کہوٹہ میں موسم برسات کی شجر کاری مہم کے آغاز کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے آئندہ سال جون تک ملک میں ایک ارب درخت لگانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مفید لکڑی کے لئے مشہور چیل کا پودا لگاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ قدرتی ماحول کا تحفظ ضروری ہے اور اس کے لئے ہر شہر کا الگ ماسٹر پلان بنے گا۔ پاکستان سمیت دنیا میں اس وقت ماحول کو پانچ بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اول یہ کہ گرین ہائوس گیسوں کی وجہ سے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ چند سال قبل ماحولیات کے عالمی اجلاس میں صنعتی ممالک کے کہنے پر عالمی درجہ حرارت میں 1.5سینٹی گریڈ اضافے کو معیار تسلیم کیا گیا۔ یعنی معمول کے اوسط درجہ حرارت میں ڈیڑھ سینٹی گریڈ کے اضافے کو قبول کر لیا گیا۔ اس کا مقصد امریکہ‘ یورپ ‘ چین‘ بھارت اور جاپان کی دیوہیکل صنعتی مشینوںکو انسانی صحت سے کھیلنے کی اجازت کے سوا دوسرا نہیں۔ دوسرا خطرہ زرخیز زمینوں کا صحرائوں میں تبدیل ہونا۔ تیسرا خطرہ جنگلات کا خاتمہ‘ چوتھا حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ‘ اور پانچواں خطرہ کوڑا کرکٹ اور فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر اس وقت کوڑے دان دکھائی دیتے ہیں خصوصاً پچھلے چند برسوں کے دوران کراچی اور لاہور میں کوڑا کرکٹ کو اٹھانے اور محفوظ طریقے سے ٹکانے لگانے کے حوالے سے شدید قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر آبی ذخائر کم ہونے کا مسئلہ ہے۔شہروں کے بعد اب دیہی علاقوں میں بھی زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے جس سے زرخیز زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں۔ حیا تیاتی تنوع بری طرح متاثر ہوا ہے وہ پرندے دکھائی نہیں دیتے جو درختوں کے بیج پھیلانے میں مددگار ہوتے ہیں۔گدھ جو فطرت کی طرف سے صفائی پر مامور ہیں ان کی آبادی ختم ہو رہی ہے۔ بہت سے جانور اور پرندے ناپید اور نایاب ہو رہے ہیں۔ جنگلات پر مشتمل رقبہ صرف ڈیڑھ سے 2فیصد رہ گیاہے۔ تمام ماحولیاتی مسائل کا ون ونڈو حل شجر کاری ہے۔شجر کاری سے فضائی آلودگی کم ہوتی ہے۔ ہوا میں آکسیجن بڑھتی ہے‘ درجہ حرارت کم ہوتا ہے‘ پرندے اور جانور درختوں میں مسکن بناتے ہیں اور ریاست کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی ہر سال بہار اور موسم برسات میں شجر کاری کی خبریں دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کرنے والوں کے درمیان تعلق کار کمزور رہا۔ پالیسی بنانے والوں کو مقامی ماحول‘ زمین اور آبادی کی ضروریات کی خبر نہیں ہوتی اور عملدرآمد کرنے والوں کو کام سے پرخلوص لگائو نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ کروڑوں میں لگائے پودوں کا دو ماہ بعد پتہ نہیں چلتا۔ ایسا کئی عشروں سے ہوتا رہا۔ شجر کاری کے کام کے لئے رکھا روپیہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا۔ کراچی جیسے شہر سے نیم اور دوسرے بڑے سایہ دار درخت کاٹ کر کونو کارپس کے ماحول دشمن پودے بھر دیے گئے۔ لاہور میں ہر ہائوسنگ سکیم میں کونو لگائے جا رہے ہیں‘ اب یہ پودا اسلام آباد اور کے پی کے میں پہنچ چکا ہے۔ مقامی درختوں کی افادیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ درخت جن کی چھائوں‘ پھل اور لکڑی ہماری اور ہمارے ماحول کی ضرورت پوری کرتے ہیں ان کی جگہ آرائشی اور زیبائشی درآمدی پودے لگائے جانے لگے۔گزشتہ حکومتوں نے پنجاب میں پی ایچ اے کا محکمہ بنایا جس نے شہروں میں لینڈ سکیپنگ اور پھلواری بنانے پر توجہ دی۔ نگرانی اور جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کے معاملات میں سیاست دان گھس گئے۔ سرکاری فنڈز مخصوص کمپنیوں اور گروپوں میں تقسیم ہو جاتے۔ مقامی درخت نہ لگنے سے پرندے ہجرت کر گئے۔ ٹریفک بڑھنے سے شہروں کی سڑکیں الائو بن گئیں۔ درجہ حرارت اس قدر بڑھا کہ ناقابل برداشت ہو گیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع ہوا۔ ہو سکتا ہے یہ ایک ارب کی بجائے 60کروڑ درخت ہوں لیکن پودوں کا درخت بن جانا ایک بڑی کامیابی ہے جس کا اعتراف عالمی ادارے کر چکے ۔2018ء کے انتخابات نے تحریک انصاف کو کے پی کے‘ پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے کا موقع دیا۔ وفاقی مینڈیٹ کے ساتھ بطور وزیر اعظم عمران خان نے دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا۔ دو سال کے دوران بہت سے علاقوں میں شجر کاری کی گئی۔ دو ماہ پہلے وزیر اعظم نے میانوالی کے پاس جنگل میں بیری کا درخت لگا کر جنگلات کی اہمیت پر بات کی تھی۔ اسلامی تعلیمات میں درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے‘ جنگوں کے موقع پر فصل اور درختوں کو نقصان پہنچانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ سائنسی نکتہ نظر کو اہمیت دینے والوں کا خیال ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ ہی عذاب ہوتا ہے ان حالات میں پاکستان کے سیاسی اور سماجی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام پاکستانی ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کریں۔ مستقبل کی نسلوں کو ماحولیاتی بگاڑ سے محفوظ رکھنے کے لئے اردگرد دستیاب مقامات پر مقامی درخت اور پودے لگائیں ۔یاد رہے کہ صرف درخت لگا کر ذمہ داری پوری نہیں ہوتی بلکہ جب تک یہ ننھے پودے بلند قامت ہو کر خود اپنی خوراک بنانے کے قابل نہ ہو جائیں ان کا تحفظ ضروری ہے جس کے لئے حکومت فوری طور پر دستیاب اراضی کی نشاندہی کر کے وہاں شجر کاری کی ترغیب دے سکتی ہے۔
تحفظ ماحول اور شجر کاری
اتوار 19 جولائی 2020ء
کہوٹہ میں موسم برسات کی شجر کاری مہم کے آغاز کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے آئندہ سال جون تک ملک میں ایک ارب درخت لگانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مفید لکڑی کے لئے مشہور چیل کا پودا لگاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ قدرتی ماحول کا تحفظ ضروری ہے اور اس کے لئے ہر شہر کا الگ ماسٹر پلان بنے گا۔ پاکستان سمیت دنیا میں اس وقت ماحول کو پانچ بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اول یہ کہ گرین ہائوس گیسوں کی وجہ سے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ چند سال قبل ماحولیات کے عالمی اجلاس میں صنعتی ممالک کے کہنے پر عالمی درجہ حرارت میں 1.5سینٹی گریڈ اضافے کو معیار تسلیم کیا گیا۔ یعنی معمول کے اوسط درجہ حرارت میں ڈیڑھ سینٹی گریڈ کے اضافے کو قبول کر لیا گیا۔ اس کا مقصد امریکہ‘ یورپ ‘ چین‘ بھارت اور جاپان کی دیوہیکل صنعتی مشینوںکو انسانی صحت سے کھیلنے کی اجازت کے سوا دوسرا نہیں۔ دوسرا خطرہ زرخیز زمینوں کا صحرائوں میں تبدیل ہونا۔ تیسرا خطرہ جنگلات کا خاتمہ‘ چوتھا حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ‘ اور پانچواں خطرہ کوڑا کرکٹ اور فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر اس وقت کوڑے دان دکھائی دیتے ہیں خصوصاً پچھلے چند برسوں کے دوران کراچی اور لاہور میں کوڑا کرکٹ کو اٹھانے اور محفوظ طریقے سے ٹکانے لگانے کے حوالے سے شدید قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر آبی ذخائر کم ہونے کا مسئلہ ہے۔شہروں کے بعد اب دیہی علاقوں میں بھی زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے جس سے زرخیز زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں۔ حیا تیاتی تنوع بری طرح متاثر ہوا ہے وہ پرندے دکھائی نہیں دیتے جو درختوں کے بیج پھیلانے میں مددگار ہوتے ہیں۔گدھ جو فطرت کی طرف سے صفائی پر مامور ہیں ان کی آبادی ختم ہو رہی ہے۔ بہت سے جانور اور پرندے ناپید اور نایاب ہو رہے ہیں۔ جنگلات پر مشتمل رقبہ صرف ڈیڑھ سے 2فیصد رہ گیاہے۔ تمام ماحولیاتی مسائل کا ون ونڈو حل شجر کاری ہے۔شجر کاری سے فضائی آلودگی کم ہوتی ہے۔ ہوا میں آکسیجن بڑھتی ہے‘ درجہ حرارت کم ہوتا ہے‘ پرندے اور جانور درختوں میں مسکن بناتے ہیں اور ریاست کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی ہر سال بہار اور موسم برسات میں شجر کاری کی خبریں دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کرنے والوں کے درمیان تعلق کار کمزور رہا۔ پالیسی بنانے والوں کو مقامی ماحول‘ زمین اور آبادی کی ضروریات کی خبر نہیں ہوتی اور عملدرآمد کرنے والوں کو کام سے پرخلوص لگائو نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ کروڑوں میں لگائے پودوں کا دو ماہ بعد پتہ نہیں چلتا۔ ایسا کئی عشروں سے ہوتا رہا۔ شجر کاری کے کام کے لئے رکھا روپیہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا۔ کراچی جیسے شہر سے نیم اور دوسرے بڑے سایہ دار درخت کاٹ کر کونو کارپس کے ماحول دشمن پودے بھر دیے گئے۔ لاہور میں ہر ہائوسنگ سکیم میں کونو لگائے جا رہے ہیں‘ اب یہ پودا اسلام آباد اور کے پی کے میں پہنچ چکا ہے۔ مقامی درختوں کی افادیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ درخت جن کی چھائوں‘ پھل اور لکڑی ہماری اور ہمارے ماحول کی ضرورت پوری کرتے ہیں ان کی جگہ آرائشی اور زیبائشی درآمدی پودے لگائے جانے لگے۔گزشتہ حکومتوں نے پنجاب میں پی ایچ اے کا محکمہ بنایا جس نے شہروں میں لینڈ سکیپنگ اور پھلواری بنانے پر توجہ دی۔ نگرانی اور جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کے معاملات میں سیاست دان گھس گئے۔ سرکاری فنڈز مخصوص کمپنیوں اور گروپوں میں تقسیم ہو جاتے۔ مقامی درخت نہ لگنے سے پرندے ہجرت کر گئے۔ ٹریفک بڑھنے سے شہروں کی سڑکیں الائو بن گئیں۔ درجہ حرارت اس قدر بڑھا کہ ناقابل برداشت ہو گیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع ہوا۔ ہو سکتا ہے یہ ایک ارب کی بجائے 60کروڑ درخت ہوں لیکن پودوں کا درخت بن جانا ایک بڑی کامیابی ہے جس کا اعتراف عالمی ادارے کر چکے ۔2018ء کے انتخابات نے تحریک انصاف کو کے پی کے‘ پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے کا موقع دیا۔ وفاقی مینڈیٹ کے ساتھ بطور وزیر اعظم عمران خان نے دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا۔ دو سال کے دوران بہت سے علاقوں میں شجر کاری کی گئی۔ دو ماہ پہلے وزیر اعظم نے میانوالی کے پاس جنگل میں بیری کا درخت لگا کر جنگلات کی اہمیت پر بات کی تھی۔ اسلامی تعلیمات میں درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا گیا ہے‘ جنگوں کے موقع پر فصل اور درختوں کو نقصان پہنچانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ سائنسی نکتہ نظر کو اہمیت دینے والوں کا خیال ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ ہی عذاب ہوتا ہے ان حالات میں پاکستان کے سیاسی اور سماجی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام پاکستانی ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کریں۔ مستقبل کی نسلوں کو ماحولیاتی بگاڑ سے محفوظ رکھنے کے لئے اردگرد دستیاب مقامات پر مقامی درخت اور پودے لگائیں ۔یاد رہے کہ صرف درخت لگا کر ذمہ داری پوری نہیں ہوتی بلکہ جب تک یہ ننھے پودے بلند قامت ہو کر خود اپنی خوراک بنانے کے قابل نہ ہو جائیں ان کا تحفظ ضروری ہے جس کے لئے حکومت فوری طور پر دستیاب اراضی کی نشاندہی کر کے وہاں شجر کاری کی ترغیب دے سکتی ہے۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں اتوار 19 جولائی 2020ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں