دبئی میں بیٹھے ایک قوم پرست پشتون نے پچھلے کالم پر ردعمل دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سوویت دور میں افغانستان اتنا ترقی یافتہ تھا کہ وہاں خلائی تحقیق کا ادارہ بھی قائم تھا اور عبدالاحد نامی ایک پختون وہ پہلا شخص تھا جس نے خلا میں پشتو بولی تھی۔ جس طرح یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس نے خلا میں پشتو مکالمہ کس سے کیا ہوگا ؟ اسی طرح یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خلا میں پشتو بولنے سے پشتون تو چھوڑیں خود پشتو زبان کو کیا فائدہ ہوا ؟ کیا اس کے حروف تہجی بڑھ گئے یا تعداد تو وہی رہی مگر حرف چمکنے اور دمکنے لگے ؟ موصوف کا فرمانا ہے کہ افغانستان سوویت دور میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا جسے سامراجی ایجنٹوں نے نقصان پہنچا کر ترقی کے عمل کو تباہ کر دیا۔ یہ بات تو حقیقت ہے کہ افغانستان میں سوویت "ترقی" کو "سامراجی ایجنٹوں "نے تباہ کیا لیکن کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ترقی کے شاہکار جس سوویت یونین کی برکت سے افغانستان بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا اس سے اس کے اپنے کروڑوں شہریوں نے کیوں بغاوت کی ؟ اس یوکرائن نے کیوں آزادی حاصل کی جو سوویت وار انڈسٹریل زون تھا ؟ اس قازقستان نے کیوں آزادی حاصل کرنی ضروری سمجھی جہاں سے سوویت خلائی مشن روانہ ہوا کرتے تھے ؟ اور باقی 16 ریاستوں نے بھی اس سے آزادی حاصل کرنا کیوں ضروری سمجھا ؟ یہ ترقی کا کیسا اعلیٰ نمونہ تھا جس سے اس کے اپنے ہی ترقی یافتہ شہریوں نے بالاجماع بغاوت کر ڈالی ؟ بغاوت تو ہوتی ہی گھٹن، جبر اور ظلم سے ہے۔ کیا کوئی قوم پرست سمجھا سکتا ہے کہ بھلا ترقی سے بھی کبھی بغاوت ممکن ہوتی ہے ؟ اگر ہاں تو کیسے اور کیوں ؟ ترقی کی جس "سرخی" کے لئے آپ روسی ٹینکوں کا طور خم سرحدپر انتظار کرتے رہے وہ تو آج اپنی جنم بھومی روس میں مردہ پڑے ہیں تو آپ اس کی بعد از مرگ وکالت کس امید پر کر رہے ہیں ؟ موصوف نے افغانستان کی وکالت اور چاہت کی داستان کو طول دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ افغانستان میں دفن ہونا باچا خان کا ایک مدبرانہ فیصلہ تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان ہی ہر پشتون کی آخری پناہ گاہ ہے۔ اب اس پر اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ باچا خان کی اس ذہانت پر تو فدا ہونے کو جی کرتا ہے کہ انہوں نے رہنا اور ممکنہ طور پر حکومت کرنا پاکستان میں ہی چاہا مگر دفن ہونے کے لئے افغانستان کوپسند کیا۔ شائد یہ وہ بھی جانتے تھے کہ افغانستان کسی لیفٹسٹ کے لئے قبل از موت نہیں بلکہ بعد از موت کے حساب سے مناسب مقام ہے۔ ان کے صاحبزادے خان عبدالولی خان کے دور تک شائد یہ واضح ہو گیا تھا کہ افغانستان کسی لیفٹسٹ کے لئے بعد از مرگ بھی مناسب مقام نہیں رہا۔ چنانچہ وہ رہے بھی یہیں اور مدفون بھی یہیں ہوئے۔ اسفندیار ولی خان کو اللہ لمبی عمر عطاء فرمائے۔ وہ رہ دبئی میں رہے ہیں مدفن کے حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہی نہیں بلکہ بہت نامناسب بھی ہوگا۔ آخر میں موصوف نے وہی گھسا پٹا راگ الاپا ہے کہ پاکستان میں پختونوں کو دو صوبوں اور تین نظاموں میں بانٹ کر ان کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا گیا۔ یہ بات کسی پچھلے کالم میں بھی عرض کی جاچکی کہ جب پشتون قوم پرستوں کے پاس کھیلنے کو کوئی نیا شوشہ نہ ہو وہ یہ راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں کہ پختونوں کو دو صوبوں اور تین قسم کے نظاموں میں بانٹ کر ان کے ساتھ بہت ہی بڑا جبر کیا گیا۔ لیکن کیا یہ حیرت انگیز امر نہیں کہ پختون قوم پرستوں نے کبھی بھی اس جبر کے خاتمے کے لئے کوئی تحریک نہیں چلائی ؟ صرف یہی نہیں کہ اس ’’جبر‘‘ کے خاتمے کے لئے کوئی تحریک نہیں چلائی بلکہ جب انضمام کا مرحلہ آیا تو محمود خان اچکزئی تو اس کے خلاف میدان میں آگئے۔ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ یہ تین طرح کے بند وبست تین طرح کے پختون علاقوں میں رہنے والے پختونوں ہی کی چاہت اور مطالبے پر ہوئے تھے۔ افغان سرحد کے ساتھ ملحقہ سات سابق فاٹا ایجنسیاں قائد اعظم کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہوئیں اور فاٹا کا استثنائی نظام اسی معاہدے کے تحت خود ان ایجنسیوں کے لوگوں نے مانگا تھا۔ اسی طرح سوات، دیر، چترال، ژوب، لورالائی اور قلات کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ خود مختاری کی شرط پر الحاق کیا جو ایک مستقل استثنائی نظام تھا۔ چنانچہ یہ ریاستیں 1969ء تک خود مختاری کا یوں لطف لیتی رہیں کہ ان کے والی اور نواب پندرہ توپوں کی سلامی کے بھی حقدار رہے۔ 1969ء میں تمام ریاستیں پاکستان میں ضم کرلی گئیں تو ملاکنڈ ڈویژن میں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ ہمیں تو شرعی قوانین چاہئیں۔ صرف شرعی قوانین ہی نہیں بلکہ ملک کے ریگولر نظام سے کچھ مزید استثنائیں بھی طلب کی گئیں۔ یوں ’’پاٹا‘‘ کی چھتری تلے ایک تیسرا بندوبست ایجاد کرلیا گیا۔ کیا کوئی بتائے گا کہ صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کیوں وجود میں آئی تھی ؟ اور ملاکنڈ ڈویژن میں تین بار ریاست سے تصادم کی نوبت کیوں آئی ؟ کیا یہ سب کچھ امتیازی قوانین اور استثناؤں کے حصول کے لئے نہ تھا ؟ ایک طرف آپ خودمختاری اور امتیازی نظام کے بھی مزے لیں، دوسری طرف کبھی باچاخان تو کبھی منظور پشتین کے ہاتھوں ملنے والے افغانی لولی پوپ بھی چوسیں اور پھر یہ سوال بھی ہم ہی سے پوچھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کب تک افغانستان اور پاکستان کے مابین میدان جنگ بنا رہے گا ؟ اتنی معصومیت ؟