انکل عبدالرحمٰن نے کبھی احتیاط کی نہ پرہیزکیااور ان کی یہی بے احتیاطی انہیں ہم سے دور لے گئی وہ پردیس میں وینٹیلیٹر پر مشینی سانسیں لیتے رہے اور ان کے بیٹے عاطف اور فرحان دیار غیر میں بے بسی سے بھل بھل اشک بہاتے رہے ،عبدالرحمٰن انکل رشتے میں میرے خالو اور گاؤں کے ڈاکٹر صاحب تھے ،وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرتو نہیں تھے لیکن پیرا میڈیکل اسٹاف میں تھے کھانسی نزلہ بخار کا علاج کرلیا کرتے تھے ، کوہاٹ کے ٹانڈا ڈیم سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر جبی گاؤں میں ان کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہ تھی ،انکل نہایت منکسر المزاج اور کھلے دل کے آدمی تھے ان کے مریضوں کی بڑی تعداد ادھار علاج کرانے والوں کی ہوتی تھی جس پر میری خالہ جزبز رہتی تھیں ،خالہ ان سے اس بات پر الجھتی تو خالو مسکرا کر ٹال جاتے اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں کوہاٹ کی ہندکو زبان میں کہتے’’پریشان نہ تھی اللہ ہور دیسی(پریشان نہ ہو اللہ اور دے گا)،انکل کی نوکری ’’گھاٹے ‘‘ کی کلینک اورانٹی کی بڑبڑاہٹ سالوںساتھ چلتی رہی اور جانے کتنے برس مزید یہ سلسلہ جاری رہتا کہ انکل کو جوان ہوتی اولاد کی فکر نے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر کویت جانے پر مجبور کردیا ،کویت جانے سے گھر کے حالات بدل گئے بچے کالج یونیوسٹی تک پہنچ گئے تین بیٹیوں کو اپنے گھر کا کردیا کوہاٹ شہر میں ایک چھوٹا سا گھر بھی خرید لیا ان کے بیٹے عاطف اور فرحان بھی خیر سے کمانے جوگے ہوگئے دونوں دبئی میں ہوتے ہیں اب ان کا اصرار تھا کہ ابو گھر آجائیںوہ بھی خلاف توقع مان گئے تھے کہ بس اب پکا پکا وطن واپس آجاؤں گا مزید پردیس نہیں کاٹنا لیکن ان کے نصیب میں وطن کی مٹی ہی نہ تھی وہ کویت میں چند دوستوں کے ساتھ فلیٹ میں رہتے تھے ،کوروناوائرس کی وجہ سے دنیا کا نظام تلپٹ ہوچکا تھا ،کویت میں بھی دفاتر ،بازار دکانیں بند تھیں وہ بھی فلیٹ میں محبوس ہو کر رہ گئے تھے اورانتظار کررہے تھے کہ کب حالات بہتر ہوتے ہیں اور وہ کب اپنی وطن واپسی کا انتظام کرتے ہیں لیکن حالات بہتر ہو کر ہی نہیں دے رہے تھے کورونا کی وبا کویت میں بھی پہنچ چکی تھی بیالیس ہزار آبادی کے چھوٹے سے ملک کویت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد اسکا شکار ہوچکے تھے۔ کویت کی حکومت نے سخت حفاظتی تدابیر کر رکھی تھیں کرفیو کا سا لاک ڈاؤن کر رکھا تھا جو جہاں تھا بس وہیں تھا لیکن اسکے باوجود کورونا کی وبا پھیلتی جارہی تھی جانے کس طرح یہ انکل کے فلیٹ میں بھی آگئی ان کے ساتھ رہنے والے دو نوجوان اسکا شکار ہوئے انہیں بخار اور کھانسی نے آن لیا تھا انکل ان کی سرخ آنکھیں دیکھیں اور آہ و زاری سنی تو تھر مامیٹر لے کر بخار چیک کرنے پہنچ گئے ان کی تپتی پیشانی پر ہاتھ رکھا بخار چیک کیا اور دیسی ٹوٹکے سمجھانے کے ساتھ بخار کی دوا دے کران سے کورونا لے لیا ،انکل بلڈپریشر اور شوگر کے مریض تھے اور پھر ان کی عمر بھی ساٹھ برس کے لگ بھگ تھی ان کی حالت دنوں میں بگڑتی چلی گئی ،شدید کھانسی ،بخار اور جسم میں درد کی شکایت تھی اور وہ اپنے طبیب خود تھے وہ اسے ملیریا قسم کا بخار سمجھنے لگے وہ تو جب بے ہوش ہوئے اور اسپتال لے جایاگیا تو تب کوروناکی تشخیص ہوئی ،ڈاکٹروں نے انہیں علیحدہ وارڈ میں ڈال دیاجہاں ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی یہاں گھر والوں کو ان کی خبر نہ دبئی میں بیٹوںکو کچھ علم ،انکل کے ساتھ رہنے والوں میں سے کسی نے کہیں سے عاطف کا فون نمبر لے کراسے صورتحال بتائی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیادبئی میں بھی لاک ڈاؤن تھا وہ کسی طرح کویت نہ جاسکتا تھا اسی بے بسی میں انکل نے آخری ہچکی لی اور سب کو الوداع کہہ کر چلے گئے ،بیٹے باپ کے جنازے کو کاندھا دے سکے نہ بیٹیاں آخری دیدار کرسکیں ،کورونا کے بے رحم وائرس نے اس خداترس انسان کو بھی نہ چھوڑا۔ کورونا موقعے کی تاک میں رہنے والا بڑا بے رحم شکاری ہے یہ بلارنگ نسل مذہب ،پیشہ ،عمر اپنا شکار تلاش کرتا ہے، اس وقت تک تین لاکھ تینتالیس ہزار اموات ہوچکی ہیں اور جب آپ کی بصارت ان لفظوںکو چھو رہی ہوگی یہ تعداد کہیں زیادہ ہوچکی ہوگی، پاکستان میںساڑھے گیارہ سو اموات ہوچکی ہیں ،54ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود بازاروں اور مارکیٹیوں میں رش دیکھ کرلگ رہا ہے کہ کورونا جیسے کوئی مینڈک ہے جسے کچلنے کے لئے پورا پاکستان سڑکوں پر آگیا ہے دنیا حیران ہے کہ پاکستانی کیسی بے فکری اور بے پرواہ قوم ہے یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو اٹھتے جنازے دیکھ کر بھی کورونا کو دھوکا قراردے رہے ہیں ۔ایک بڑے طبقے کا یہ کہنا ہے کہ صورتحال اتنی خطرناک نہیں جیسی بتائی جارہی ہے او ر یہ بالکل ٹھیک ہے صورتحال اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے جو بتائی جارہی ہے ،بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں صرف ساڑھے چار لاکھ ٹیسٹ ہوں اوراس میں سے بھی 54ہزار کیسز کا پتہ چلے تو اس صورتحال کو تشویش ناک نہیں بھیانک قرار دینا چاہئے،ہمارا ہیلتھ سسٹم اس بوجھ کو اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا،ڈاکٹرچیخ چیخ کر تھک چکے ہیںکہ احتیاط کیجئے،ہجوم جمع کریں نہ ہجوم میں جائیں ،دستانے ،ماسک پہنیں ،بار بار ہاتھ دھوئیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ گھروں پر رہیں لیکن یہاں تو دکانیں کیا کھلیں پوری قوم ایک ہو کرکوروناسے ’’لڑنے‘‘ کے لئے باہر نکل آئی،اس افسوس ناک صورتحال میں صوبوں اور وفاق میں رسہ کشی اور سیاسی قیادت کی جوتم پیزازی نے کورونا کی راہ کی مشکل آسان کردی ہے ،کا ش کوئی ہماری سیاسی قیادت کو بتائے کہ سیاست انسانوں پر ہوتی ہے کچھ عرصے کے لئے یہ اپنی توپوں کو دم دینا چھوڑ دیں گے تو ان کی تیزابی صلاحیتوں کو زنگ نہیں لگے گا،ہمیں اس وقت قومی قیادت اور ایک موقف کی ضرورت ہے آگہی کے لئے مساجد کے امام خطیب حضرات کا تعاون بہت کارآمد ہوسکتا ہے ہمیں انہیں ساتھ لے کر چلنا چاہئے ساتھ ہی ہمیں کمیونٹی سطح پر بھی متحرک ہونا ہوگا اس وبا سے امریکہ جیسی سپرپاور نہیں لڑسکی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں ؟ہمیں اس وبا سے لڑنے والے ڈاکٹروں کوحفاظتی کٹس دستانے دینا ہوں گے عوام کی سطح پر قرنطینہ سینٹر بنانے ہوں گے ،یونین کونسل کی سطح پر جا کر لوگوں کو آگہی دیناہوگی،ہماری کمزور مالی حالت لاک ڈاؤن کرنے میں مزاحم ہے تو ہمیں کوئی احتیاطی تدابیرسے تو نہیں روکتا؟ اگر ہم نے یہ نہ کیا اور بے احتیاطی کی تو پھر کوئی انکل عبدالرحمٰن کی طرح نرم دل ہوں یا ڈاکٹر اعجاز احسن کی طرح بزرگ ۔۔۔یاد رکھیں ہمیں ایک ہوکر اس وبا سے بچنا ہے اسکے لئے تر نوالہ نہیں بننا۔