اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تجارت و ترقی سے متعلق کانفرنس سے ورچوئل خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ترقی پذیر ممالک کو بلاتعطل ویکسین دینے کی اپیل کی ہے۔ وزیر اعظم نے کورونا اور خراب معاشی حالات میں ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے لیے 5نکاتی ایجنڈہ بھی پیش کیا۔ اس ایجنڈے کے تحت ان ممالک کو قرض میں ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔ مالی اعانت میں توسیع دی جائے، ترقی پذیر ممالک کے لیے 500ڈالر کا امدادی فنڈ قائم کیا جائے، بدعنوان سیاست دانوں اور مجرموں کے زیر قبضہ چوری شدہ سرمائے کی واپسی کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ وزیر اعظم جب ترقی پذیر ممالک کی بات کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کے مخاطب دنیا کے وہ دولت مند ممالک ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر جی 8اور جی 20کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں ترقی یافتہ دنیا کے قریب پہنچنے والے برکس ممالک برازیل، جمہوریہ جنوبی افریقہ، روس، انڈیا اور چین بھی شامل ہیں۔ایک طرف جب مغربی ممالک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب ابھرتی ہوئی معیشتوں کا عالمی معیشت میں حصہ بڑھ گیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ابھی بھی تجارت کی بہت سی گنجائش موجود ہے۔ امریکی معاشی ماہرین نے اپنی تحقیق میں تسلیم کیا ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تیز رفتار ترقی امریکہ کی معیشت کے لیے بھی سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں میں بہتری سے امریکہ کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ترقی پذیر ممالک کے ساتھ دولت مند ممالک باہمی مفادات پر مبنی نظام بروئے کار لا سکیں تو دنیا میں امیر غریب کا فرق کم ہو سکتا ہے ۔ایک ایسے وقت میں جب ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں کورونا کے باعث طبی بحران اور اس کے اقتصادی اثرات سے نمٹنے کے لیے دباؤ کی شکار ہیں تو قرضوں کی ادائیگی پہلے سے کم وسائل پر ایک سنگین بوجھ بن سکتی ہے۔چنانچہ ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک تیز تر مہم جاری ہے۔ آئی ایم ایف اور دنیا کی صفِ اول کی معیشتوں نے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے چند اقدامات اٹھائے ہیں۔آئی ایم ایف نے 25 ممالک (اکثریتی طور پر افریقی ممالک) پر واجب الادا رقوم کو چھ ماہ کے لیے رکن ممالک کی جانب سے عطیہ کیے گئے ایک ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے پورا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ۔ اس میں برطانیہ کی جانب سے 18 کروڑ 50 لاکھ ڈالر (15 کروڑ پاؤنڈ) کی رقم بھی شامل تھی۔ جی 20 ممالک نے 77 ممالک سے متوقع قرضوں کی ادائیگیوں کو منسوخ کرنے کے بجائے مؤخر کرنے پر اتفاق کیا ۔ اس سہولت سے پاکستان نے بھی فائدہ اٹھایا۔چنانچہ ترقی پذیر ممالک کے قرضوں میں نرمی کی مہم چلانے والے افراد کا خیال ہے کہ جی 20 اور دیگرکو مزید کام کرنا چاہیے۔مثال کے طور پر جوبلی ڈیٹ کیمپین نے جی 20 کے اقدام کو پہلا قدم قرار دیا ہے ۔ انھوں نے درخواست کی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی مکمل طور پر منسوخ کر دی جائے۔انھوں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جی 20 کا یہ معاہدہ قرضے دینے والے نجی اداروں کا احاطہ نہیں کرتا۔ جی 20 نے صرف ان قرض خواہوں پر زور دیا ہے کہ وہ بھی غریب ترین ملکوں کو دیے گئے قرضوں کی ادائیگیاں ایسے ہی مؤخر کریں۔جوبلی ڈیٹ کیمپین کی خواہش ہے کہ امیر ممالک قانون میں ایسی تبدیلیاں لائیں جن کی رو سے نجی قرض خواہ ادائیگی نہ کر پانے والے ممالک کے خلافقانونی چارہ جوئی نہ کر سکیں۔ امریکی گروپ گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کیچند برس پرانی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک دہائی میں ترقی پذیر ممالک کو جرائم، بدعنوانی اور ٹیکس چوری کے باعث چھ کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق 2002 سے2012 تک دس برسوں میں پاکستان سے اوسطاً ڈھائی سو ملین ڈالر سالانہ یعنی ایک دہائی میں کْل ڈھائی ہزار ملین ڈالر غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل ہوئے ۔گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کے ڈائریکٹر ریمنڈ بیکر کا کہنا تھا ’ترقی پذیر ممالک سے بڑی رقم غیر قانونی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں، ٹیکس چوری کے لیے محفوظ ممالک اور ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں میں منتقل کی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس رقم کو روک کر بیٹھے ہیں جو امیر اور غریب ممالک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔‘ کورونا کے دوران عالمی معیشت کے ناانصافی پر مبنی اصولوں کا بھرم کھل چکا ہے۔ دولت مند ممالک نے غریب ممالک کو قرض کی مارکیٹ میں صارف سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ انسانی بھائی چارہ اور باہمی مدد کا جذبہ سرد پڑنے کا نقصان یہ ہوا کہ ترقی پذیر ممالک سیاسی اور معاشی اعتبار سے دولت مند ریاستوں کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کی بڑی وجہ طاقتور اشرافیہ کی لوٹی گئی رقم بیرون ملک منتقل ہونا ہے۔ پانامہ اور براڈ شیٹ معاملے میں اس جرم کا حجم کسی حد تک واضح ہوا ہے۔ پاکستان کو یہ لوٹے گئے اثاثے واپس کر دیئے جائیں تو غیر ملکی قرض کی ادائیگی آسان ہو سکتی ہے۔ اس رقم سے صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولیات عام کی جا سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کو اس سلسلے میں خود آگے بڑھ کر تمام ممالک کو انسداد بدعنوانی کے حوالے سے ترقی پذیر ممالک کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے۔