ہر سو فساد برپا ہے۔ گلی، محلے، کوچہ و بازار اورپارلیمانی ایوانوں میں توتکار ‘ ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑا‘ تخریب، انتشار، خلفشار، بحران، ہیجان، قومی شیوہ‘صرف ہیجان واضطراب نہیںفکر وعمل اور خیال و کردار میں یکسوئی کم‘ بے صبری‘ مایوسی اور بے یقینی زیادہ۔ اس قدر پریشان خیالی کہ اقبال ہوتے تو پکار اٹھتے ، شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے اس راز کو اب فاش کر ‘ اے روح محمدؐ آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے آج یوم اقبالؒ ہے جس پر سالانہ چھٹی میاں نواز شریف کے دور میں منسوخ ہوئی اور نواز شریف کے بدترین ناقد عمران خان نے یہ روائت برقرار رکھی وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی ہاں میں ہاں ملائی کہ ہم ہفتے کے سات دن کام کرنا چاہتے ہیں۔تیری آواز مکّے اور مدینے۔مگر قوم روزانہ ٹی وی چینلز پر وزیروں ‘ مشیروں اور ارکان اسمبلی کو ایوان میں ایک دوسرے کے گندے کپڑے دھوتے دیکھتی اور سوچتی ہے کہ واقعی کام ہو رہا ہے مگر چھوڑیں اقبالؒ کا ذکر کرتے ہیں۔ فقیر وحید الدین ’’روزگار فقیر ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’کل صبح میں اقبال کے ہاں گیا تو وہ گویا میرے منتظر بیٹھے تھے‘ دیکھتے ہی کھل اٹھے اور کہا اچھا ہوا فقیر تم آ گئے۔ سنا ہے حضرت داتا گنج بخش ؒکی درگاہ میں آج کل کوئی بہت ہی روشن ضمیر بزرگ قیام رکھتے ہیں ان سے ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں سے یہ وعدہ ایزدی ہے کہ وہ اقوام عالم میں سرفراز و بلند ہوں گے تو آج کل یہ قوم اتنی ذلیل و خوار کیوں ہے ‘اچھا ہے تم بھی ساتھ چلو، اکیلے یہ زحمت کون کرے۔۔۔۔‘‘کئی روز تک پروگرام بنتا اور بگڑتا رہا کہ اقبالؒ تیاری نہ کر پاتے۔ ایک صبح میں عمداً دیر سے پہنچا کوئی گیارہ بجے کا وقت ہو گا۔اقبال کو دیکھا تو ان کی عجیب کیفیت تھی، رنگ زرد، چہرے پر ہوائیاں اْڑ رہی ہیں ‘تفکر و اضطراب کا یہ عالم کہ جیسے کوئی شدید سانحہ گزرگیا ہو۔ میں نے پوچھا خیر تو ہے ؟کہنے لگے فقیر! میرے قریب آکر بیٹھو تو کہوں‘ آج صبح یہیں بیٹھا تھا۔علی بخش نے آکر اطلاع دی کہ کوئی درویش صورت آدمی ملنا چاہتا ہے‘ میں نے کہا بلالو، ایک درویش صورت اجنبی میرے سامنے خاموش آکھڑا ہوا۔ میں نے کہا فرمائیے آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے ؟ اجنبی بولا ہاں تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے؟ میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں اور اس کے بعد مشہور شعر پڑھا ، گفت رومی ’’ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند‘‘ توندانی، ’’اول آں بنیاد را ویراں کنند‘‘ (ترجمہ :مولانا روم نے فرمایاجب کسی بوسیدہ عمارت کو تعمیر کرنا مقصود ہو تو پہلے اس کو گرایا جاتا ہے)موجودہ حالات کیا اس درویش کی پیشگوئی کے مطابق ظہورپذیر ہیں؟ کیا کہنہ عمارت کو گرانے کا قدرتی عمل ہمیں فساد فی البروالبحر کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔ مگر یہ بوسیدہ عمارت ہے کیا جس کی تخریب مقصود ہے ؟ اقبال ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ’’یہ خیال غلط ہے کہ سائنس اسلام کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ دراصل اسلام بلکہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل کا عقیدہ ہے اور جو لوگ نوع انسانی سے محبت رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ ابلیس کی اس اختراع کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔میں دیکھ رہا ہوں کہ قومیت کا عقیدہ جس کی بنیاد نسل یاجغرافیائی حدود ملک پر ہے مسلمانوں میں غلبہ حاصل کر رہا ہے اور مسلمان عالمگیر اخوت کے نصب العین کو نظرانداز کرکے اس عقیدے کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں‘‘ رنگ ونسل، جغرافیہ و وطن کے گمراہ کن نظر یے کا ناقد اقبال، اقبال کیسے بنا؟ ’’راجہ حسن اختر مرحوم نے ایک بار حضرت علامہ اقبال سے بصدعقیدت و احترام پوچھا آپ کو اقبال کس چیز نے بنایا جواب دیا ’’حضوراکرم پر بکثرت درود وصلواۃ نے ‘‘ فقیر وحید الدین کے بقول ‘‘ ایک بزرگ نے ڈاکٹر صاحب سے کہا مجھے آنحضرت ﷺکے دیدار کا شوق ہے لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا اگر آپ کو واقعی آنحضرت ؐکے دیدار کا شوق ہے تو اسوہ رسول ؐپر چلیے اور وہ اوصاف پیدا کیجئے جو صحابہؓ نے آنحضرتؐ کے اسوہ پر چل کر اپنے اندر پیدا کئے ‘آپ کی آرزو خود بخود پوری ہو جائیگی ‘‘ اسوہ رسول ؐپر عمل اور عشق رسول ؐکا بے پایاں جذبہ اقبال کے رگ وپے میں موجزن ہوا تو اس پر اسرار خودی منکشف ہوئے اور وہ مرد قلندر، دوسروں کو آداب خود آگاہی سکھانے لگا۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی کہتے تھے ’’مجھے 1935ء سے 1938ء تک علامہ کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جب بھی سرکار دوعالم ﷺکا نام نامی اسم گرامی زبان پر آتا آنکھیں پرنم ہو جاتیں ۔ایک دن غازی علم الدین شہید کا ذکر ہوا تو فرط عقیدت سے اٹھ کر بیٹھ گئے‘ آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگے ’’اسی گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا‘‘ ’’کسی نے پوچھا علم الدینؒ کی موت شہادت ہے یا نہیں ؟فرمایا حضور کی ذات پر حملہ ایمان و عقیدہ کا قتل ہے۔ اس اقدام کی مزاحمت و مدافعت صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہوتی ہے وہی اس کا ٹھیک اجر دینے والا ہے۔ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرے سامنے کہے کہ تمہارے پیغمبر ؐنے ایک دن میلے کپڑے پہنے تھے ‘‘ مخدوم الملک غلام میراں شاہ ( یوسف رضا گیلانی کے نانا)کے نام خط میں اقبال نے لکھا ’’میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ حضورؐ کے روضہ مبارک پر یاد بھی کیا جائوں تاہم آپ ؐکے اس ارشاد سے جرأت ہوتی ہے کہ الطالح لی (یعنی گناہگار میرے لئے ہے) امید ہے کہ آپ اس دربار میں پہنچ کر مجھے فراموش نہ فرمائیں گے‘‘ اس عاشق رسول ؐنے آل انڈیا مسلم کانفرنس لاہور میں اپنے تاریخی خطبہ الہ آباد کی مزید تشریح یوں کی ’’سیاست کی جڑیں انسان کی روحانی زندگی میں ہیں یہ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام ذاتی رائے کا مسئلہ نہیں اسلام ایک سماج ہے ‘‘جبکہ نوجوانوں کو نصیحت کی کہ ’’وہ دہریت اور مادیت سے محفوظ رہیں اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مذہب اور حکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ان کی تہذیب روحِ اخلاق سے محروم ہو گئی اور اس کا رخ دہریا نہ مادیت کی طرف پھر گیا ‘‘ آج کے پریشان ، مایوس اور منتشر الخیال انسان اور مسلمان کے لئے نجات اور سکون قلب کا نسخہ کیمیا کیا ہے؟مغرب کے سیاست و مذہب میں تفریق پر مبنی نظریہ وطنیت کی بہ دل وجان مقبولیت یا کہنہ عمارت کو مسمار کرکے ’’اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے‘‘ کی بنیاد پر ایک نئی عمارت کی تعمیر‘ جو جذبہ عشق رسول ؐاور پیروی اسوہ رسول ؐکے بغیر ممکن نہیں۔جبکہ ابلیس کے فرزند آج بھی اپنے جد امجد کے اس پیغام کو حرز جاں بنائے ہر ممکن سعی وکاوش کر رہے ہیں۔ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو کئی عشروں تک منکر خدا ،مذہب دشمن سوویت یونین نے یہ کوشش کر دیکھی ،ناکام رہا مٹ گیا۔اب امریکہ و یورپ فاقہ کش مسلمانوں کے بدن سے روح محمد ؐنکالنے کے لئے عسکری، اقتصادی، معاشی اور سماجی قوت و تدبیر آزما رہا ہے مگر نتیجہ ؟آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی۔ لیکن ہم جو کلمہ گو ہیں عشق رسولؐ کے دعویدار‘ کیا کر رہے ہیں، وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نور توحید کا پیغام ابھی باقی ہے اور اقبال کی نصیحت یہ ہے کہ قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے اقبال کو درویش صفت اجنبی نے وعدہ ایزدی کے ایفا کی صورت بتائی اور اقبال نے جواب شکوہ کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں پر کامیابی کا راز افشا کیا۔ کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں لوح وقلم تک رسائی کی یہ بنیادی شرط ہم نے پوری کی ؟اپنے آقا ؐو مولاسے وفا اور عشق رسول ؐکے تقاضے نبھائے؟ یوم اقبال پر سوچنا چاہئے۔ گفت رومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند تو ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند تخریب کا عمل زوروشور سے جاری ہے مگر تعمیر ؟