اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں تحویل قبلہ کا حکم نازل فرمایااور یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیازی اوصاف میں سے ہے ۔ دراصل یہ وصف امتیازی حیثیت اس وقت اختیار کر گیا جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے قبلہ آپ کی مرضی پر تبدیل کیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں قیام فرما رہے اس وقت نماز پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس انداز میں کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں آپ کے سامنے ہوتے ۔ مگر ہجرتِ مدینہ کے بعد اس ترتیب کو قائم رکھنا ممکن نہ تھا، کیونکہ مدینہ طیبہ سے مقبوضہ بیت المقدس اور مکہ مکرمہ دونوں مخالف سمتوں میں تھے اگر مکہ مکرمہ کی طرف منہ کیا جاتا تو مقبوضہ بیت المقدس کی طرف پشت ہوتی اور اگر مقبوضہ بیت المقدس کی طرف منہ کیا جاتا تو مکہ مکرمہ کی طرف پشت ہوتی تھی۔ مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحکمِ الہی بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا فرمانے لگے ۔ سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی اہلِ اسلام کا قبلہ رہا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرزو یہی تھی کہ کعبۃ اللہ کو قبلہ بنایا جائے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں فرمانِ الہی کا انتظار فرما رہے تھے اور قلبی کیفیت یہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کی حالت میں با ر بار سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ،اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدھر خواہش تھی ادھر ہی قبلہ تبدیل کر دیا،تحویلِ قبلہ کے متعلق ساری تفصیلات درج ذیل آیات میں بیان ہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے : عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا ؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے ۔اور اسی طرح (اے مسلمانو )ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) صرف اس لیے بنایا تھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے ۔ یہ قبلہ کی تبدیلی ایک مشکل سی بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے (بالکل مشکل نہیں)جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ وہ تو لوگوں کے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔بیشک ہم دیکھ رہے ہیں آپ کے چہرے کا بار بار اٹھنا آسمان کی طرف، (وحی کے انتظار میں اے پیغمبر)سو ہم ضرور پھیر دیں گے آپ کو اس قبلے کی طرف جو آپ کو پسند ہے ، پس آپ پھیر دو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف اور تم بھی (اے مسلمانو) جہاں کہیں بھی ہو، پھیر دو اپنے چہروں کو اسی طرف اور بیشک وہ لوگ جن کو دی گئی(آسمانی)کتاب، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم قطعی طور پر حق ہے ان کے رب کی طرف سے (مگر ضد اور عناد کی وجہ سے وہ مانتے نہیں) اور اللہ بے خبر نہیں ان کے ان کاموں سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔( البقرہ: ۱۴۲،۱۴۳،۱۴۴) ان آیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے تھے ، اس سے اس شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحویل قبلہ کے سلسلے میں رکھتے تھے ۔اللہ تعالیٰ کے لیے تو دونوں سمتیں برابر ہیں۔کعبہ ہو کہ بیت المقدس مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چونکہ کعبہ پسند ہے اس لیے صرف محبوب کی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ نے قبلہ تبدیل کر دیا۔ سید قطب شہید اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں کہ یہودیوں اور کٹ حجتیوں اور دلیل بازیوں سے مجبور ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ چاہنے لگے تھے کہ مسلمانوں کا موجودہ قبلہ بدل جائے ۔چونکہ مسلمان یہودیوں کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے اور یہودیوں نے اس غلط پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دلی خواہش کے تحت بار بار منہ آسمان کی طرف اٹھاتے ، ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی بات کا اظہار نہ کرتے ، اس خوف سے کہ جناب باری تعالیٰ میں وہ کوئی تجویز پیش کرنے کی جرأت کیسے کریں؟ یا از خود کوئی بات اللہ تعالی کے سامنے کیسے لائیں؟ مبادا کہ اللہ تعالی کو پسند نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش پوری کردی اور جن الفاظ میں یہ خواہش پوری کی ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب کی رضا منظور تھی۔ (فی ظلال القرآن،ج۱،ص۱۲۴) بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی رضاجوئی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرتی ہیں:میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب تعالیٰ عزوجل کو دیکھتی ہوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے ۔(بخاری، کتاب التفسیر،حدیث۴۷۸۸) خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضائے محمد مذکورہ بالا آیت کریمہ میں بظاہرحکم نماز کے قبلہ کی تبدیلی کا ہے لیکن در حقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا اظہا ر ہے ۔ تحویل قبلہ میں رضائے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطلوب تھی ،اس کے بارے میں امام ابن جریر طبری نے بھی لکھا ہے کہ: قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان کی طرف چہرہ انور کئے ہوئے تھے اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کعبہ کی طرف پھیر دے تب یہ آیت مقدسہ نازل ہوئی ۔ (جامع البیان فی تاویل القرآن ،ج۲،ص۶۵۶) قبلہ کی تبدیلی پر جس طرح سے اہلِ ایمان نے عمل کیا اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں: سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ، پھر جب آیت کریمہ نازل ہوئی ترجمہ: ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں، لہذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے ۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام(کعبہ)کی طرف پھیر لیجئے ۔ بنو سلمہ میں سے ایک آدمی اُدھر سے گزر رہا تھا کہ وہ لوگ فجر کی نماز میں رکوع کی حالت میں تھے اور ایک رکعت بھی پڑھ لی تھی اس آدمی نے بلند آواز سے کہا کہ قبلہ بدل گیا ہے یہ سنتے ہی وہ لوگ اسی حالت میں قبلہ کی طرف پھر گئے ۔(مسلم شریف، حدیث۵۲۷) سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ لوگ صبح کی نماز قبا میں پڑھ رہے تھے اسی دوران ایک آنے والے نے آکر کہا کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پہلے ان کے منہ شام کی طرف تھے پھر کعبہ کی طرف گھوم گئے (مسلم شریف،حدیث۵۲۶) مسجد قبلتین میں بھی دورانِ نماز جہت تبدیل کی گئی۔یہ ساری آدائیں اللہ تعالیٰ کے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان محبوبیت کو واضح کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم اس لیے بھی نازل فرمایا کہ دیکھیں کون کون میرے محبوب کی اتباع میں کامل ہے : ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے