یہ عام تاثر ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہے کہ اہل مغرب اور مغرب مرعوب ان کی نقالی کرنے والے یا پھر اس طرز زندگی کواپنانے والے ترقی کررہے ہیں۔ مشرق کی روایات و اقدار و عادات ان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی ہے کیا شے‘ کیا یہ صرف زندگی کی آسودگی اور آسانی کا نام ہے یا پھر روحانی بالیدگی یا قلبی اطمینان کا نام ہے۔ اس بحث کو چھیڑنے سے پہلے میں ایک دو سادہ سی مثالیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ اصل میں اس موضوع پر کراچی سے آئے ہوئے ہمارے دانشور اور مفکر خالد جامعی اور ان کے شاگرد رشید پروفیسر فصیح احمد نے ڈاکٹر ناصر قریشی کے گھر ایک پرمغز لیکچر دیا۔وہ تحسین کے لائق ہیں کہ وہ اس دور میں جب کہ وقت ایک قابل استعمال چیز کی طرح ایک قیمت رکھتا ہے وہ فی سبیل اللہ مختلف جگہوں پر ایسے لیکچر دیتے ہیں جس سے موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اسلام کو نئے چیلنجز کے برابر رکھ کر سمجھا جاتا ہے۔ خالد جامعی صاحب نے اپنا لیکچر شروع کیا تو بتایاکہ ہم سب ترقی کسے سمجھتے ہیں۔ مثلاً آپ اپنے بوڑھوں کے لئے اولڈ ہوم بنا دیں۔ ظاہر ہے اولڈ ہومز بنانے کی صورت میں ان کی تعمیر اور پھر ان کو چلانے کے لوازمات کتنا زیادہ روزگار پیداکریں گے۔ اس کے بعد آپ ڈے کیئر کی طرف آئیے کہ عورتیں اپنے چھوٹے بچوںکو ڈے کیئرز میں چھوڑیں اور خود مردوں کے شانہ بشانہ کام کے لئے نکل جائیں تو ان ڈے کیئر کو بنانے اور ان کا نظام چلانا بھی کتنے روزگار مہیا کرے گا۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ سب کے سب کام پر نکلیں۔ ہماری طرح نہیں کہ ایک کمائے اور بارہ چودہ لوگ کھائیں۔ اسی طرح آپ مارکیٹ بڑھاتے جائیں گے۔ ظاہر ہے جو مرد اور عورتیں کام پر نکلیں گی تو کھان پینا اور دوسرے معاملات بھی ان کو ریڈی میڈ چاہئے ہوں گے۔ ہوٹلنگ اور پھر اسی طرح کے دوسرے شعبے بھی چلنے لگیں گے ان کا کہنا یہ تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی تو یہ ہے مگر کس قیمت پر ہے کہ آپ کا خاندانی نظام بکھر جائے گا۔ وہ جو ہماری روایات و اقدارہیں کہ اپنے بوڑھوں کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال سب تلپٹ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریکوں کے سامنے یہی مسئلہ ہے کہ ترقی میں ان کا کیسے مقابلہ کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی اقدار کو کیسے بچایا جائے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اگر آدھی آبادی یعنی عورتیں گھر پر بیٹھی رہیں گی تو اہل مغرب کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کچھ شعبوں میں تو اسلام پسندوں نے عورتوں کو نکالا ہے اور وہ کام کرتی ہیں مگر اہل مغرب نے تو مکمل طور پر عورت کو فوکس کیا ہے کہ وہ تو پوری دنیا میں مخلوط معاشرہ چاہتے ہیں۔ وہ این جی اوز کو بھی اس لئے پیسے دیتے ہیں کہ وہ یہ ’’بیداری‘‘ پیدا کریں۔ انہوں نے تو عورت کو ’’کموڈٹی‘‘ بنا دیا ہے۔ پورا شوبز اور بازاری معاملات‘ کیسا پھیلائو ہے۔گھر کی اکائی پر زد پڑی ہے گھر بکھر گیا ہے۔ اجتماعیت ختم ہو کرانفرادیت پیدا ہوئی ہے اور اس سے بیگانگی نے جنم لیا ہے۔ خود غرضی نے ایثار محبت‘ وضعداری اور ایسے تمام جذبے ختم کر کے رکھ دیے ہیں۔وہ جو امریکی سسٹم کے بے باک ہو کر باپ بیٹے کو قرض دیتا اور بیٹا باپکو۔ سیدھے لفظوں میں آنکھ کی حیات ختم شد۔ خالد جامعی کے شاگرد رشید فصیح احمد جو کراچی یونیورسٹی میں ہسٹری پڑھاتے ہیں نے اس موضوع کو آگے بڑھایا اور بہت نپی تلی بات کی۔ وہ جدید علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انداز میں اس مسئلے کو چھیڑا اور نمٹایا۔ انہوںنے کہا پہلی بات ہے کہ ترقی کے لئے اہل مغرب نے monotization مونوٹائزیشن کی یعنی کہ ریونیو کیسے اکٹھا کرنا ہے ہر چیز کو اثاثہ اور کاروبار کیسے بنانا ہے پھر آپ کی خدمات بھی بکنے لگیں۔ یعنی مکمل مادہ پرستی۔ وقت تک کی قیمت ہے تعلیم بھی بکے گی اور تربیت بھی۔ مثلاً چھوٹے موٹے معاملات میں بھی آپ کو سپشل لائزیشن کرنے والے کے پاس جانا پڑے گا۔ آپ کاموں سے فارغ ہوتے جائیں گے اور آپ کے یہ کام پروفیشن والے کریں گے۔ مثلاً اب آپ اپنے بل وغیرہ بھی خود جا کر جمع نہیں کروائیں گے اس کے لئے بھی سروسز موجود ہیں۔ سب کچھ دوسروں پر ڈال دیا جائے گا۔ ہمیں بتایا کہ ملائشیا نے اتنی ترقی کی ہے کہ وہاں گھروں سے باورچی خانہ تک ختم کر دیا گیا ہے۔ ویسے مجھے تو یقین نہیں آتا کہ عورت باورچی خانے کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ باورچی خانہ تو لازم شے ہے۔ مہاتیر نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ملائشیا کے ہر فرد کے پاس گاڑی دیکھنا چاہتا ہوں کسی نے کہا ’’جناب یہ گاڑیاں کھڑی کہاں کرنی ہیں؟‘‘ بات ہو رہی تھی فصیح احمد کے لیکچر کی کہ تیسرا مرحلہ نصاب کا کہ یہ پروفیشنل ازم پڑھایا بھی جائے اور اس کے بعد چوتھا مرحلہ آئے گا ان چیزوں کی تشہیر کا۔ گویا کہ دائرہ در دائرہ پھیلائو آتا جائے گا۔ انسان پیسے کمانے والی مشین ہی تو بن جائے گا یا مشین کا کل پرزہ۔ اس کی ساری توجہ پیسہ اکٹھا کرنے پر ہو گی کہ زندگی کی آسائشیں خریدنی ہیں اور حقیقت میں وہ اپنا آرام اور سکون تج دے گا۔ خدمت اور مدد کرنا تو وہ بھول ہی جائے گاکہ اسے یہ بیگار لگے گا۔ انہوں نے اچھی بات کی کہ ہمیں اپنے معیارات زندگی کو کم کرنا چاہیے۔ وہی سادگی اپنانی چاہیے۔ قناعت کو شعار بنانا چاہیے۔ ایک گھر داری ہوتی ہے جس کا کوئی نعمل البدل نہیں۔ ہمارے ہاں دیکھیے کیا بھیڑ چال ہے کہ کوئی برانڈ حاصل کرنے کے لئے لوگ مرے جاتے ہیں۔ ایک دنیا داری‘ دکھاوا اورشوبازی ’محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ انہوں نے مسلمانوں کی شناخت اور پہچان کو مسخ کرنا ہے۔ اپنے ہر کام کے لئے ان کے پاس جواز ہے۔ سب شیطانی چکر ہیں۔ ان کا دہشت گرد ذہنی مریض نکلنا ہے اور ہمارا اپنی حفاظت کے لئے مدافعت میں اقدام کرتا ہے تو دہشت گرد۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں تو مذہب نہیں ہے اس لئے قتل و غارت کے لئے کوئی ردعمل نہیں جبکہ اسلام میں استحصال مذہب ہی کے باعث ہے۔ بہرحال اسلامی مفکرین کو بھی کچھ نہ کچھ تو اجتہاد کرنا پڑے گا۔ مگر اتنی بڑی قربانی کہ گھر گھر نہ رہے شاید کوئی دینے کے لئے تیار نہیں۔ وہاں آپ کیا کریں گے جہاں انسانی خدمت تو ایک طرف اپنی دوائی بیچنے کے لئے پراپیگنڈہ اور ڈاکٹر کو استعمال کیا جائے وہاں کیسی ہمدردی۔ جہاں جیلوں میںاسائشیں دی جائیں کہ جرم کو فروغ ملے۔ دیکھیے ہم ان کی دست برد سے کیسے بچتے ہیں کہ وہ تو ہمیں امداد بھی دیتے ہیں تو اس کے استعمال کا طریقہ اور شرائط بھی بتاتے ہیں۔ وہ عورتوں کی نمائندگی تو ہر صورت میں یقینی بناتے ہیں۔ پرویز مشرف کی میراتھن بھی اس ایجنڈے کا حصہ تھی۔ سوال یہی ہے کہ کیا ہم ایسی ترقی کے لئے اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مغرب سے متاثر لوگ تو یہ کر بھی رہے ہیں اور پریشان بھی ہیں۔ بوڑھا اور بوڑھی دو تین چار بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کو باہر بھیج دیتے ہیں اور خود اکیلے گھر میں بیماریوں سے لڑتے ہوتے ہیں۔ بس جسموں پہ محنت ہو گی تو روحیں کمزور پڑ جائیں گی۔ ہم جسموں کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ارواح نڈھال پڑی ہیں۔