بیتے 5دنوںکی یاد۔ایک طرحداری کے ساتھ قلب و جان میں لہراتی ہے۔شب بھر سفر کے بعد جسم تھکاوٹ سے چور تھا،وہاں پہنچ کر دل ہشاش بشاش ہو گیا ۔منتخب،صاحب بصیرت اور باذوق لوگ، شائستہ ماحول میںجس کی ہمیشہ آرزو رہتی ہے۔ تھر کا نام آتے ہی ذہن میں پسماندگی اور غربت کا خیال آتا ہے۔اب حالات کافی بدل چکے۔قحط سالی تو ہر دور میں رہی،سیاستدان زمین سے آسماں تک پہنچ گئے مگر تھر ی لوگ ،پرانی چھونپڑیوں،خستہ حال کچے مکانوں اور درختوں کی اوٹ میں زندہ ہیں۔ عجب علاقے کی سیاحت ،محبت بھرے لوگوں سے ملاقات ،پسماندگی کے باوجود ایسے شانت ،آسودہ کہ حیرت ہوتی اور بڑھتی ہی چلی جاتی۔تھر کی سماجی زندگی کا چونکا دینے والا پہلو،عام آدمی کی شائستگی، شرافت اور اپنائیت۔ملک کے پسماندہ ترین علاقے میں انسان دوست بہت مگرشکوہ سنج کوئی نہیں۔بسیار کوشش کے باوجود نہ ملا۔پیپلز پارٹی سے بہت خفا، بعض تو مایوس۔اندرون سندھ کیا کراچی بھی کھنڈرات بن چکا۔ سحر خیز،سادہ اطوار،من کے اجلے،دل کے سخی، سچ بات کہنے کے عادی تھری لوگوں سے بات چیت سے حقائق آشکار ہوئے۔ہمارا رہبر عابد بخاری اور اس کی ہمیشہ باقی رہنے والی بشاشت۔علی محمد پٹھان انتہا کے خوش اخلاق،اسی بنا پر ہیلپنگ ہینڈ کے سبھی منصوبوں سے واقفیت ہوئی ۔چاند اورسورج جس طرح اپنا راستہ نہیں بدل سکتے ،ابدی حقیقتیں بھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔تھر میں محرومیاں ہی محرومیاں۔ آخر مسائل کے حل کے لیے کسی نے تو فیصلہ کرنا ہے ،ذمہ دار فرض ادا نہیں کریں گے ،تو کوئی اورآگے بڑھے گا ۔جو محرومیوں کا ازالہ کرکے بے کسوں اور لاچاروں کی داد رسی کرے گا۔ ہیلپنگ ہینڈ امریکی اوورسیز پاکستانیوں کی فلاحی تنظیم ہے ۔چاروں صوبوںسمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں یتیم بچوں کی کفالت ‘ معذور افراد کی بحالی ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ‘ ایمر جنسی ریلیف ‘ ان کائنڈ گفٹس پروگرام ‘ ہیلتھ کیئر اینڈ نیوٹریشن ، تعلیمی معاونت ‘ اسکلز ڈویلپمنٹ اینڈ لائیولی ہڈ پروگرام کے ساتھ بلا سود قرضوں کے پروگرامز کر رہی ہے۔تھرپارکر،میٹھی ،نواب شاہ اور کراچی میںاس کے منصوبے دیکھ کر حیرت سے ششدر رہ گیا۔تنظیم کے روحِ رواں،سلیم منصوری، ایک باصلاحیت اور نمود سے پاک کھرے آدمی۔ان کا نام آتے ہی تھر کے باسیوںکی آنکھیںجھک جاتی ہیں،وہ کام کر رہے،جس کی چمک دمک تادیر قائم رہے گی،اسی کی روشنی سے تھر کے اندھیرے ختم ہوں گے۔فلاح و بہبود کا یہ سفر 18 ممالک میں مستقل طور پر جاری ہے۔ زلزے اور قدرتی آفات کے بعد 54 ممالک میں ایمرجنسی ریلیف دیا جا رہا۔ 2021ء میں دو کروڑ پچاس لاکھ روپے سے 83 اضلاع میں 883 پروجیکٹس مکمل کیے ، جس سے پندرہ لاکھ تیس ہزار افراد مستفید ہوئے ۔ یہ تنظیم ابھی صرف16برس کی ہے۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اور کام میں بہتری نظر آئے گی۔سول ہسپتال مٹھی میں 24وینٹی لیٹرہیں ،کوئی بھی خالی نہ تھا ۔کراچی کی آبادی اڈھائی کروڑ ،صرف 61وینٹی لیٹر۔10برس تک کے 50 ہزار بچوںکے لیے صرف ایک وینٹی لیٹر۔تعلیم کے بعد شعبہ صحت بھی زوال پزیر۔ تھر میں پینے کا صاف پانی کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہمیں قدر ہی نہیں۔رابرٹ لوئس سٹیونسن نے کہا تھا:آنکھیں کھلی رکھیں۔ جو شخص شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے ،وہ زندگی میں سو گیا ہے۔ میرے ہم سفر محبوب چوہدری اور فاروق چوہان نے ایک بچے کو پانی کی بوتل تھمائی ،ایک ایک گھونٹ کے ساتھ بچے کا چہرہ شگفتہ ہوتا گیا۔گلاب کے پھول کی طرح کھلا، بچے کے چہرے پر پھیلی بشاشت نے روح تازہ کر دی ۔تب بے ساختہ کشادہ دلی کے ساتھ ہیلپنگ ہینڈکے لیے دعا نکلی۔تھری لوگوں کی آدھی زندگی پانی جمع کرنے میں گزرتی ہے۔صاف پانی کی حکومتی پائپ لائن سوائے دکھاوے کے کچھ نہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے 29 اضلاع میں691 پروجیکٹس ہیں۔تین لاکھ دس ہزار سے زائد افراد کو صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ 10ہزار یتیم بچوں کی کفالت معمولی کام نہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں ایک بچے کی پرورش مشکل ہے ۔تعلیم‘ میڈیکل ،کپڑے اور باقی ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ بدین کے انچارج عبد الوحید آرائیں نے چند بچوں سے ملوایا ،سایہ پدری سے محرومی کے باوجودتعلیمی میدان میں سب کی کارکردگی حیران کن تھی ۔ کائنڈ گفٹس پروگرام اپنی مثال آپ ۔ اس پروگرام کے تحت آٹھ شعبوں میں کام جاری ہے۔ بلا معاوضہ کام کرنے فلاحی اور سرکاری ہسپتالوں میں میڈیکل آلات اینڈ سپلائیز کی فراہمی ۔سکول فرنیچر کی فراہمی، مال آف ہیومینیٹز، معذور افراد کیلئے مصنوعی سہاروں کی فراہمی ، غریب خاندانوں کو سردیوں کیلئے بیڈنگ اور جہیز پیکجز ۔ 73 ملین ڈالرز مالیت کے 519 کنٹینرز پاکستان میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ جن کی مالیت تقریبا دس ارب روپے سے زائد پاکستانی بنتی ہے۔ خواتین کی بہتری اور خوشحالی کے لیے ا سکلز ڈویلپمنٹ اینڈ لائیولی ہڈ پروگرام کے تحت 16 اسکلز ڈویلپمنٹ سنٹرز ہیں۔جن میں تین ہزار چھ سو سے زائد خواتین ’’ ایک گھر ایک ہنر‘‘ کے تحت سکلز کے کورسز مکمل کر رہی ہیں۔ 2021 ء میں خواتین نے 36ہزار سے زائد سکول بیگ تیار کر کے مارکیٹ میں فروخت کیے۔ معذور افراد کی بحالی کیلئے مانسہرہ میں پندرہ کروڑ روپے کی لاگت سے ’’انسٹیٹیوٹ آف ری ہیلیٹیشن ‘‘کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔ تھر،بدین، حیدر آباد ،نواب شاہ کی سڑکیںاور سول ہسپتال مٹھی مثالی ہیں۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ غذائی قلت کی بجائے ،خواتین کو بنیادی حقوق میسر ہی نہیں۔اولاد کے درمیان وقفہ نہیں،تعلیم کا فقدان، مرد کی اجارہ داری ہے۔خواتین گھریلو کاموں کے علاوہ مال مویشی سنبھالتی اور کئی کئی میل پیدل چل کر پانی بھرتی ہیں۔خوراک۔سرخ مرچیںملی لسی، روٹی کے چند لقمے اور بس۔اب زمانہ تبدیل ہو رہا ہے ۔ بجلی،پانی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات سے محروم والدین بچوں کی تعلیم کے لیے کمر بستہ۔بچے بھی علم،ہنر اوراردو زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔بدقسمتی سے تعلیم کا سرکاری ڈھانچہ ہی تباہ ہے۔تھر میںکل 4269سکولز ہیں۔جن میں سے 1492 بند، 640 کی چھت نیلا آسمان۔ملک بھر میں بائیو میٹرک کا نظام فیل ہو چکا،تھر میں تو سرے سے ہی ناکام۔4162میل ٹیچرز۔531فی میل۔مجموعی طورپر4693 اساتذہ ہیں۔99.99فیصدذاتی کاروبار میں مصروف۔تنخواہ ہر ماہ سرکار سے بھی وصول کر رہے۔ہر تحصیل میں پرائمری جے ایس ٹی سمیت ایچ ایس ٹی سائنس ٹیچر کی سینکڑوں اسامیاں خالی ۔صرف 20گرلز سکولزکھلے ہیں، باقی بند۔گرلز ایجوکیشن سسٹم مکمل تباہ ہو چکا۔ واش روم کسی سکول میں نہیں۔1573سکولز بجلی سے محروم۔ 1586 میںپینے کے پانی کی سہولت نہیں۔506 میں چار دیواری نہیں۔4234میں سائنس لیب نہیں، 4245 میں لائبریریاں ہی نہیں۔فنڈز کی برابر ترسیل جاری،جوسیدھا افسران کی جیبوں میں جاتا ہے۔ کبھی آڈٹ ہو تو ہوش اڑا دینے والے انکشاف سامنے آئیں ۔