مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ ان کی لڑائی اداروں کے ساتھ نہیں۔ انہوں نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ ادارے ہمارے اپنے ہیں، بھارتی تو نہیں۔اور یہ کہ گلہ گزاری اپنوں سے ہوتی ہے غیروں سے نہیں۔ بس ا سی بات پر سب ہنگامہ ہے۔ نیم وا کھڑکیوں کے ساتھ کان لگائے، دروازوں کے پیچھے دم سادھے ، مولانا کے خاکی پوش جتھوں سے امیدیں وابستہ کئے، ہمارے لبرل انتہا پسنداب مولانا کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ لبرلز ہی نہیں، الیکٹرانک میڈیا کے دور نے’سینئر تجزیہ کاروں‘کی جو کھیپ پیدا کی تھی،مولانا کے دھرنوں جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے جوہمیں انقلاب کی’ نوید ‘ سناتے رہے، اب وہ بھی جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ اس ملک سے، اس ملک کے مستقبل سے، یہاں کی طرز سیاست سے، نظام حکومت سے ، گویا ہر شے سے مایوس نظر آتے ہیں۔ سیاستدانوں سے تو شکوہ ہرگز جائز نہیں کہ میدان سیاست میںحکومت کے جو حریف ہیں، ایک دوسرے کو گرانے اور خود اقتدار پر قبضہ جمانے کو ہی تو میدان میں اترتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے تو ہم آپ کو نیم خواندہ کہنے والے ،’’دانشوروں‘‘ پر کہ دن راتجو ہمیں ’’جمہوریت‘‘کے فضائل سمجھاتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے اگر بڑھ کر نہیں تو لگ بھگ اسی کے برابر،پارلیمانی نظام اور اٹھارویں ترمیم کے فضائل جو بیان کرتے ہیں۔صدارتی طرزِ حکومت کا نام سن کر طیش میں آجاتے ہیں۔ مذہبی انتہاپسندوں کے ہاں اگر ضیاء الحق کے جاری کردہ قوانین پر بات کرنے میں سر سلامت نہیں، تو لبرل انتہا پسند وںکے سامنے کچھ موضوعات کو چھیڑوتو سر پر پگڑی سلامت نہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں کی طرح قتل تو نہیں کرتے، مقدوربھر تضحیک ضرور کرتے ہیں۔ہر دو قسم کے انتہا پسندوں کو اختلاف رائے گوارہ نہیں۔ان دو انتہائوں کے درمیان ہم پاکستانیوں کی اکثریت گھری پڑی ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جمہوریت ہی مستند نظام حکومت ہے۔خود اسلام نے پندرہ سو سال قبل ’’امر ھم شورٰی بینھم‘ ‘کا لافانی و آفاقی اصول طے کردیا تھا۔ پہلے تیس سال چھوڑ کرکیا اقتدار کی منتقلی کبھی اس اصول پر ہوئی؟ اموی اور عباسی خاندانوں نے صدیوں حکومت کی۔ اندلس کی مسجد میں بیٹھ کر حضرت اقبال نے سنہری عہد رفتہ کے نوحے لکھے۔ مصر میں فاطمیوں نے حکومت کی، ترکی میںسلجوق اٹھے، عثمانیہ سلطنت کی عظمت کے گیت ہم آج بھی گاتے ہیں۔ صفویوں نے ایران، تو خوداپنے ہاں مغلوں نے تین سو سال حکومت کی۔جمہوریت تو کیا کسی ایک نے انتقال اقتدار کا متعین اصول تک وضح نہ کیا۔ فیصلے اکثر تلوار ہی کرتی ۔ پاکستانی مسلمان تو اس باب میںکہیں بہتر نظر آتے ہیں۔’اکانومسٹ‘ نے ’جمہوریت انڈیکس ‘کے تحت 167 ملکوں کو چار نمایاں کیٹیگریز میں تقسیم کیا ہے۔ بہترین جمہوریت والے ملک، ناقص جمہوریت والے، ہائبرڈ اور جو آمریت کی گرفت میں ہیں۔ رپورٹ میں ممالک کی درجہ بندی پانچ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ، جن میں انتخابی عمل کی پختگی،معاشرے کی کثیر جہتی (Pluralism)، طرز حکومت، معاشرے کے مختلف طبقات کی سیاست میں شراکت داری، عمومی سیاسی رویے اور شہری آزادیاں شامل ہیں۔حسبِ معمول رپورٹ سے ہرکوئی اپنی اپنی خواہشات نچوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کو ایک سو آٹھویں نمبر پر رکھتے ہوئے’ ہائیبرڈ جمہوریت‘ والے ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم یہاں ’ہائبرڈ ‘سے مراد وہ نظام نہیں جس کا ذکر ہمارے لبرل انتہا پسند کرتے ہیں اورجس کے خاتمے کے لئے’ قائد عزیمت ‘ لندن سے تقریریں فرماتے ، اور اُن کی صاحبزادی کو لاہور کے جلسے سے قبل ’آر یا پار‘ کی امید تھی۔اس رپورٹ کے مطابق سیاسی کلچر اور رویوں کے باب میں ہمارا سکور سب سے بُرا ہے۔ رویوں میں کج روی ، اکثر کج فکری کا ہی شاخسانہ ہوتی ہے۔کیا ضروری ہے کہ ہر صاحبِ علم کی فکر بھی پختہ ہو؟ قبائلی پٹی میں لڑی جانے والی بے چہرہ جنگ کے دوران ہم جیسے سفاک دشمن سے نبرد آزما تھے، تو ٹی وی سٹوڈیوز میں بیٹھے انتہا پسندوں کے معاون سرِ شام ہماری ہی پیٹھ پر حملہ آور ہو جاتے۔ معاصر میں لکھنے والے دانشور ان دنوں نئے نئے کھلنے والے ٹی وی چینل میں مذہبی پروگرام کیا کرتے تھے۔جہاد کے باب میں غامدی صاحب کی فکر سے متاثر تھے، لہٰذا دہشت گردوں کی حمایت سے گریزاں رہتے۔ ہم جیسوں نے اسی بات پر ان کے بارے میں خوش گمانی پال لی۔ کسی ایک سال اپنی کم سن بچی کے اسلامیات کے پرچے میں فیل ہونے پر پورا کالم داغ دیا۔ آٹھ دس سالہ بچی کو دقیق مذہبی مضامین پڑھاتے رہے۔ سکول میں اپنی عمر کے مطابق پوچھے گئے بنیادی سوالات کی تیاری نہیں کروائی۔ معصوم فیل ہوگئی۔دانشور نے پورے نظامِ تعلیم کو رگید ڈالا۔اب نوازشریف اور ان کی بیٹی کی محبت میں گرفتار ہیں۔ شہبازشریف کو ہمہ وقت کوستے رہتے ۔ کل سے مولانا فضل الرحمن کو بھی کوس رہے ہیں ۔ ایک عرصہ سے ان کے مضامین باقاعدگی سے نہیں پڑھے۔ نہیں معلوم کہ والد صاحب کی لندن روانگی کے بعد گوشہ نشینی،بیٹی کے ٹویٹر کی مہینوں خاموشی، فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون کی غیر مشروط حمایت، اور محمد زبیر کی پے در پے طویل ’ذاتی‘ ملاقاتوںپر دانشور کی کیا رائے ہے۔ عشروں پہلے، چند رومان پرست لبرلز بلوچستان کے پہاڑوں پر مسلح جتھوں میں شامل ہو کر بھٹو صاحب کے حکم پر بھیجی گئی فوج کے خلاف لڑنے گئے تھے۔آسودہ حال گھرانوں کے لڑکے بالے کچھ اور نہیں سخت جان بلوچوں کی تفریح طبع کا ہی سامان بنے تھے۔ احمد رشید جیسے آج سنجیدہ فکر اور معتبر نام ہیں۔ لوگ انہیں توجہ سے سنتے ہیں۔ایک کی وجہ شہرت آج بھی محض’ چڑیوں ‘ کے ذریعے اندر کی خبریں نکال کرلانا ہی ہے۔ باپ بیٹی سے جسے اب بھی امید ہے کہ ہر شے روند ڈالیں گے۔ اسی قبیل کے انتہا پسند اب مولانا کے حالیہ بیان کے بعد سیخ پا ہیں۔ اداروں کی نفسیات سے نا چیز جس قدر آگاہ ہے، اسی کی بنیاد پر تیقن سے کہہ سکتا ہوں کہ چڑچڑے پن اور زور آوری سے نہیں، انصاف اور سچائی،تدبر اور معاملہ فہمی پر مبنی رویے ہی راستہ نکالیں گے۔ راولپنڈی کے گھیرائو میںنہیں، اسلام آباد کے استحکام میں سیاسی استحکام ہے۔قومی اداروں کو کمزور کرنے سے نہیں، سول اداروں کو مضبوط بنا نے سے ہی جمہوریت مضبوط ہو گی۔ مذکورہ بالا رپورٹ میں’جمہوری ملک‘ قرار دیئے جانے والے برطانیہ میں جمہوریت کتنی صدیوں کے بعد یوں متشکل ہوئی؟ سوشل میڈیا کی پیدوار’’ سینئر تجزیہ کاروں‘‘ کو کچھ فہم ہو یا نہ ہو، جمہوریت پسند لبرلز کے برسوں پر محیط تاریخ، فلسفے، سیاسیات اور ادب کے مطالعہ کو یوں بے مصرف نہیں جانا چاہئے۔ آٹھ سو سال قبل میگنا کارٹا ،کہ جس کا حوالہ آئے روز دیا جاتا ہے، بادشاہ سے محض لارڈز کو اختیارات کی منتقلی کا معاہدہ تھا۔کروم ویل کی لاش کو پھانسی بادشاہ نے دی تھی۔صدیوں کے ارتقاء کے بعد کہیں جا کر آئینی بادشاہت ، جمہوریت میں بدلی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے درجنوں قوموں نے معاشرتی اور معاشی ترقی کی منازل طے کیں اور آمریت سے نجات پائی۔بے انصافی، بے ایمانی، قومی وسائل کی لوٹ مار اور اقرباء پروری جہاں قبولیت پا جائے، ان معاشروں کے آسودہ حال ہوجانے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔