جمعہ 10 جنوری کوکوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹائون کے قریب اسحاق آباد کی ایک مسجد میں خودکش دھماکے میں پندرہ نمازی جاں بحق اورمتعدد زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ نماز مغرب کی ادائیگی کے دوران پیش آیا۔ دوسری صف میں کھڑے بد بخت دہشتگرد نے جسم سے بندھے بم کا دھماکا کردیا ۔یقینا مسلمان تھا، جس نے اپنے کلمہ گو مومن بھائیوں کو خون میں نہلا کر زندگی کے ساتھ اپنی آخرت بھی برباد کردی۔ ذمہ داری داعش نامی گروہ نے قبول کرلی ۔جن سے وابستہ افراد کسی دوسری دنیا کی مخلوق نہ ہیں۔افغانستان کے بعض علا قوں میں کمین گاہیں رکھتے ہیں ۔بلوچستان کے اندر لشکر جھنگوی وغیرہ کے لوگ اور سابقہ قبائلی علاقوں کے شدت پسند مسلح گروہوں سے وابستہ افراد ان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر ان کا نیٹ ورک نہیں رہا ہے۔ البتہ شخصی روابط ضرور ہیں۔ پیش ازیں سات جنوری کو کوئٹہ کے میکانگی روڈ پر دھماکا کیا گیا جس میں دو شہری جاں بحق، کئی زخمی ہوئے۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ دہشتگردوں نے پھر سے اپنے لوگ سبوتاژ کے لیے متحرک کرد یے ۔ افغانستان کے اندر داعش نامی گروہ کی شناخت مبہم نہیں ہے۔ وہاںکے اہم افراد اسی طرح افغان طالبان بارہاکہہ چکے ہیں کہ ان افراد کو امریکی سی آئی اے اور کابل انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔افغان طالبان قابض افواج کے ساتھ ان کو بھی ایک لمحہ برداشت نہیں کرتے۔ کئی بار انہیں جانی و مالی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ طالبان اس گروہ کا محاصرہ کرتے ہیں، تو امریکی ، نیٹو اور افغان فورسز طالبان پر فضائی حملہ کرکے انہیں فرار ہونے کا موقع دیتی ہیں ۔ امریکی نمائندے زلمے خلیل زا د اعتراف کرچکے ہیں کہ طالبان کو داعش کی سرکوبی میں کامیابیاں ملی ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی مختلف اوقات میں پکار اٹھے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی سرپرستی ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورتحال میں نئی دہلی لا تعلق ہے۔ دراصل بھارت افغانستان کے اندر کلیدی کردارچاہتاہے۔ کابل انتظامیہ کی پوری عمل داری میں بے لگام ہے ۔ بندوبست اور منصوبوں کا ہدف اگر پاکستان ہے، تو ساتھ افغانستان کے اندر امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی سعی بھی کرتا ہے ۔ اس ضمن میں’’ را ‘‘اور کابل انتظامیہ کے درمیان ہم آہنگی ہے۔ یہ امر بھی مبالغہ سے خالی ہے کہ کابل انتظامیہ کی’’ این ڈی ایس‘‘ امریکی ’’سی آئی اے‘‘ اور بھارتی ’’را‘‘ کے ایک شعبہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ایسے ہی جیسے سابقہ ’’خاد‘‘ کی حیثیت روسی اتحاد کے’’ KGB‘‘ کی تھی ۔ نور محمد ترہ کئی ، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ روسی مشیروں ، معاونین اور کے جی بی کے ماتحت تھے۔ ان کی ہر وزارت روسی معاونین و مشیر چلاتے تھے ۔ کابل ریڈیو اور سرکاری ٹی وی کے اندر تک روسی بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ موجودہ کابل رجیم بھی تحتُ الاثر ہے ،بھارتی اور امریکی Proxies ہیں، بیرونی ہدایات پر عمل کی پابند ہیں۔ اپنے عوام اور ملک کے مفادات سے زیادہ انہیں واشنگٹن اور نئی دہلی کی رضا مقدم ہے۔ چناں چہ کوئٹہ کے اس خودکش حملے کے بعدجاسوسی کے ان اداروں نے حملہ کی تشہیر اپنے مقصد کی تحت کرلی۔ یقینی طور پر دھماکے سے ’’را ‘‘اور ’’این ڈی ایس‘‘ لا تعلق نہ ہیں۔ اس گروہ اور بعض افغا ن ابلاغی حلقوں نے خبر اُڑائی کہ’’ طالبان کے شیڈو چیف جسٹس شیخ عبدالحکیم زخمی ہوگئے۔ اور کوئٹہ شوریٰ کے حلیم احمد خان،گل آغا اخوند اور امان اللہ سمیت ان کے جنگجو جاں بحق ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ عبدالطیف اور نظر محمد نامی افراد جوطالبان کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے پر مامور تھے، بھی چل بسے ۔ نیز بھونڈا پروپیگنڈہ یہ بھی کیا کہ مسجد میں طالبان کی میٹنگ ہورہی تھی۔ جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور منشیات کے اسمگلر بھی شریک تھے‘‘۔ پہلی با ت تو یہ ہے کہ دھماکے میں نشانہ بننے والوں میں کوئی بھی نامعلوم شخص نہ تھا ۔تمام کی شناخت ولدیت سمیت ہوچکی ہے۔ جن میں چھ افغان باشندے تھے۔ اس محلے کے رہائشی بلوچستان پولیس کے آفیسر ڈی ایس پی امان اللہ اسحاق زئی بھی جاں بحق ہوئے۔ یہ محلے کی مسجد ہے ، اہل محلہ نماز ادا کرتے ہیں۔ دوئم ،طالبان افغانستان کے غالب حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں انہیں یہاں میٹنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ رہی یہ بات کہ آئی ایس آئی کے لوگ شریک تھے تو پھر تو یہ اجلاس کوئٹہ چھائونی جیسے محفوظ مقام پر ہونا چاہیے تھا۔ سوئم بلوچستان و کوئٹہ کے اندر ہزاروں لاکھوں افغان باشندے مقیم ہیں۔ اور روزانہ ہزاروں افغان باشندے پاکستان آتے اور جاتے ہیں۔ افغان سرکاری اداروں و محکموں کے ملازمین کے رشتہ دار اور خاندان کے افراد یہاں رہائش رکھتے ہیں۔ وہاں کے بڑے بڑے سیاستدان ،معتبرین اور اراکین پارلیمنٹ کے خاندان یہاں سکونت پذیر ہیں۔ یعنی تجارت پیشہ ہوں یا سرکاری لوگ سب کا پاکستان آ نا جانا رہتا ہے۔ گویا نہ آنے کی قید کسی پر نہیں ہے۔یہاں کی مساجد اور مدارس میں افغان طلباء تعلیم کی غرض سے مقیم ہیں۔بعینہ عصری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔بلکہ افغان قومی کرکٹ ٹیم کے بیشتر کھلاڑی پاکستان میں پلے بڑھے ہیں۔ ان کی تعلیم ،تربیت حتیٰ کہ کرکٹ سے وابستگی بھی پاکستان میں ہی ہوئی ہے ۔سوافغانستان کی اس بڑی سیاسی و مزاحمتی تحریک کا افغان عوام ہی حصہ ہیں ۔ان کے وابستگان کی پاکستان میں رہائش حیرانگی و اَچنبھے کی بات ہرگز نہیں ہے۔ نہ ہی شیخ عبدالحکیم اس دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں ۔ دہشتگردی میں اسحاق آباد کے معلوم لوگ جان سے گئے ہیں۔ ذمہ داری کوئی بھی قبول کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلم کشی ’’را‘‘ اور اس کے طفیلی افغان جاسوسی کے ادارے’’ این ڈی ایس‘‘ نے کی ہے ۔ پاکستان کے نقصان و بدنامی کی کوشش کے ساتھ، مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں رخنہ ڈالنا بھی ہے۔چند ماہ قبل کو ئٹہ کے کچلاک کی ایک مسجدمیں طالبان تحریک کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخوندزادہ کے بھائی حافظ احمداللہ کو بم دھماکے میں قتل کردیا ۔بعض پشتون سیاسی مکتبہ فکر کا اس نوع کی دہشت گردی کی مذمت سے گریز بھی عیاں کرتا ہے کہ ان واقعات میں ہمسایہ ممالک کے ادارے ملوث ہیں ۔ گویانئی دہلی اور کابل کے پاکستانی Proxies کا داعش وغیرہ اور ’’را‘‘ و ’’این ڈی ایس‘‘ کے اشتراک و تخریبی عملیات پر سوال نہ اُٹھانا بھی ایک سوال ہے ۔