پاکستان میں انتخابات ایک ایسا گنجلک معاملہ ہے جسے ہر سطح پر مشکل کا سامنا ہے۔قومی انتخابات کئی برسوں سے ہر پانچ سال بعد منعقد تو کیے جا رہے ہیں لیکن ہر انتخاب ایک نئے سیاسی بحران کو پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ہارنے والی جماعت نتائج کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے اور سیاسی انجنیئرنگ کو اپنی شکست کاذمہ دار ٹھہرا کر حکومت وقت کو گرانے کی مہم میں جت جاتی ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت چاہے عسکری ہو جمہوریت کے نام پر ہی چلائی گئی ہے۔ جتنے بھی فوجی حکمران آئے انہوں نے اپنے ادوار میں انتخابات کروائے بلکہ ان کو تو بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔عسکری حکومت کو غیر آئینی ہونے کی وجہ سے بہت سی قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنا پڑتا ہے اس لیے طویل المدتی حکمرانی کے لیے ہر فوجی حکمران نے سیاسی جماعت کو اپنا دست و بازو بنایا۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ سویلین حکومتیں بھی جب اقتدار میں آئیں تو انہوں نے انتخابات کو سوائے اقتدار تک پہنچانے والی سیڑھی کے کوئی اہمیت نہیں دی۔ سیاسی جماعتوں کے مابین ایک دوسرے پر بھروسہ نہ ہونا بہت سی خرابیوں کا سبب ہے۔اتحاد کے لیے جماعتوں کا ایک نظریے پر اکٹھا ہونا ضروری نہیں۔ لیکن اگر یہ جماعتیں جمہوریت کے حصول کو قدر مشترک بنا لیں تو ان کی جدوجہد کا سارا جھکاو عوام کی فلاح کی طرف ہو سکتا ہے۔ جمہوریت اپنی اصل شکل میں معاشرے میں قانون کی حکمرانی، طاقت کی تقسیم اور بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ آزادی اظہار رائے و نقل و حرکت ، مذہب اور جان و مال کے تحفط کا نام ہے۔ اقدار کے اس مجموعے کو مغرب میں Constitutional Liberalism کہا جاتا ہے جس کے مطابق انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی صرف ایک شق ہے۔ ہٹلر اس کی بہترین مثال ہے۔ وہ جرمنی کا چانسلر آزادانہ انتخابات کے بعد بنا تھا۔ Constitutional Liberalism کی سادہ تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت بنانے کا انتظامی عمل ہی اہم نہیں بلکہ منتخب حکومت کے مقاصد زیادہ اہم ہیں۔ حکومت پا لینے کے بعد جیتنے والا ان مقصد کو بھول جائے تو ایسی حکومت کو جمہوری تو کہیں گے لیکں آئینی نہیں۔ اسی لیے چاہے پاکستان میں جتنے بھی انتخابات کروا لیں، نتیجہ صفر ہی نکلے گا کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے مقاصد کی تکمیل کو اپنا زاد راہ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر مقاصد کو نصب العین بنا لیا جائے تو پھر عدالتوں کے جج کا غیر جانبدار ہونا، عدالتوں کا آزاد ہونا، لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنا، تعلیم و صحت کی سہولیات کی منصفانہ تقسیم اور سب سے بڑھ کر حکومتی خزانے کے استعمال پر ایسا پہرہ بٹھانا کہ ایک پائی بھی اگر استعمال ہو تو اس کی وجہ بتائی جائے جیسے قدم اٹھانا ہو نگے۔ ہم بیرونی قرضوں کے لیے عوام کو پیس دیتے ہیں لیکں یہ نہیں بتایا جاتاکہ پیسے کہاں استعمال ہوئے۔ کچھ پل بنا کر، کچھ بڑے ہسپتال بنا کر، چند لنگر خانے کھول کر اور غیر فعال پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بنا کر قرضوں کی کہانی کو دھندلا کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں جمہوریت کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے دو اہم موضوعات پر نظر ڈال لینا ہی کافی ہو گا۔ کچھ روز قبل پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری ہوئی جس میں الیکشنز ایکٹ کی دفعات 209 اور 210 کی خلاف ورزی پرذیلی دفعہ 215(4) کے تحت دس سیاسی جماعتوں کو متنبع کیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے پارٹی انتخابات نہ کروائے تو ان سے انتخابی نشان واپس لے لیے جائیں گے۔ساتھ ہی ان 6 جماعتوں کا ذکر بھی کیا گیا جن کے انتخابی نشان ضبط کر لیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن جماعتوں کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا ہے ان میں پاکستان کی مقبول ترین جماعتیں جیسے مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو یقین دلایا تھا کہ وہ اپنی مقررہ تاریخ پر پارٹی انتخابات کر وائیں گی لیکن دونوں جماعتوں نے دو دو بار نئی تاریخ دینے کے باوجود انتخابات نہیں کروائے۔ گو کمیشن نے ان جماعتوں کو بھی آگاہ کر دیا ہے کہ مزید مہلت نہیں ملے گی لیکن ہم جانتے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور احساس ذمہ داری گہنا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی ہر سیاسی جماعت بلدیاتی الیکشن کروانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ جن لوگوں نے عمران خان کو سپورٹ کیا ان کے لیے اس سے بڑی شرمندگی کیا ہوگی کہ بلدیاتی الیکشن کروانا تو دور کی بات پی ٹی آئی نے 9 مئی 2019 کو پنجاب میں چلتے بلدیاتی نظام کو ختم کر دیا۔ جسے پھر سپریم کورٹ کے حکم سے اکتوبر 2021 کو بحال کیا گیا لیکں اس کی مدت بھی 31 دسمبر 2021 کو ختم ہو گئی۔ پاکستان میں جب بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے یا تو سپریم کورٹ کے حکم کی بدولت ہوئے یا فوجی دور میں۔ دونوں صورتوں میں چونکہ ان انتخابات کے پیچھے سیاسی سوچ اور سیاسی نظام کو تقویت دینے کی نہ تو نیت تھی نہ منصوبہ بندی اس لیے ان بلدیاتی انتخابات سے نچلے درجے تک طاقت کی منتقلی کا عمل کبھی بھی پورا نہ ہوسکا۔ انٹرا پارٹی اور بلدیاتی انتخابات بہت ہی اہم آئینی ذمہ داریاں ہیں۔ اول الذکر کے ذریعہ ان لوگوں کو جماعت کے انتظامی ڈھانچے کا حصہ بنایا جاتا ہے جو اس کے اہل ہوں یعنی اگر پارٹی ورکرز یہ سمجھتے ہوں کہ پارٹی کا چیئرمین کسی اور کو ہونا چاہیے تو اسے بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اسی طرح بلدیاتی انتخابات علاقائی سطح پر گورننس پہنچانے کا سلسلہ ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ مالیاتی اختیارات نچلی قیادت تک منتقل کیے جائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عشروں سے نواز شریف اور ان کے بھائی مسلم لیگ ن کے صدر ہیں۔اسی طرح پی ٹی آئی بھی ہر بار عمران خان کو پارٹی چیئرمین منتخب کرتی ہے۔یہ ہی حالات باقی پارٹیوں کے ہیں، جماعت اسلامی کو نکال کر۔ دراصل مسئلہ طاقت اور مالیاتی اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ہمارے سیاست دان طاقت اور دولت کو صرف اشرافیہ تک محدود رکھنے کے قائل ہیں جس کے لیے پھر ضروری ہے کہ قانون کا دور دور تک انصاف فراہم کرنے سے کوئی تعلق نہ ہو۔