جنگ چھیڑنا، وقت کا انتخاب اور اصول طے کرنا ہمیشہ طاقت ور کا اختیار رہا ہے۔ کمزور تو اپنے دفاع اور بقا کے لئے صرف مزاحم ہوتا ہے اور طاقت کی چکی میں پس کر تقسیم در تقسیم کے ذریعے کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے۔ انسانی ترقی کا کرشمہ مگر یہ ہے کہ دو عظیم جنگوں کے زخم چاٹتے یورپ سے طاقت کا مرکز امریکہ منتقل ہوا تو ملکوں کو فتح کرنے اور اقوام کو غلام بنانے کی پالیسی کمزور اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے اقوام کو ذہنی غلام بنا کر طاقت اور وسائل بڑھانے کی حکمت عملی میں تبدیل ہو گئی۔ روز ویلٹ نے جنگ عظیم میں برطانیہ کو جتوانے کے لئے چرچل ویلٹ پیکٹ کیا اس معاہدے میں جیت امریکہ کی اس طرح ہوئی کہ یہ انسانی تاریخ کی پہلی جنگ تھی جس میں مفتوح ملکوں کے ساتھ فاتح ممالک کی سرحدیں بھی سکڑ گئیں۔ عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا اور چند دھائیوں میں امریکہ واحد سپر پاور بن کر دنیا پر حکمرانی کرنے لگا۔ لیکن ایک ازلی سچائی یہ بھی ہے کہ طاقت جسم فتح کرتی ہے دل نہیں۔ کمزور یہاں تک کہ غلام اقوام میں بھی حریت کا جذبہ انفرادی سطح پر ہی سہی مگر ظلم و استحصال کے خلاف بہرحال برسر پیکار رہتا ہے۔ امریکہ کے کرداریت پسند پالیسی سازوں کا کمال مگر یہ ہے کہ وہ طاقت اور مزاحمت کے لئے نہ صرف میدان کا انتخاب خود کرتے ہیں بلکہ اپنی جنگوں کے اصول اور مہرے بھی خود گھڑتے ہیں اور چالیں بھی خود چلتے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران پہلے خود نان اسٹیٹ ایکٹرز کو مذہب کے نام پر جنگ کے لئے فنڈنگ کی گئی ، ا ہداف مقرر کئے گئے پھر 9/11کے بعد خود ہی ان پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل لگا کر جنگ کے اصول گھڑے اور جنگ کے لئے دہشت گردی کو جواز بنایا۔ انشاء اللہ خاں نے شایدایسے موقع کے لیے ہی کہا تھا۔ وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا امریکہ نے القاعدہ کو افغان طالبان کے خلاف جنگ مسلط کرنے کے لئے جواز بنایا پھر افغانستان ‘عراق ‘شام اور یمن میں 10لاکھ انسانوں کا خون بہایا، چار اسلامی ممالک کو تباہ کر کے آج امریکہ کے ذمہ داران یہ اعلان کر رہے ہیں کہ القاعدہ کی کوکھ سے جنم لینے والی دولت اسلامیہ (داعش) پہلے سے کہیں زیادہ طاقت ور ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ ان ممالک کو چھوڑ کر اگلے میدان جنگ کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ نئی بوتل میں پراپیگنڈے کی پرانی شراب ممکن ہے بیچ لی جائے مگر گزشتہ دو دہائیوں سے جس طرح امریکی حکمرانوں نے عالمی سیاست میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا ہے اور انتہا پسندی کا خوف پیدا کر کے دنیا بھر میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے اس کے اثرات دنیا بھر میں سامنے آرہے ہیں۔ خود امریکہ میں طاقت کاگھمنڈ امریکیوں میں وائٹ سپر میسی، انتہا پسندی اور تشدد پسندی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ سی ایس آئی ایس کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں 2012ء تک دائیں بازو کے شدت پسند عیسائیوں کے سیاہ فام اقلیتوں پر حملے صفر تھے۔ 2012ء میں 9حملے ہوئے جو بڑھ کر 2013ء میں 21ہو گئے اور 2017ء میں ایسے حملوں کی تعداد 30سے تجاویز کر چکی تھی۔ امریکہ جس قومیت پسندی اور نسلی تعصب کو فروغ دیتا رہا ہے اس آگ کی لپیٹ میں امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کا اتحادی یورپ بھی جل رہا ہے۔ ایس آئی ایس کی تحقیق کے مطابق یورپ میں شدت پسندی کے واقعات میں 2016-17ء کے عرصہ میں 43فیصد اضافہ ہوا ہے۔پائولا تامماکے مطابق جرمنی میں دائیں بازوں کے شدت پسندوں کے حملوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ جرمنی کے انٹیلی جنس اداروں کی سالانہ رپورٹ کے مطابق شدت پسندوں کی تعداد 2017ء میں 24ہزار تھی جو 2018ء میں نہ صرف 24100ہو گئی بلکہ ان شدت پسندوں میں 12700سو ایسے انتہا پسندوں کا اضافہ ہوا جو پر تشدد کارروائیوں میں ملوث تھے ۔ سویڈن میں جیمی ایکسن کی ایس ڈی کی پارٹی شدت پسندی کو بڑھوتری دے رہی ہے ۔ایس ڈی پارٹی نے 2018ء کے انتخابات میں 18فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ ہنگری کے وزیر اعظم غیر ملکی امیگرینٹس کے خلاف نعرہ لگا کر تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔1920ء میں آر ایس ایس ہٹلر سے شہ پا کر ہندوستان کے غیر ہندوئوں کو قتل کرنے کے منصوبے بنا رہی تھی۔ قومیت ‘ نسلی‘ تفاخر اور علاقائی تعصب برصغیر کے خمیر میں ہے اسی لیے تقسیم ہند کے وقت تاج برطانیہ کے ہندوستان میں 500خود مختار ریاستیں موجود تھیں۔ معروف محقق اور مورخ پال مارشل کے مطابق ہندو کا لفظ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے آباد لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔1871ء تک ہندو لفظ مذہب کی اصطلاح کے لئے استعمال نہ ہوا تھا اس کے بعد انگریز حکمرانوں نے اس کو مذہب سے ایسا جوڑا کہ 1920ء تک ہندو اور ہندو توا کے الفاظ مذہبی تناظر میں استعمال ہونے لگے۔ معروف دانشور رانا محبوب اختر ایک عرصہ سے ’’برصغیر کی حماقت‘‘ کا تذکرہ کرتے آ رہے ہیں یہ برصغیر کی حماقت ہی ہے کہ 1920ء سے 1935ء تک ہٹلر کی نازی پارٹی سے متاثر ہو کر ہندو اور ہندو توا کا تعصب اس قدر مضبوط ہو چکا تھا،ہندو دھرم کی حفاظت کے نام پر درجنوں شدت پسند تنظیمیں متحرک ہو چکی تھیں اور بضد تھیں کہ ہندوستان میں آباد غیر ہندو یا تو ہندوستانی نہیں یا پھر انہوں نے حکمرانوں کے خوف سے دیگر مذاہب قبول کئے ہیں،اس لئے ان کو اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو مذہب اختیار کرنا ہو گا۔ جنگ عظیم میں ہٹلر کی شکست اور تحریک آزادی میں جمہوری قوتوں اور سوشلسٹ کانگریس کے باعث یہ سوچ سیکولر بھارت کے نعرے تلے دب گئی تھی مگر اس کے پرچارک موجود تھے۔ اب امریکہ اور یورپ میں دائیں بازو کی متعصبانہ سوچ کے قوت پکڑنے کے ساتھ ہندوستان میں ہندو توا کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔2002ء میں ہندو توا کے پجاریوں نے 2ہزار مسلمانوں کی جان لی تو مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر دی گئی ہے۔ بھارت کے بعض محب الوطن حلقے تعصب اور ہندو توا کی آگ سے خود بھارت کے راکھ ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں ان کے مطابق 21ویں صدی کو ایشیا کی صدی ماننے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جنگ چھیڑنا، اصول طے کرنا اور میدان جنگ کا انتخاب کرنا ہمیشہ سے طاقتور کا اختیار رہا ہے۔