4 اکتوبر کو ، برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف نے اپنے کالم ’’ طلوع‘‘ میں ، امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ ) کی طرف سے 27 اکتوبر کو ( آج کے دِن) اسلام آباد تک آزادی مارچ کے فیصلے/ اعلان پر تنقید کرتے ہُوئے لکھا تھا کہ’’27 اکتوبر تو وہ منحوس دِن ہے جب مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے راجا ہری سنگھ نے کشمیری عوام ، سے غداری کرتے ہُوئے جعلی دستاویز پر دستخط کئے اور بھارت نے اپنی فوج بھیج کر ریاست پر قبضہ کرلِیا۔ اِسی لئے ہر سال 27 اکتوبر کو تو دنیا بھر کے کشمیری ’’ یوم سیاہ‘‘ مناتے ہیں ۔ اُس کے بعد وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی ، حکومت ِ پاکستان ، میاں شہباز شریف ، بلاول بھٹو زرداری اور پاکستانی قوم نے ، فضل اُلرحمن صاحب پر دبائو ڈالا ، چنانچہ فضل اُلرحمن صاحب نے شاہ محمود قریشی صاحب پر احسان دھرتے ہُوئے آزادی مارچ کی تاریخ 31 مارچ مقرر کردِی۔ اچھا کیا ،بچ گئے؟۔ معزز قارئین!۔ راجا ہری سنگھ سے پہلے ریاست جموں و کشمیر کے راجا گلاب سنگھ نے کشمیر کو ہندوستان کے انگریز حکمرانوں کو سستے داموں فروخت کردِیا تھا ۔ اُس پر ’’ شاعرِ مشرق‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ … دہقان و کشت و جُوئے و خیاباں فروختند! قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند! یعنی۔ ’’ کاشتکاروں ( کسانوں ) ، کھیتوں ، دریائوں اور باغوں کو فروخت کردِیا( کشمیری ) قوم کو فروخت کردِیا ہے اور کتنا سستا فروخت کردِیا ؟‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ کے آبائو اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا ۔ آپ ؒ نے اپنی ایک فارسی نظم میں ’’کشمیر‘‘ کے عنوان سے اہلِ جہاں کو کشمیر جنت نظیر کی دعوت دِی تھی جس کا مَیں صِرف اردو ترجمہ پیش کر رہا ہُوں … ’’٭ کشمیر کا سفر اختیار کر کر اور پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں دیکھ، ہر طرف اُگا ہُوا سبزہ اور ہر چمن میں کِھلا ہُوا لالہ دیکھ۔ ٭ بادِ بہار کی موجیں دیکھ ، طائرانِ بہار کے پرے کے پرے دیکھ، اناروں کے درخت پر قمریوں اور فاختائوں کے جھنڈ کے جھنڈ دیکھ۔ ٭ دیکھ ! زمین نے اپنا چہرہ نسترن کے بُرقع میں چُھپالِیا ہے ، تاکہ اِس کی زینت پر آسمانِ فتنہ باز کی نظر پڑے۔ ( اسے نظر نہ لگ جائے ) ۔٭ دیکھ خاک سے گلِ لالہ اٹھا ( گویا) خاک کے اندر شرارے چمکے، ندی کے اندر موج تڑپی، جس سے پانی پر شکنیں پڑ گئیں۔ ٭ مضراب سے تارِ ساز چھیڑ، جام میں شراب ڈال، دیکھ ، بہار کا قافلہ ہر انجمن میں ( ڈیرہ ڈالے ) ہے۔٭ لالہ رُخ اور سیمیں بدن دخترکِ برہمن کے چہرے کی طرف نظر اُٹھا پھر اپنے اندر نگاہ ڈال‘‘۔ کشمیر کی محکموی و مجبوری اور فقیری پر افسوس کا اظہار کرتے ہُوئے علاّمہ صاحب ؒنے کہا کہ … آج وہ کشمیر ہے ، محکوم و مجبور و فقیر! کل جِسے اہلِ نظر کہتے تھے ، اِیرانِ صغیر! آہ یہ قوم ِنجیب و چرب دست و تردِماغ! ہے کہاں روزِ مکافاتِ اے خُدائے دیر گِیر! معزز قارئین!۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی ’’ شہ رگ ‘‘ قرار دِیا تھا لیکن، قائداعظمؒ تو قیام پاکستان کے ایک سال اور ایک ماہ کے بعد ہی خالق حقیقی سے جا ملے ۔ قائداعظمؒ کے دستِ راست ، پاکستان نے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں ؒنے بھارت کو مُکّا دِکھایا تو نہ جانے پاکستان کے کن اندرونی یا بیرونی دشمنوں کی سازش سے 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے جلسۂ عام میں شہید کردِیا گیا، ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صدرِ پاکستان تھے ، جب وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا تھا کہ ’’ ہم ( یعنی ۔پاک فوج اور اہل پاکستان ) کشمیریوں کی آزادی کے لئے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے‘‘ ۔ صدر محمد ایوب خان نے ( اُن دِنوں ) سوویت یونین کے وزیراعظم۔"AlexeiKosygin" کی ثالثی میں 10 جنوری 1966ء کو بھارتی وزیراعظم بہادر شاستری سے ملاقات کی۔ ’’اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کئے۔ اُسی وقت وزیر خارجہ بھٹو کی بھی موجود تھے ۔ بھٹو صاحب نے پہلے تو ’’ اعلانِ تاشقند‘‘ کی حمایت کی لیکن ، جب جون 1966ء کو حکومت سے الگ ہوگئے تو اُنہوں نے یہ رٹ لگائی کہ ’’ تاشقند میں کیا ہُوا، وہ راز مَیں بہت جلد قوم کو بتائوں گا ‘‘ لیکن، اُنہوں نے زندگی بھر قوم کو یہ نہیں بتایا کہ ’’ تاشقند کا راز کیا تھا؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ گیدڑ کو ’’گوسفند‘‘ کہتے ہیں ۔ عوامی شاعر ( مرحوم) حبیب جالب ؔنے صدر ایوب خان کی طرف سے کہا تھا کہ … اعلانِ تاشقند کئے جا رہا ہُوں مَیں! جو بولتا ہے ، بند کئے جا رہا ہُوں مَیں! …O… گو حل نہیں ہے ، اِس میں کوئی کاشمیر کا! لیکن، اِسے پسند ، کئے جا رہا ہُوں مَیں! جناب ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971ء سے 4 جولائی 1977ء تک اقتدار میں رہے لیکن، اُنہوں نے کشمیریوں کی آزادی کے لئے کچھ نہیں کِیا؟۔ نہ ہی دو بار اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دَوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے ۔ ’’دامادِ بھٹو‘‘ آصف زرداری نے تو 8 ستمبر 2008ء کو صدارت کا منصب سنبھالتے ہی خود کلامی کرتے ہُوئے (پوری قوم سے کہا تھا ) کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں؟۔ صدر زرداری نے اپنے اِس مشن کو پورا کرنے کے لئے فضل اُلرحمن صاحب کو ’’چیئرمین کشمیر کمیٹی‘‘ مقرر کردِیا۔ میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو ، اُنہوں نے بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی سے یاری گانٹھ لی۔ اُنہوں نے بھی فضل اُلرحمن صاحب کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھا۔ اُن کے نااہل ہونے کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ۔معزز قارئین!۔ 5 فروری 2016ء کو الیکٹرانک میڈیا پر دِکھایا اور 6 فروری کو شائع کِیا گیا کہ ’’ کشمیری وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنی پوتیوں کے ساتھ ( کشمیری لباس پہن کر ) ’’ یوم یک جہتی کشمیر‘‘ منایالیکن، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر یہ نہیں دِکھایا ، سُنایا یا یاشائع کِیا گیا تھا کہ ’’ خادمِ اعلیٰ پنجاب کے پوتے اُس وقت کہاں تھے؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ انتخابی نشان شیرؔ والی مسلم لیگ (ن) کے کشمیری وزیراعظم کے دَور میں ۔5 فروری 2014ء کو بھی یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا تھا جب میرے کالم میں علاّمہ اقبالؒ کے مصرعہ … قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند! …O… کی برکت سے ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے تین مصرعوں کی یہ صورت تھی… شیروں کی طرح چار سُو، پھرتے ہیں گُو سفند ! اب نوجوان ڈالیں ، ستاروں پہ کیا کمند؟ …O… ہوتا ہے ہر مہینے ہی ، اعلانِ تاشقند! ’’قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!‘‘ فضل اُلرحمن صاحب اپنے طور پر مسئلہ کشمیر کو ’’ منجمند‘‘ کئے ہُوئے ہیں ۔مَیں اُنہیں ’’ منجمد خان‘‘ کا خطاب دینے کی گُستاخی تو نہیں کرسکتا؟ لیکن، فارسی زبان کی ضرب اُلمِثل کے مطابق ’’ زمیں جُنبد، نہ جُنبدگل محمد ‘‘ ( یعنی۔ زمین اپنی جگہ سے ہل کر اپنا مقام چھوڑ سکتی ہے لیکن، گُل محمد ( خان ) نہیں ہل سکتا‘‘ )۔اُستاد شاعر حضرت داغؔ دہلوی نے بھی تو اپنے بارے میں کہا تھا کہ … حضرت داغ ، جہاں بیٹھ گئے ، بیٹھ گئے! معزز قارئین!۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دِلوانے کے لئے جو کچھ کرنا ہے ، وزیراعظم عمران ، پاک فوج اور اہل پاکستان ہی کو کرنا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ آج جہاں جہاں کشمیریوں سے یک جہتی کے لئے جلوسوں اور جلسوں کا اہتمام ہوگا وہاں یہ معروف ملی نغمہ ضرور گایا جائے گا کہ … … ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے ، اِک دِن! میرے وطن، تیری جنت میں آئیں گے اِک دِن! آج ہر پاکستانی سیاستدان کا امتحان ہے ۔ ’’یوم سیاہ ‘‘ میں کشمیریوں سے وفائوں کا ثبوت دینا ہوگا ۔ جو سیاستدان پاکستان سے وفا داری کا دم بھرتا ہے ، اُسے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی سے بھی وفاداری کا ثبوت دینا ہوگا‘‘۔ممکن ہے آج کوئی کشمیری ، سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی کو بذریعہ ڈاک یا فون یہ سوال پوچھ لے کہ … وفائوں کے بدلے ، جفا کرّ رِیا ہے ؟ مَیں کیا کر رہا ہُوں ، تُو کیا کرّ رِیا ہے؟