بھی تحریکِ خلافت میں سرگرم کردار ادا کِیا تھا ۔ اُنہوں نے مولانا حسرت موہانی کی بیگم اور دوسری ممتاز خواتین لیڈروں کے ساتھ خواتین کے اجتماعات سے بھی کئی بار خطاب کِیا اور اُن سے تحریک ِ خلافت کے لئے چندہ بھی جمع کِیا۔ بی اماّں کی عظمت بیان کرتے ہُوئے کسی شاعر نے ایک نظم بھی لِکھی تھی جِس کا یہ مصرع مقبول ِ عام تھا کہ …

بولی اماّں ، محمد علی کی ، جان بیٹا ،خلافت پہ دے دو!

اللہ کرے کہ ’’ آج شام کو نواز شریف ، مریم نواز اور اُن کے ساتھ لندن سے آئے مسلم لیگی لیڈروں اور کارکنوں کا نیب کے افسروں اور کارکنوں سے کوئی جھگڑا نہ ہو جائے۔  روانگی سے قبل لندن میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے نواز شریف نے حکومت ِ پاکستان اور عدالت (پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ کو ) اُسی انداز میں للکارا ہے جِس انداز میں مولانا محمد علی جوہرؔ ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لئے انگریز حکومت کو للکارا کرتے تھے ۔ 

لندن میں 1930ء میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا محمد علی جوہرؔ نے لیبر پارٹی کے برطانوی وزیراعظم "Mr.James Ramsay MacDonald" سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ مَیں ہندوستان کے لئے آزادی کا پروانہ لے کر جائوں گا ، یا یہیں مر جائوں گا۔ مَیں غُلام ملک (ہندوستان) میں واپس نہیں جائوں گا‘‘۔ پھر ایسا ہی ہُوا ۔ مولانا محمد علی جوہرؔ لندن میں ہی انتقال کرگئے اور اُن کی میّت کو بیت اُلمقّدس میں لے جا کر دفن کردِیا گیا۔ اُن کی ’’ لوح ِ تُربت‘‘ پر لِکھا ہے کہ "Here lies al-Sayyid Muhammad Ali al-Hindi" ۔ 

معزز قارئین! فرق یہ ہے کہ ’’ علی برادران ‘‘ ( مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر ) بہت ہی اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔ اُنہوں نے ہندوستان کی آزادی میں جیل کاٹی اور بہت سی دوسری صعوبتیں بھی برداشت کِیں۔ اُن کی صِرف ایک بہن تھی جِس ، نے سیاست میں حصّہ نہیں لیا۔ یہاں معاملہ مختلف ہے ۔’’ شریف برادران ‘‘ ( نواز شریف اور شہباز شریف) کا معاملہ’’ تن ہمہ داغ ، داغ شُد،  پنبہ کُجا کُجا نہم ‘‘۔ نوازشریف کو کرپشن کے جُرم میں دس سال ، اُن کی بیٹی مریم نواز کو سات سال اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا ہوئی ہے لیکن، وطن واپسی سے پہلے ، باپ ، بیٹی نے شاید ملکہ ٔ برطانیہ الزبتھ دوم کو گواہ بنا کر الیکٹرانک میڈیا پر پوری عالمی برادری کو یہ تاثر دِیا کہ پاکستان دُنیا کا ایک بدترین ملک ہے ۔ استغفراللہ !۔ 

میاں نواز شریف نے کہا کہ’’ پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن، جمہوریت کے تمام تقاضے کُچل دئیے گئے ہیں اور سچ بولنا مشکل ہوگیا ہے۔ کردار کُشی کا شرمناک کھیل جاری ہے ۔ مَیں جیل کی طرف جاتے ہُوئے سوچ رہا ہُوں کہ ’’ پورا ملک ایک جیل بن چکا ہے ، وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو جنگل اور جیل کے بجائے 21 ویں صدی کا ملک بنا دِیا جائے۔ پاکستان کے لوگ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آگئے ہیں۔ کیا ایسے ملک چلتے ہیں ؟‘‘۔ نواز شریف نے عدالتوں پر دوہرے معیار کا الزام لگایا کہ ’’جہاں ’’ لاڈلے‘‘ کے لئے ایک ضابطہ ہے اور دوسروں کے لئے دوسرے ضابطے۔ مَیں سِولین بالا دستی کی جنگ میں جا رہا ہُوں ۔ جیل ہو یا پھانسی میرے قدم نہیں رُکیں گے۔ عدالتوں کے فیصلے کہیں اور لکھے جاتے ہیں ‘‘۔ 

آج شام لندن سے آنے والا ابو ظہبی کا طیارہ لاہور ائیر پورٹ پر اُترے گا یا پاکستان کے کسی اور ائیر پورٹ پر؟۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال ائیر پورٹ پر کوئی فساد نہ ہو تو، بہتر ہوگا۔ 85 سالہ آپی جی ؔ کاعزّت و احترام ہر صُورت میں ہونا چاہیے۔ نواز شریف (یا فرض کِیا شہبازشریف ) کی گرفتاری کے بعد آپی جی ؔ کا لائحہ عمل کیا ہوگا ؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا؟ لیکن، آپی جی ؔ !۔ یاد رکھیں کہ ’’ علی برادران کی ’’بی اماّں ‘‘ خُدا داد صلاحیتوں کی مالک تھیں اور اُن کے دونوں عظیم بیٹوں کے کردار پر کسی قسم کی بدنامی کا کوئی بھی داغ نہیں تھا‘‘۔