خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے یہ ایک ناآسودہ خواہش کی کہانی ہے جو سخن میں در آئی ہے پہلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں۔ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ سرتسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے۔ یہ ایک فضا ہے جس کا بیان ممکن نہیں کہ یہ محسوس کرنے کا عمل ہے کہ جب تخلیق کار اپنے آپ میں گم ہو جائے کہ’ جنوں کی تیز بارش میں اسے پانے کی خواہش میں، میں دل کی سطح پر اکثر کھلی آنکھوں کو رکھتا تھا۔مرے دامن کے صحرا میں کئی جھیلوں کا قصہ تھا جو بادل کی زبان میں ہوائوں کو سناتا تھا۔ یادوں کی ڈائری کھولی تو اس میں گیلے اوراق ملے کچھ کچھ لکھے ہوئے تھے تو کچھ مٹے ہوئے مگر کچھ چاند چہرے نمودار ہوتے ہیں۔ تین جون اختر حسین جعفری کی تیسویں برسی تھی برادر منظر حسین جعفری کی ایک پوسٹ نظرنواز ہوئی تو جیسے بقول منیر نیازی ایک مہک بہت مانوس سے اندر معطر کر گئی۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کی کہئی ہوئی نظم دل کو چھو گئی کہ ہم تو واقفان حال میں سے ہیں کہ اس محبت سے فیض یاب ہوئے احمد ندیم قاسمی کی جعفری صاحب سے جو محبت تھی ناقابل بیان تھی: دل میں سوچا تھا کہ ہم عمر بسر کر لیں گے تجھ سے نظمیں تری سنتے تیرے نغمے گاتے بس جو چلتا تو ہم اس دور کے ویرانوں میں چار جانب سے تری نگہت فن برساتے ہم نے کوشش تو بہت کی مگر اے یار عزیز ترے اوصاف نہیں ہم سے سمٹنے پاتے یہ حقیقت ہے مسلم کہ ہر اچھا شاعر اتنی تمثال تو دے جاتا ہے جاتے جاتے بزم فن میں ترا کوئی نہ ہمسر نکلا ہم ترے بعد کہاں سے ترا ثانی لاتے 3جون کو سوشل میڈیا پر اختر حسین جعفری کی ریکارڈ نظمیں چلتی رہیں دوستوں کے محبت بھرے اور آنسوئوں سے تر کمنٹس بھی گزرتے رہے مجھے پوری طرح وہ گھڑیاں یاد ہیں جب ہم لوگ ایک کالج کے مشاہرہ میں گلبرگ تھے تو خبر آ گئی کہ جعفری صاحب ہمیں چھوڑ گئے۔ میرا بھی ان کے ساتھ گہرا تعلق خاطر تھا ایک جھٹکا سا لگا۔کچھ لوگ تذبذب کا شکار تھے میں منوں بھائی کے پاس آیا کہ انہوں نے مشاعرہ کی صدارت کرنا تھی۔ منو بھائی نے اگلے ہی لمحے مشاعرے کو ملتوی کر دیا اور میں سیدھا اقبال ٹائون کے لئے روانہ ہوا۔ میں ستلج بلاک میں رہائش پذیر تھا جہاں مس فرخندہ لودھی اور انور سدید جیسے ادیب رہتے تھے کچھ ہی دور عقب میں کالونی تھی جہاں اختر حسین جعفری رہائش پذیر تھے وہاں تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ ایسے ہی اپنے دوست لطیف ساحل کا شعر یاد آ گیا ہے: خوب بھی تجھ سا ہے نایاب بھی تیرے جیسا زندگی خواب ہے اور خواب بھی تیرے جیسا ایسا پیارا اور من موہنا چہرہ تبسم سے لبریز ہونٹ مسکراتی ہوئی آنکھیں وہ سراپا محبت تھے۔ مجھے اپنے دوست اظہار شاہیں کا شعر بھی یاد آ گیا تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے۔میں نے منیر نیازی کو ان کی تعریف میں رطب السان دیکھا۔ان کا کلام تو شاہکار تھا۔ مصرع مصرع تراشا ہوا سنگ مر مر کے پیکر میں، مگر سانس لیتا ہوا اور دل کی طرح دھڑکتا ہوا۔ احمد ندیم قاسمی انہیں جدید نظم کا امام کہتے تھے۔میرا جی ‘ ن میم راشد اور مجید امجد کے بعد چوتھا نام انہی کا لیا جاتا تھا ان کی وفات پر غالباً امجد اسلام امجد نے کہا یار ان کی اپنی نظم جو انہوں نے ایزارا پائونڈ کی وفات پر کہی تھی کتنی فٹ آئی ہے۔دو کنٹو ذھن میں ہیں: تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں تو جدا ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی دہر میں کوئی نوبہار نہیں یادوں کا اک ہجوم ہے کہ دل پر دستک دے رہا ہے جب میرے شعری مجموعہ ’تمہی ملتے تو اچھا تھا‘ کا مسودہ تیار ہوا تو میں ان کے پاس لے کر گیا انہوں نے کہا کہ پڑھنے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ دیباچہ لکھیں گے یا نہیں۔بہرحال انہوں نے دیباچہ عنایت کیا انہوں نے اس سے پہلے پروین شاکر اور نجیب احمد کے لئے دو دیباچے لکھے تھے۔انہی کے حوالے سے خالد احمد اور نجیب احمد سے زیادہ قریب رہا یہ لوگ ایک خاندان تھے سچ مچ میں ایک خاندان اختر حسین جعفری اور امیر حسین جعفری دونوں خالد احمد اور نجیب احمد کو انکل کہتے احمد ندیم قاسمی کو جعفری صاحب پر بہت مان تھا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب وہ میرے گھر آئے تب میں گڑھی شاہو میں تھا۔انہوں نے نظم سنائی جہاں دریا اترتا ہے میں نے برجستہ کہا جعفری صاحب یہ نام تو آپ کے آنے والے شعری مجموعہ کا ہونا چاہیے پھر ایسے ہی ہوا ایک مرتبہ تو علی الصبح وہ منظر کے ساتھ میرے گھر پر آئے تو اپنی محبوب مسکراہٹ کے ساتھ بولے یار تمہیں زحمت دی میں نے لفظ اچک کر کہا جعفری صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ کے آنے کی خوشی میں بیان نہیں کر سکتا۔چائے کے بعد ہم کسی کام سے یونیورسٹی چلے گئے۔ بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر کالم تو کالم ہے ان کے روشن حروف کا حوالہ جنرل ضیاء الحق نے ادبی کانفرنس میں منفی انداز میں دیا تھا۔ ظاہر ہے وہ ایک بہادر ادیب تھے جو آمریت کو کھٹکتے تھے۔یہ ذوالفقار علی بھٹو کا نوحہ تھا چند سطور: اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے جس قدر حرف عبادت یاد تھے پو پھٹے تک انگلیوں پر گن لئے جب اور دیکھا رحل کے نیچے لہو ہے … یا الٰہی مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو