پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہماری سب سے بڑی اور سب سے پہلی بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس نوزائیدہ مملکت سے وابستہ اس دھرتی کی صدیوں کی تاریخ ہم ہندوؤں کے پاس چھوڑ آئے، اپنی وراثت میں شامل نہ کیا،تہذیب و تمدن کے خزانے اور ان خزانوں کی چابیاں نہ جانے ہمارے لئے اہم نہ تھیں، متحدہ ہندوستان کی تاریخ جہاں سینکڑوں سال مسلمانوں نے حکومت کی اور ساری دنیا سے اپنے انداز حکمرانی کی داد پائی، ہم نے سائنس ،طب ،حکمت ،اور دانش کے خزینے اپنے پاس نہ رکھے، سب کچھ لٹا کے پاکستان میں داخل ہونے والے کروڑوں مسلمانوں کو ہم نے نئی تہذہب اور نئے اسلامی تمدن کے چکروں میں ڈال دیا، جو اسلامی تہذیب جو اسلامی تمدن ‘ اسلامی کلچراور اسلامی لٹریچر ہماری میراث تھا ‘اسے کچھ سال تو نصاب میں شامل رکھا پھر نصاب سے بھی نکال دیا، ہم جاگیروں اور محلات کے چکروں میں پھنس گئے، قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ لکھنے کی ذمہ داری غیر جانبدار اور محب قوم دانشوروں نے نہ نبھائی ،بالا دست اور خود ساختہ حکمران طبقات کی جھولیوں میں بیٹھے ہوئے بزعم خود دانشوروں نے جو خود قیام پاکستان کے مخالفین میں شامل تھے‘ نصابی اور غیر نصابی کتب کے ذریعے آنے والی ہر نسل کو وہی پڑھایا جو ان حاکموں کے مفاد میں تھا، ہم نے ظاہری طور پر ایک آزاد ملک تو بنا لیا ، لیکن نئے ملک کے تقاضوں کو نہ سمجھ سکے، کلچر مخالف قوتوں کی بالا دستی نے زمینی حقائق کو ہی نظریات کی قبر میں اتار دیا ، یہاں کلچر اور اسلامی کلچر کی بحث چھیڑ دی گئی ، متحدہ ہندوستان کا ادب اور اس کی ثقافت ہم نے ہندوستان کو تھمانے کے بعد خود فنون لطیفہ کو اسلام دشمن قرار دیدیا، ہم دو قومی نظریہ کی بنیاد پرانگریز کے زیر نگوں اس ہندوستان سے علیحدہ ہوئے تھے‘ جہاں ایک مسلمان ملکہ نور جہان بھی تھی ‘جہاں کا شہنشاہ جلال الدین اکبر تھا، ایک شاعر مرزا اسد اللہ غالب بھی تھا جہاںکے شیوخ اور علماء کرام کی دنیا میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی، ہم نے سکندر اعظم کو بھی دوسروں کے حوالے کردیا۔ ٭٭٭٭٭ اب آپ کی ملاقات ایک عظیم اسٹل فوٹو گرافر سے جنہیں دنیا سے گزرے بھی تین دہائیاں بیت چکی ہیں حفیظ قندھاری…کہنے کو تو ایک کہنہ مشق اسٹل فوٹوگرافر تھے ، لیکن بے شمار خدا داد صلاحیتوں سے مالا مال ، انتہائی محنتی ،کمزور جسم کے مالک ، جب فیض احمد فیض ہفت روزہ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے تو انکے نام کے بعد دوسرا نام حفیظ قندھاری کا چھپتا تھا، سات بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے ، کرائے کے مکان میں رہتے تھے ، اس کنبے کی گزر بسر کیسی ہوتی تھی ؟ یہ سوال اس زمانے میں کبھی میرے دماغ میں نہیں ابھراتھا، حفیظ قندھاری کتنی صلاحیتوں کے مالک تھے؟ یہ بات مجھے اس وقت سمجھ میں آئی، جب میں نے روزنامہ مشرق میں فلم ڈائریکٹر رزاق سے ریاض بٹالوی کا انٹرویو پڑھا، رزاق نے کٹاری سمیت کئی خوبصورت فلمیں ڈائریکٹ کیں ، کٹاری میں زمرد کے ساتھ طارق عزیز ہیرو تھے، رزاق نے اپنے انٹر ویو میں ریاض بٹالوی کو بتایا کراچی میں پہلا انٹر نیشنل فلم فیسٹیول ہوا ، اس کے منتظم نعیم ہاشمی تھے ، میں ہاشمی صاحب سے ملا اور انہیں بتایا کہ فلم لائن جوائن کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا کہ لاہور آؤ تو مجھے ملنا،، کچھ ماہ بعد میں لاہور پہنچ گیا، ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ حفیظ قندھاری کو سونپتے ہوئے کہا کہ اس بچے کی تربیت کرو ۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حفیظ قندھاری کتنی خوبیوں کے مالک ہونگے ۔ساٹھ کی دہائی کے درمیانی برسوں میں حفیظ قندھاری کو میں روزانہ اپنے والد کے پاس بیٹھا ہوا دیکھتا ، ہمارے گھر میں انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز آتا تھا، ہاشمی صاحب اخبار آتے ہی اس کے مطالعہ میں لگ جاتے، جب حفیظ قندھاری آتے تو اخبار ان کے لئے فارغ ہو چکا ہوتا ، میں انہیں چاچا جی کہتا تھا، وہ اخبار اتنے انہماک سے پڑھتے کہ میں ان سے بہت متاثر ہونے لگا ، ایک دن جرأت کر کے ان سے پوچھ لیا ،، چاچا جی، آپ کی تعلیم کیا ہے؟ جواب ملا،، بیٹا میں پڑھ نہیں سکا تھا، میرا دوسرا سوال تھا، تو پھر آپ انگریزی اخبار کیسے پڑھ لیتے ہیں؟ بیٹا اخبار پڑھ پڑھ کر مجھے اخبار پڑھنا آ گیا…ایک دن چاچا جی حفیظ قندھاری نے مجھے کہا کہ انکے گھر میں ایک سپورٹس بائیسکل پڑی ہے، انکے دونوں بیٹے ابھی چھوٹے ہیں، لہٰذا وہ سائیکل میرے گھر سے تم لے آؤ ، اور میں انکے گھر پہنچ گیا ‘جو رحمان پورہ کے قریب سلطان احمد خان روڈ پر تھا، میں نے انکی بیگم کو اپنے آنے کا مقصد بتایا تو انہوں نے کوئی بہانہ کر دیا ، لیکن ایک فرمائش جو انہوں نے مجھ سے کی ، اس کا پس منظر میں آج تک نہیں سمجھ سکا، وہ کہہ رہی تھیں کیا تم میری بیٹیوں کو ڈانس سکھا سکتے ہو؟ میں نے بھی دہلا ماردیا…کیوں نہیں… اس دن کے بعد پھر مہ و سال گزرتے رہے، میں شاہ حسین کالج میں پڑھتا تھا ، جب میرے علم میں آیا کہ قندھاری صاحب کی دو بیٹیاں اسٹیج کی کامیاب ایکٹرسز بن چکی ہیں ، اس زمانے میں تھیٹر کا مرکز پرانی آرٹس کونسل تھی ، کبھی کبھار میں بھی اپنے کسی دوست کے ساتھ وہاں چلا جاتا ، اس زمانے میں بہت صاف ستھرے ڈرامے ہوا کرتے تھے ، لوگ فیملیز کے ساتھ جاتے تھے ، قندھاری صاحب کی جو دو صاحبزادیاں ڈراموں میں کام کر رہی تھیں ان میں ایک کا نام محفل آراء دوسری کا درخشی تھا ، لیکن آرٹس کونسل میں ماں ساتوں بیٹیوں سمیت دکھائی دیا کرتی تھی۔ پھر ایک دن کیا ہوا؟ رات گیارہ بجے کا وقت تھا، میں بیڈن روڈ کی نکڑ پر کھڑا تھا، بیگم قندھاری کوپر روڈ گرلز کالج کی طرف سے ساتوں بیٹیوں کے ساتھ آ رہی تھیں، یہ فیملی میرے قریب پہنچی تو سلام دعا ہوئی، میں اس وقت اگرچہ خالی جیب تھا ، ان سے پوچھ بیٹھا کہ ،،، کیا آپ لوگ کھانا کھائیں گے؟ جواب ملا… ضرور کھائیں گے۔ یہ میں کیا کر بیٹھا؟ اب کیا کروں؟ ہم لوگ جس جگہ کھڑے تھے، اس کے قریب ہی چند قدم پر روزنامہ مغربی پاکستان کا دفتر ہوا کرتا تھا، میں انہیں وہاں امتیاز راشد شاہ صاحب کے کمرے میں لے گیا جو ان دنوں وہاں چیف رپورٹر تھے، امتیاز راشد سے درخواست کی کہ میرے مہمان ان کے رپورٹنگ روم میں بیٹھ کر کھانا کھائیں گے، اس شریف آدمی نے اجازت دیدی تو میں لکشمی چوک پہنچ گیا، فلموں کے لئے کاسٹیوم تیار کرنے والے ماسٹر امام دین کے بیٹوں نے باپ کی دکان میں نیا نیا چوہدری ہوٹل کھولا تھا، وہاں دس آدمیوں کے کھانے کا آرڈر دے کر واپس مغربی پاکستان کے آفس چلا آیا ، سب نے ڈنر کیا ، مہمانوں کو رخصت کرکے میں بھی رفوچکر ہوگیا… بیرہ برتن لینے آیا ہوگا تو اس نے بل بھی مانگا ہوگا، امتیاز راشد نے بل دیا یا نہیں دیا،، آج تک اس سے پوچھا نہ اس نے بتانے کی زحمت گوارہ کی۔ لیکن اس واقعہ کے سالہا سال گزر جانے کے بعد بھی امتیاز راشد مجھے دیکھتا ہے تو مسکراتا ضرور ہے…بالکل اسی طرح جیسے چالیس سال پہلے کے ایک واقعہ کو یاد کرکے پرویز رشید ہر ملاقات پر ہنس پڑتا ہے۔