شیخ سعدی کی وہ مشہور حکایت تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ ایک لومڑی بھاگم بھاگ جارہی تھی، کسی نے پوچھ لیا کہ وہ کس مصیبت کی ماری تھی تو اس نے جواب دیا تھا کہ جنگل میں بادشاہ کے ہرکارے اور پیا دے اونٹوں کو پکڑ رہے ہیں۔ پوچھنے والے نے لومڑی اور اونٹ کی نسبت پر اعتراض کیا تو اس کا جواب تھا کہ اگر کسی بدخواہ نے ہوا ء اڑا دی کہ یہ اونٹ کا بچہ ہے تو وہ کہاں لیے وکیل ڈھونڈتی پھرے گی۔ وفاق اور تین صوبوں میں براجمان حکومت کی حالت بھی اسی لومڑی جیسی ہی ہے۔ حالات کا جبر ہی تو ہے کہ اپنے سائے تک سے ڈرنا شروع ہوگئی ہے۔ خود اعتمادی میں کمی کا عالم یہ ہے کہ نا کردہ گناہوں پر پکڑے جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کا مسئلہ ہے ہی یہی کہ اس نے حکومت والا کوئی کام ڈھنگ سے کیا ہی نہیں۔ وہ جو چٹکی بجا کے کہتے تھے کہ معیشت کو لمحوں میں سیدھا کردیں گے ، غیر ملکوں میں رکھا گیا کرپشن کا پیسہ واپس لائیں گے ، غریب اور متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا انحصار کم کریں گے اور دولت مند لوگوں سے نہ صرف مراعات واپس لیں گے بلکہ ان سے حصہ بقدر جثہ بھی لیں گے اڑھائی سال، حکومت کر گزرنے کے بعد ان معاملات پر وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ جہاں تک عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کی بات تھی تو لازمی اشیا اور خدمات کی ترسیل کا واحد راستہ خود مختار حکومتیں ہوسکتی تھیں۔ اس معاملے میں بھی حکومت مگر کچھ نہیں کرپائی کہ مالی خسارے سے جان چھوٹے تو کچھ اور سوچیں۔ چلیں سندھ کے معروضی حالات کچھ اور ہیں ، پنجاب ، پختونخواہ اور بلوچستان میں تو یہ انقلاب لا یا جاسکتا تھا۔ سیدھی سادی بات تھی کہ دنیا بھر میں جہاں ریاست کامیاب ہے اس کی سب سے بڑی خوبی قانون کی بالادستی اور ترقی پسندانہ ٹیکس پالیسی اور خود مختار مقامی حکومتیں ہیں ۔ اگر تبدیلی لانا ہی تھی تو راستہ یہی تھا ۔ لیکن تبدیلی سرکار آتے ہی روایتی بکھیڑوں میں پڑگئی۔ اپنے ایجنڈے پر مناسب تیاری نہ ہونے کے باعث اسے یہ بابو ٹائپ لوگوں کے حصار میں چلی گئی اور پھر وہی مالیاتی خسارے کا رونا اور اس پر قابو پانے کے روایتی طریقے۔ جال میں ایسی پھنسی کہ اڑھائی سال ہوش ہی نہیں رہا ، نہ اپنا اور نہ ہی عوام کا۔ وبا کا بہانہ الگ ۔ آئیں ، بائیں ،شائیں بہت کرلیا۔ مزید بات نہیں بن رہی۔ جن لوگوں کو احتساب میں گھسیٹا ، اب تو وہ بھی اس بھٹی سے نئے نویلے ہوکر واپس آچکے ہیں ۔ سیاسی فضا اس بے سود احتسابی عمل سے اتنی مکدر ہو چکی ہے کہ وہ لازمی اصلاحات جن سے اسکے انقلابی ایجنڈے کی تکمیل ہونا تھی، اب سہانا خواب ہی نظر آتا ہے۔ اس پر مستزاد ایک کالعدم سیاسی جماعت سے مذاکرات اور پھر اس کی شرائط پر سر تسلیم خم کر نا ہے۔ یہ یقینی طور پر کچھ نہ کرنے کی پالیسی کا لایا گیا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ فرانس کے سفیر کی بیدخلی سے متعلق معاملہ پارلیمان میں جانے سے حزب اختلاف ہی نہیں پورا نظام بند گلی میں پھنس گیا ہے۔ قرارداد پر اتفاق رائے ہوا نہیں تھا اور معاملے کی حساسیت سے قطعہ نظر ،دال جوتیوں میں بٹ رہی تھی کہ بھارت میں وبا کی بگڑتی صورتحال کی خبر پہنچ گئی۔ پارلیمان کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔لوگوں کو ماسک پہنانے کے لیے فوج طلب کر لی گئی ہے کہ پولیس اس سلسلے میں ویسے ہی ناکام ہوگئی ہے جیسے وہ امن وامان قائم کرنے میں۔ اب اگر فوج گلی محلے کی سطح پر پھیل گئی ہے تو حکومت کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات وزیر اعظم نے قوم کے نام پیغام میں واضح کردی ہے کہ ویکسین نہیں ہے تو عوام کو ماسک پہننا پڑے گا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کب تک کم ازکم اسی فیصد عوام کو ویکسین لگ پائے گی کیونکہ اپنے پاس پیسہ تو ہے نہیں کہ مارکیٹ سے اٹھالیں۔ غیر ملکی امداد پر انحصار ہے لیکن اگلوں کی مرضی کہ کب اور کتنی دیں۔ جتنا طاقت کا عدم توازن اور قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ جتنی کھیپ ملے وہ بھی گھوم پھر کر مخصوص افراد کو ہی لگتی رہے گی کہ اسکا اثر چند مہینوں تک ہی رہتا ہے اور دوسری خوراک کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ یوں وزیر اعظم کو عوام کی وبا سے بچت کا راستہ یہی ہی نظر آتا ہے کہ وہ ماسک پہنیں۔ ایک تو اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے فوج طلب کر لی ہے دوسرے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر عوام نے حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کیا تو ملک پرمکمل لاک ڈاون لگادیا جائیگا یعنی بازار، ٹرانسپورٹ اور کاروباری مراکز بند۔ چلیں عوام نے سنگینوں کے سائے میں ماسک بھی پہن لیے لیکن مہنگائی جیسے موضی مرض کا کیا ہوگا جو انہیں گْھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ماسک پہننے سے نہ ہی تاجر اپنا منافع کم کریں گے اور نہ ہی ذخیرہ اندوز اپنے دھندے سے باز آئیں گے۔ جیسے شیخ سعدی کی مثال میں لومڑی کی تدبیر کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی معقولیت اور افادیت کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے ، یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا لومڑی جنگل سے بھاگ سکی تھی اور یہ بھی کہ کہیں وہ بدحواسی میں دشمنوں کے خود ہتھے تو نہیں چڑھ گئی تھی، ویسے ہی حکومت کی تدبیر میں وزن تو نظر آتا ہے لیکن کل کیا ہو ، فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔