اس کے لیڈر صلاح الدین دیمریاس 2016سے جیل میں بند ہیں۔ اپوزیش کی سب سے بڑی کمزروی یہ ہے کہ وہ ابھی تک ایک مشترکہ صدارتی امیدوار کا اعلان نہیں کر پارہی ۔ حال ہی میں 26 جنوری کو انقرہ میں چھ پارٹیوں کی دس گھنٹے تک چلنے والی میٹنگ بھی امیدوار کا فیصلہ نہیں کر پائی۔ اب اگلی میٹنگ فروری کے وسط میں ہونے والی ہے۔ سی ایچ پی کے سربراہ کمال کلی چی دارولو کے نام پر اتفاق رائے شاید ہی ممکن ہوپائے گا۔ ایک تو ان کا لو پروفائل نیچر، پھر ان کا علوی بیک گراونڈ، ان کو ایک ہائی پروفائل امیدوار اردوان کو سخت مقابلہ دینے کی سکت شاید نہیں دے سکے گا۔ ان کے علاوہ سی ایچ پی کے ہی استنبول کے میئر اکرام امام اولو اور انقرہ کے میئر منصور یاواش مضبوط امیدواروںکے بطور ابھر رہے ہیں۔ چونکہ ترکیہ میں صوبائی حکومتیں نہیں ہوتی اس لئے ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے میئر کا مقام ملک کی سیاست میں وہی ہے، جو بھارت میں اتر پردیش اور پاکستان میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کاہوتا ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں گڈ پارٹی کی سربراہ میرال اکسی نر بھی مشترکہ امیدوار کے بطور حمایت حاصل کرنے کیلئے خاصی تگ ودو کر رہی ہیں۔ دارلحکومت انقرہ میں مختلف جگہوں پر ان کے پوسٹر آویزاں نظر آتے ہیں۔ وہ وزیر داخلہ اور نائب سپیکر بھی رہ چکی ہیں۔ امام اولو کو ابھی حال ہی میں ایک عدالت نے 2019میں الیکشن کمیشن کی توہین کے ایک کیس میں دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔ گو کہ اعلیٰ عدالت نے اس فیصلہ پر روک لگائی ہے مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ان کو صدارتی امیدوار کی دوڑ سے باہر کرنے کی کوشش تھی۔ مگر یہ ان کیلئے ایک نعمت ثابت ہوئی ہے ۔ سینئر تجزیہ کار مہمت اوز ترک کے مطابق اس فیصلہ سے امام اولو کو ہمدردی کا ووٹ اور اپوزیشن کو اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کا موقع ملا ہے۔ ایساہی کچھ کئی دہائی قبل اردوان کے ساتھ بھی ہوا تھا، جب وہ استنبول کے میئر تھے اور ان کو قید کر دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت کا گراف اونچا ہوتا گیا ، حتیٰ کہ وہ وزیر اعظم اور پھر صدر بن گئے۔ حال ہی میں جاری رائے عامہ کے جائزے کے مطابق اپوزیشن قومی یا ملی اتحاد کو 42.6فیصد، جبکہ حکومتی جمہوری اتحاد کو38.2فیصد ووٹ ملنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ مگر اردوان کی آک پارٹی ابھی بھی32فیصد ووٹ لیکر سب سے آگے ہے ، جبکہ سی ایچ پی 23.5فیصد ووٹ لیکر کافی پیچھے ہے۔ اس لئے ایک مضبوط اتحاد ہی اگلے صدارتی امیدوار کا فیصلہ کریگا۔ چونکہ اپوزیشن نے ابھی اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے اس لئے رائے عامہ کا جائزہ مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ابھی نتائج کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔ مگر یہ تو طے ہے کہ ابتر ہوئی معاشی صورت حال نے اردوان کیلئے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ ابھی حال ہی میں مخالفین کا منہ بند کرنے کیلئے کم از کم اجرت 8,500ترکش لیرا یعنی 445ڈالر کی گئی ہے۔ آک پارٹی کے ترجمان عمر جیلک کے مطابق اگلے چند ماہ میں ایسے کئی اور اقدامات کئے جائینگے، جس سے عوام کو معاشی بھنور سے نکلنے میں مدد مل سکے گی۔ 2019میں چار لیرا کا ایک ڈالر ہوتا تھا، جو اب بڑھ کر 18سے 20لیرا تک پہنچ گیا ہے۔ چونکہ ترکیہ کی معیشت گلوبل مارکیٹ سے مربوط ہے، لیرا کی تنزلی کا اثر ہر شعبہ زندگی پر پڑا ہے۔ مکانوں کے کرایہ سے لیکر اشیاء خوردنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اردوان کی مسلسل کامیابی کا راز ہی ملک کو معاشی استحکام دینے میں پوشیدہ ہے۔ ان کے ابتدائی دس سالوں میں یعنی 2013 تک فی کس آمدنی 12, 582ڈالر سالانہ پہنچ گئی تھی۔ 2003میں یہ بس 4739ڈالر تھی۔ اس کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا طبقہ غربت کی لائن سے باہر نکل گیا۔ اس کے بعد عالمی کساد بازاری کے پاوٗںجمالئے، مگر ان ابتدائی دس سالوں میں دور رس پالیسیوں کی وجہ سے جو ڈھانچہ بن گیا تھا اس نے مینوفیکچرنگ وغیرہ کو برقرار رکھنے میں مدد دی۔ اس کے علاوہ سیاحت کے شعبہ نے بھی خاصی ترقی کی۔ ترکیہ دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والا ایک اہم ملک بن گیا۔ اس آسودگی کی وجہ سے اردوان نے پوری آبادی کو سوشل سیکورٹی نیٹ میں شامل کردیا۔ یعنی مفت صحت عامہ کی سہولت، سرکاری و پرائیوٹ دفاتر میں میں ملازمین کو دن کا ایک کھانا مفت کھلانا لازمی رکھنا، بزرگوں کیلئے مفت روٹی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت، نوجوانوں کیلئے مفت تعلیم اور گریجوایشن کے بعد ڈیڑھ سال تک بے روزگاری، بھتہ، قومی تہواروں اور عیدین کے تین دن شہروں میں مفت ٹرانسپورٹ وغیرہ کچھ ایسے اقدامات تھے جنہوں نے اردوان کے اقتدار کو دوام بخشا۔ دوسری طرف اردوان کے ابتدائی دنوں میں ترکیہ نے یورپی یونین میں شامل ہونے کیلئے جو مذاکرات شروع کئے، ان کی وجہ سے جو اصلاحات کرنی پڑیں، اس سے لوکل باڈیز کو اختیارات تفویض کرنا اور ورلڈ کلاس انفرا سٹرکچر کو بنانے میں مدد ملی۔ یہ مذاکرات اب عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کیلئے اردوان نے حال کے عرصے میں اختلافات کو پس پشت ڈال کر سعودی عرب اور متحدہ امارات کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ استوار کیا اور لگ رہا ہے مصر اور شام کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانے کی سعی ہو رہی ہے۔ ترکیہ کے چار خطوں میں اناطولیہ یا ایشیاء کوچک اردوان کی سیاست کا ووٹ بینک مانا جاتا ہے۔ یہ خطہ نہایت غریب اور دیگر خطوں کے مقابلے پسماندہ مانا جاتا تھا۔ اسی خطے کی آبادی کا معیار زندگی اردوان نے اونچا کرکے ان کو استنبول و دیگر خطوں کی اشرافیہ کے مقابلے میںکھڑا کردیا۔ دیگر خطوں میںبحر اسود کا ساحلی علاقہ کارادینز اور بحر روم کے کنارے والا علاقہ آکا دینز ہے۔ یورپ کے علاقہ کو تھریس یا ٹریکیا کہتے ہیں۔ اشرافیہ کا یہ علاقہ اپوزیشن سی ایچ پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ معاشی خوشحالی کے علاوہ سیاسی میدان میں اردوان کی سب سے بڑی کامیابی ترکیہ کی سیاست میں فوج کے کردار کو ختم کرنا ہے۔ اس ملک میں کئی بار فوج نے مداخلت کی اور عدالتوں کے ذریعے بھی کئی سویلین حکومتوں کو برخاست کروایا۔ مصنف سائم کوروباس کے مطابق 1960سے ہی فوج نے چار حکومتوں کو برخاست کیا اور کئی وزراء اعظم کو نظر بند کردیا۔14 مئی 1950 کو ملک کے پہلے کثیر جماعتی انتخابات میں عدنان مینڈرس وزیر اعظم منتخب ہو گئے تھے، مگر1960میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور نظر بندی کے ایک سال بعد ان کو ایمارلی جزیرہ میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اردوان نے شاید اسی لئے انتخابات کی تاریخ 14مئی رکھی ہے۔ ایمارلی جزیرہ کو اب ڈیموکریسی آئی لینڈ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہر سال 14مئی کو یوم جمہوریت مناکر عدنان مینڈرس کو یاد کیا جاتا ہے۔ کوروباس کا کہنا ہے کہ اردوان کو طاقت ور فوج کو سویلین وزارت دفاع کے ماتحت کرنے کیلئے تاریخ میں یاد کیا جائیگا۔ اس کے دور میں آئین میں ترمیم کرکے مارشل لاء کو نافذ کرنے کی دفعات کو ہی منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ 17رکنی آئینی عدالت میں دو جج فوج کے ہوتے تھے۔ اس روایت کو بھی ختم کردیا گیا اور اب سبھی جج سویلین ہوتے ہیں۔ تاہم اردوان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ 2018کے بعد ایک شخص واحد کے ہاتھ میں طاقت مرکوز ہوکر احتساب کے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ براہ راست صدر کے منتخب ہونے سے پارلیمنٹ کا رول ہی ختم ہو گیا۔ فوج سے چھٹکارا تو ملا مگر سویلین آمرانہ نظام قائم ہوگیا۔ اس کا براہ راست اثر معیشت پر بھی پڑا۔ دو وزراء خزانہ اور تین سینٹرل بینک کے گورنر برطرف کئے گئے، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوگیا۔ گو کہ ترک اس پر متفق ہیں کہ پچھلی دو دہائیوں سے ترکیہ نے جو ترقی کی ہے اور اقوام عالم میں جو مقام بنایا ہے و ہ اردوان کی دین ہے، مگر اکثر نوجوان ترکوں کا خیال ہے کہ اردوان کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب وہ دے چکا ہے۔ اب اس کے پاس دینے کیلئے کچھ بچا نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ معیشت نے ہی اردوان کو مقبولیت کی بلندی تک پہنچایا اور اب یہی معیشت اس کے زوال کا سبب بھی بن رہی ہے۔ مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردوان اپنے پٹارہ سے کسی بھی وقت کچھ ایسا نکالنے کی طاقت رکھتا ہے، جس سے مخالفین کے ہوش اڑ سکتے ہیں۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکو ٹکر دینے کیلئے اپوزیشن اسکے ہم پلہ کوئی امیدوار ابھی تک لانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔