سندھ میں تحریک انصاف کے حوالے سے کافی خاموشی تھی۔ وہ خاموشی اب کچھ ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب رحیم کی تحریک انصاف میں شمولیت کچھ لوگوں کے لیے امید کی کرن اور باقی لوگوں کے لیے مایوس کن بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ارباب رحیم ایک عملی اور ایماندار شخص ہیں، مگر مرحوم پیر پگارو ان کے لیے کہا کرتے تھے اگر ارباب رحیم کو اپنی زبان پر قابو ہوتا تو آج پاکستانی سیاست میں اس کا اہم مقام ہوتا۔ عمران خان کے ساتھ سندھ میں جو مسئلہ پیش آیا وہ ایمانداری کا تھا۔ اس کے اکثر ساتھی اور رفیق اقتدار کے بعد سندھ میں وزیر اعظم کا نام استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ عمران خان کا خیال تھا کہ اگر سندھ کو کرپشن کے ذریعے لوٹنا ہی مقصود ہے تو کیا پیپلز پارٹی کافی نہیں؟ عمران خان سندھ میں تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی کے راستے پر چلانے کے خلاف تھے۔ عمران خان سندھ کی قومپرستی کے ساتھ تو کسی حد تک سمجھوتہ کرنے کے لیے راضی تھے مگر کرپشن کے لیے وہ ہرگز تیار نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے سندھ میں مداخلت نہیں کی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عمران خان سے فرمائش کی،کہ وہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرے، مگر عمران خان نے صاف انکار کردیا۔ اس انکار کے دو اسباب تھے۔ ایک تو عمران خان ذاتی طور پر غیرجمہوری اعمال کے حامی نہیں اور سندھ میں گورنر راج نافذ نہ کرنے کا دوسرا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو سیاسی شہید بنانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ پیپلز پارٹی اپنے کرپشن کے گرداب میں خود ڈوب کر ختم ہوجائے۔ عمران خان پر یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ وہ بھی میاں نواز شریف کی طرح پیپلز پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن کی صورت چلانا چاہتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عمران خان نے جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ ن کی بنیاد پر ضرب لگائی اس طرح سے ان کی خواہش تھی کہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی بنیاد کو ختم کرے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ عوام پیپلز پارٹی کو دل سے ووٹ دینے کو راضی نہیں ہیں۔ عوام سندھ میں پیپلز پارٹی کا نہ صرف نعم البدل چاہتے ہیں بلکہ وہ پیپلز پارٹی کی جگہ پر ایک اچھی اور صاف دامن جماعت کے منتظر ہیں۔ اگر عمران خان نے پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے سلسلے میں عجلت سے کام لیا ہوتا تو پیپلز پارٹی وہی سندھ کارڈ استعمال کرتی جس سندھ کارڈ نے پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچایا ہے مگر سندھ کے عوام کو اس کا شدید نقصان ہوا ہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے پیپلز پارٹی جب بھی سندھ کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے،تو سندھ کے لوگ سوشل میڈیا پر نہ صرف پیپلز پارٹی کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ وہ پیپلز پارٹی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ عمران خان کا یہی عزم تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو سندھ کے عوام سے مل کر شکست دے۔ اس سلسلے میں وہ جی ڈی اے جیسا غیر عوامی اور خالص جاگیردارانہ عنصر اپنے ساتھ ملا کر کوئی سیاسی ایڈوانچر کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اس لیے سندھ کے جو وڈیرے عمران خان کے ساتھ آئے وہ اسے چھوڑ کر جانے لگے اور عمران خان نے اپنے بااعتماد حلقوں میں اس بات پر پریشان ہونے کی بجائے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ اس کا خیال تھا کہ سندھ میں وہ صاف ستھرے کیڈر کی تمنا کرتے ہیں اور اب وہ وقت آ چکا ہے جب سندھ میں تحریک انصاف کی پھر سے بنیاد رکھی جائے۔ تحریک انصاف کے لیے سندھ میں اپنے آپ کو منظم کرنے کا یہ وقت تو بہت بہتر ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کام کے لیے ارباب رحیم درست شخص ہیں؟ارباب رحیم کو سیاسی تجربہ تو ہے مگر وہ ایسی شخصیت کے مالک نہیں جس کو عوامی پزیرائی حاصل ہو۔ ارباب رحیم تھر میں انتخابی سیاست کرنے لیے بہت موزوں شخصیت ہیں مگر سندھ صرف تھر نہیں۔ کوئلہ دریافت ہونے کے بعد تھر کو خاصی اہمیت حاصل ہوئی ہے مگر وہ کوئلہ تھر کی قسمت کو تبدیل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بہت کوشش کی وہ تھر کی عورتوں کو ڈرائیونگ سکھا کر ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرے اور یہ تاثر پیدا کرے کہ پیپلز پارٹی نے تھر کی سب سے پسماندہ طبقے کو آگے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر سوشل میڈیا پر جب پیپلز پارٹی کے کالے کرتوت سامنے آئے تو پیپلز پارٹی خود دفائی پوزیشن لینے کے لیے مجبور ہوگئی۔ اہلیان سندھ کو اب بھی یاد ہے کہ پیپلز پارٹی نے کس طرح ادیبوں؛ شاعروں اور صحافیوں کو ہوائی جہاز میں بٹھا کر انہیں تھر کا سیر کروایا اور ان کی بڑی خاطر کی مگر جو لوگ وہاں گئے وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے پیپلز پارٹی کی حمایت میں ایک لفظ نہیں لکھا۔ کیوں کہ انہیں خود بھی نظر آیا کہ پیپلز پارٹی کا کول پراجیکٹ تھر کے دریدہ دامن میں ریشمی پیوند کی طرح ہے۔ تھر کے لوگ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں مگر انہیں اپنے ریت کے ٹیلوں سے بہت محبت ہے۔ تھر میں کارونجھر نامی ایک پہاڑ ہے ۔وہ پہاڑ موروں کا آشیانہ ہے۔ وہ پہاڑ گرینائٹ کا بہت بڑا ذخیرہ بھی ہے اور سندھ حکومت نے اپنے من پسند لوگوں کو اس پہاڑ سے گرینائٹ نکالنے کے ٹھیکے دیے مگر جب پہاڑ کے دامن میں بارود بھرا گیا اور وہاں دھماکے ہونے لگے تب تھر کے لوگ سراپا احتجاج ہوگئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے خود بھی کوشش کی وہ تھر کے لوگوں کو اپنی کشش کے باعث کارونجھر پہاڑ کو کاٹنے کے لیے راضی کریں مگر بلاول سے زیادہ انہیں اس پہاڑ سے پیار ہے جہاں برسات میں جب چشمے بہتے ہیں تب تھر کا اصل حسن کھل کر سامنے آجاتا ہے اور تھر کے لوگ اپنے اس خوبصورت پہاڑ کو بچانے کے لیے متحد ہوجاتے ہیں۔ تھر کی انتخابی سیاست پر ارباب رحیم بھلے دسترس رکھتے ہوں مگر تھر کے عوامی درد کی نبض پر عمران خان کی پکڑ کافی مضبوط ہے۔ موجودہ صدر پاکستان عارف علوی کے ساتھ عمران خان نے تھر کے چپے چپے کا دورہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ جب عمران خان نے صحت کارڈ کا افتتاح تھر سے کیا تھا، اس وقت صدر پاکستان نے اپنے پرانے البم سے ایک تصویر شیئر کی تھی جس میں عمران خان تھر میں ایک چارپائی پر سکون کے ساتھ سو رہے ہیں۔ عمران خان کو آج بھی خوابوں میں اس تھر کی یاد ستاتی ہے، جو تھر کے بھوکے اور پیاسے حسن کی علامت ہے۔ ارباب رحیم کو خصوصی معاون بنانے اور سندھی عوام میں تحریک انصاف کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے اسے یہ عہدہ دینے کے پیچھے عمران خان کی تھر سے محبت بھے ہے مگر محبت کے بھی تقاضے ہوتے ہیں۔ ارباب رحیم کی تحریک انصاف میں شمولیت اچھی بات ہے مگر یہ نیک عمل کافی نہیں ہے۔ سیاست صرف ثواب کے لیے نہیں کی جاتی۔ سیاست کے اپنے اہداف ہوتے ہیں۔ سندھ میں اس وقت پیپلز پارٹی سے بغاوت کرنے والوں میں اکثریت سندھ کے نوجوانوں کی ہے اور سندھ کی جوانی ارباب رحیم سے اس طرح محبت نہیں کرتی جس طرح محبت کی جاتی ہے۔ ارباب رحیم اور سندھ کے نوجوانوں میں ایک خلا ہے۔ وہ خلا کون پر کرسکتا ہے؟ عمران خان کو اس کے لیے پھر سے سیاسی صلاحیت کی تلاش کرنا ہوگی۔ سندھ میں عمران خان کے لیے اب بھی ایک اسپیس موجود ہے مگر وہ اسپیس ارباب رحیم پر نہیں کر سکتے۔ اس بات کا احساس ارباب رحیم کو بھی ہے۔ اس لیے انہوں نے نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے انہیں وڈیروں سے رابطے بڑھانے شروع کیے ہیں جو پیپلز پارٹی میں مس فٹ ہیں۔ عمران خان اگر چاہتے ہیں کہ وہ سندھ میں اپنی مضبوط سیاسی بنیاد رکھیں، تو پھر انہیں اس متوسط طبقے سے بات کرنا ہوگی جو وکیلوں؛ ڈاکٹروں اور چھوٹا کاروبار کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ اصولی اختلاف رکھتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو پیپلز پارٹی سے تنگ آ چکا ہے۔ وہ طبقہ ایک نیا سندھ بنانے کے جذبے سے سرشار ہے۔ وہ طبقہ عمران خان کے پاس خود نہیں آئے گا۔ عمران خان کو اس طبقے کے پاس خود جانا پڑے گا ۔ وہ طبقہ تھر میں بھی ہے مگر صرف تھر میں نہیں ہے۔ اس طبقے کو اپنا ساتھی اور ہمدم بنانے کے لیے عمران خان کو تھر کے علاوہ سندھ کے ان چھوٹے بڑے شہروں میں جانا ہوگا؛ جہاں جذبے کو سیاسی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔