اپنے گزشتہ پچھلے کالم میں محترمہ منیزہ ہاشمی کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ’’کون ہوں میں‘‘کا ذکر آیا تھا۔ یہ دراصل پی ٹی وی پر بہت سی ممتاز شخصیات کے کئے گئے انٹرویوز تھے، جو اب کتابی صورت میں شائع ہوئے۔اپنے اپنے شعبوں کی نامور خواتین سے کی گئی یہ گفتگو آج بھی پہلے جیسی تروتازہ ہے۔ ان میں محترمہ بے نظیر بھٹو، بلقیس ایدھی، جذام کے لئے بے پناہ سماجی خدمات انجام دینے والی مادام ُرتھ فائو، سیاسی شخصیت بیگم نسیم ولی خان،آپا بانو قدسیہ ،مظہرعلی خان کی اہلیہ اور ادیب دانشور طارق علی کی والدہ طاہر ہ مظہر علی خان، وقارالنسا نون، بیپسی سدھوا، زہرہ نگاہ، ڈاکٹر فاطمہ شاہ، بیگم زری سرفراز، ملکہ پکھراج، فریدہ خانم، صبیحہ خانم، شمیم آرا، سورن لتا،عابدہ پروین، بہاربیگم، سلیمہ ہاشمی، بابرہ شریف شامل ہیں۔انٹرویوز خوب ہیں، ان پر لکھے گئے مصنفہ کے نوٹ اس سے بھی عمدہ ہیں ۔ یہ کتاب دو تین سال پہلے شائع ہوئی ، مجھے البتہ تاخیر سے اسے پڑھنے کا موقعہ ملا، اس لئے اس تحریرپر کتاب کو پروموٹ کرنے کا الزام بھی نہیں لگ سکتا، اگرچہ کتاب کو پھیلانے او ر فروغ دینے سے بہتراور اچھا کام اور کیا ہوسکتا ہے۔ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ ٹاک شوز میں کسی شخصیت کو بلا کر اینکر بیشتر وقت خود گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مہما ن غریب اس کا چہرہ تکتا رہتا ہے۔ منیزہ ہاشمی نے اس کے برعکس اپنا تمام تر فوکس مہمان پر رکھا، کیمرہ بھی مہمان پر رہتا۔انہوں نے کہیں پر بات کاٹنے اور اپنی علمیت جتانے کی کوشش نہیں کی، بڑی نرمی، آہستگی سے مہمان کو بولنے پر آمادہ کیا اور ان کی اندرونی شخصیت کی پرتیں کھولتی رہیں۔صحافت ،خاص کر انٹرویوز سے دلچسپی رکھنے والوں نوجوانوں کو اسے ضرور دیکھنا چاہیے۔ ان میں سے بہت سے انٹرویو اس قابل ہیں کہ ان پر بات ہو۔ مجھے سب سے زیادہ اہم آپا بانو قدسیہ کی باتیں لگیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں تخلیق کاروں کی اندرونی کیفیت بیان کی اور بتایا کہ تخلیق کا موسم لکھنے والوں پر کیا قیامت لے کر آتا ہے۔ کالم کی گنجائش کم ہوتی ہے، مجبوراً چند اقتباسات ہی دے رہا ہوں۔ بانو آپا کہتی ہے :’’ہر انسان کچھ نہ کچھ creative کام کرتا ہے۔ اسے زندگی میں سب سے پہلے جس چیز سے دو چار ہونا پڑتا ہے وہ تنہائی ہے… شخصی تنہائی… جس میں وہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں اپنے بہن بھائیوں سے مختلف ہوں۔ میں اپنی ماں سے مختلف ہوں، میں اپنے باپ سے مختلف ہوں، میں اپنے دوستوں سے مختلف ہوں۔ جس کی وجہ سے وہ ایک خاص قسم کے کوئے (خول) میں چلا جاتا ہے جو ریشم کے کیڑے کا نہیں ہوتا… اس خول میں جا کر اسے احساس ہونے لگتا ہے کہ اسے کچھ کرنا ہے، بہت جلد۔ اسے پتہ نہیں چلتا کہ اسے کیا کرنا ہے؟ آئن اسٹائن بننا ہے کہ اسے فیض صاحب بننا ہے، یا میر درد بننا ہے… لیکن جیسے سیپ کی تنہائی میں موتی بنتا ہے، اسی طرح اُس شخص کی تنہائی بھی اندر کہیں تراش خراش کرنے لگتی ہے۔ ’’کچھ لوگوں کو اوّلین زندگی میں مواقع بھی ایسے ملتے ہیں کہ انہیں یہ احساس شدت سے ہوتا ہے… اور وہ بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کی منزل کیا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں بہت دیر تک پتہ نہیں چلتا کہ انہیں کیا کام کرنا ہے۔میرا ذاتی طور پر خیا ل ہے کہ جہاں جہاں سپورٹ سسٹم اچھا ہوتا ہے، وہاں انسان بہت زیادہ اچھا کام کر سکتا ہے۔میری کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ میرے شوہر کا ہے…۔ وہ ہمیشہ جب گھر آتے، پہلا سوال میری ذات سے کرتے تھے کہ آج تم نے کتنے گھنٹے لکھا، اور کتنے صفحے لکھا۔ یہ کبھی نہیں پوچھا… کیا پکایا ہے، ہم کیا کھائیں گے، بچہ ٹھیک ہے نہیں ہے…۔ ’’دوسری شخصیت جس کا میری کامیابی میں بہت اہم کردار ہے وہ میری والدہ ہیں۔ بچپن میں جو باتیں انہوں نے مجھے بتائیں وہ اب کام آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ گھر میں غیر ضروری باتوں پر بحث کر کے فساد نہ ڈالنا… وہ کہتی تھیں بولو مگرمحبت سے…اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچنا، دوسروں کے پوائنٹ آف ویو کو سمجھنے کی کوشش کرنا۔ میں کوئی دس بارہ سال کی ہونگی جب وہ مجھے کہتی تھیں وقت ضائع مت کرو۔ ایک ہی بات پر ان کا اصرار تھا، کھانے میں، سونے میں، گپیں مارنے میں، ہر چیز کا ناپ تول رکھو، ان کا حساب کتاب کر لو اور وقت ضائع نہ کرنا۔ آپ یقین نہیں کرینگی کہ چھوٹی عمر میں بھی انہوں نے مجھے چرخہ کا تنا سکھا دیا تھا کہ جب سب چیزوں سے اکتا جاؤ تو چرخہ کات لیا کرو۔ وقت کو اہمیت دو۔ ’’مجھے ایک شاعر ملاتھا… گم نام سا شاعر… اوسلو میں… اس نے بڑی خوبصورت نظمیں لکھی تھیں۔ کوئی نظم کہیں چھپی نہیں تھی، پھر اس نے ترجمہ کر کے مجھے دو تین نظمیں بھیجیں۔ اس نے لکھا کہ تخلیقی عمل ایک ایسی چیز ہے جیسے روزِ قیامت۔ میں دماغ میں روزِ قیامت کو بند کر لیتا ہوں جو مجھے جینے نہیں دیتی، نہ میں رات سو سکتا ہوں اور نہ دن گذار سکتا ہوں۔ ’’آپ ایسے سمجھ لیں کہ جیسے آپ نے ایک کیتلی چڑھائی ہو پانی کی اور اس کی بھاپ نکلنے کا رستہ بند کر دیں تو جو کچھ پانی پہ گذرتی ہے اس وقت وہی کیفیت تخلیقی عمل سے گذرنے والے پر طاری ہوتی ہے۔ یہ اتنا عجیب و غریب احساس ہے کہ آپ کے اردگرد موجود ایک عام آدمی، اس کو سمجھ بھی نہیں سکتا۔تخلیقی کام کرنے والے لوگ اس دوران کچھ عجیب سے ہو جاتے ہیں۔ آپ کا منہ بنا ہوا ہے، آپ کی آنکھیں ڈراؤنی ہوئی ہیں۔ چلتے پھرتے ایک خوف ناک شکل بنی ہوئی ہے۔ دراصل آپ کچھ create کرنے کے بالکل قریب ہیں۔ پھر آپ تنہائی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا مغرور اور بدتمیز آدمی ہے میں نے اسے سلام کیا اس نے سلام کا جواب نہیں دیا، دراصل اسے وہ آدمی نظر ہی نہیں آیا۔ بازار میں آپ اپنے تھیلے بھول آئیں گے، زیادہ پیسے دے دینگے ۔ وہ لوگ نہیں سمجھیں گے کہ یہ شخص اس وقت یہاں نہیں ہے کسی اور جگہ پر ہے۔ کسی اور دنیا کا مسافر ہے۔ ’’ سب creative artist اندر کی تہلکہ خیز زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے بہت ساری چیزیں ملی ہوئی ہوں اور انہیں الگ الگ کرنا ہو۔ جیسے آپ کو ایک لمبے سفر پہ جانے میں آدھا گھنٹہ ہو اور پیکنگ بھی اسی میں کرنی ہے۔ ایک آرٹسٹ مسلسل ذہنی ہیجان کا شکار ہوتا ہے۔تو جو بات کہنی ہو اور وہ کہہ دی جائے تب ایک گہری طمانیت انسان کا حلقہ کر لیتی ہے۔ تب لکھنے والا اپنی creativity پر خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ اس عذاب سے نکلنے پہ خوش ہوتا ہے… اکثر تخلیق کاروں کو اس جبری عذاب کا سامنا رہتا ہے۔‘‘ منیزہ ہاشمی: کیا مسلسل لکھتے رہنے سے تحریر کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ بانوقدسیہ:’’ آپ نے ایک بہت ہی نازک، حساس اور اہم موضوع کو چھیڑ دیا ہے… تربوز کی مثال لیجئے اگر اس کا بیج اچھا ہو گا اور وہ ریتیلی زمین پر اچھے موسم میں ڈالا جائے گا تو اندر سے یقینا سرخ نکلے گا۔ اگر اس کو گیلی مٹی پہ ڈال دیا جائے اور اس کا بیج بھی اچھا نہ ہو تو غالباً جب آپ اسے کاٹیں گی تو وہ سفید اور بے ذائقہ نکلے گا… ایسے ہی creative artist کی مثال ہے… اگر اس کے اندر صلاحیت موجود ہے، قوتِ تخلیق موجود ہے اور وہ اسی کام کے لئے بنایا گیا ہے تو اگر اس کو ماحول اچھا میسر آ جائے، وقت پر اچھا ساتھی مل جائے، اچھا استاد مل جائے، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کا کام بہت ہی اچھا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک شخص ہے، اس کی آواز بالکل نہیں اور وہ چوبیس سال ریاض کرتا رہے تو وہ کہیں پہنچتا نہیں … ۔ سب سے بڑی چیز اللہ کی توفیق ہے، صرف روز کی مشقت سے کچھ نہیں ہوتا۔ ’’کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی جملہ آپ کو چونکا دیتا ہے اور وہ جملہ نہ تو اس کتاب میں ہوتا ہے نہ اس اخبار میں جسے آپ پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔ میں آپ کو مثال کے طور پر بتاؤں، میں نے ایک کہانی لکھی تھی اس کا پہلا جملہ تھا، ’’اس کے دل کے اندر غم و غصے کی جو کیفیت تھی وہ ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی تھی‘‘… اب یہ جملہ سوجھا… اس کے بعد وہ کسی اور جملے سے، واقعات سے جڑ جاتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ آج تک میں نے کسی سے واقعات ادھار لے کر یا اردگرد کی ماحولیات سے لے کر کچھ نہیں لکھا۔ میں کچھ خوشبو کے تعاقب میں لکھتی ہوں، مجھے جہاں سے خوشبو آتی ہے اس کے بارے میں لکھتی ہوں۔ یہ خوشبو ہوتی ہے واقعات کی، محبت کی، کہانیوں کی… میں چلتی جاتی ہوں تو آگے مجھے کبھی کبھی پھول بھی مل جاتے ہیں، کبھی نہیں بھی ملتے… ایک آرٹسٹ اس معاملے میں مہربہ لب رہتا ہے۔ وہ اپنی creativity کے متعلق آپ کو کچھ نہیں بتا سکے گا۔ کیونکہ پھول نہیں بتا سکتا کہ اس میں خوشبو کیسے پیدا ہوتی ہے۔ نرگس سے پوچھ لیجئے، گلاب سے پوچھ لیجئے۔ کوئی creative artist آپ کو اس جن کی کہانی نہیں بتا سکتا جو اس کے پیچھے لگا ہوا ہے، اور جو اسے برابر بھگاتا رہتا ہے!!!‘‘