عید آئی اور گزر گئی۔لگتا ہے کہ اب عید الفطر ملنے جلنے ،کھانے پینے،اور سونے جاگنے کا نام ہے ۔یہی تین کام ان تین دنوں میں بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ملک میں 2018ء کے انتخابات اور ورلڈ کپ فٹ بال گرم موضوعات ہیں جن پر گرما گرم گفتگو ہوتی رہی۔دونوں میں آخری سوال یہ کہ آخر جیتے گا کون۔جتنے منہ اتنے جواب۔جتنی وابستگی اتنا زور شور۔ ان دونوںسوالوں کے جواب میں تو کچھ دن باقی ہیں۔لیکن اس گرما گرمی میں ایک اور دل چسپ معرکہ بھی زوروں پر ہے۔آج اتوار 24 جون کے دن جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں ،ترکی کے عوام اپنے پسندیدہ صدر اور اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ترکی ان ممالک میں ہے جن کے انتخاب سے پاکستانیوں کو دلچسپی ہوتی ہے، خواہ وہ دلچسپی کسی نوعیت کی ہو۔آخر میں یہ سب دلچسپیاںترکی اور ترکوں سے صدیوں پر پھیلی دلی محبت کے جھنڈے تلے جمع ہوجاتی ہیں۔مشرق وسطیٰ کی شعلہ بار صورت حال کے تحت انتخاب کے دور رس نتائج نے یہ دلچسپی اور بڑھا دی ہے لیکن اس بات سے پہلے یہ سوال کہ انتخابات اس وقت کیوں ہورہے ہیں یہ انتخابات دراصل3 نومبر2019 ء کو ہونے تھے لیکن صدر اردوان نے اپریل میں قبل از وقت انتخاب کرانے کا اعلان کیا تھا۔اردوان نے کہا کہ عالمی خراب صورت حال، شام اور عراق میں ترکی کی فوجی مہم جوئیوں اور عالمی صورت حال کے پیش نظر غیر یقینی صورت حال سے نکلنا بہت ضروری ہے ۔ مخالفوں کا خیال ہے کہ یہ وقت اس لیے چنا گیا کیوں کہ ترکی لیرا اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔معاشی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے اور یہ صورت حال آگے چل کر مزید بگڑے گی چنانچہ آئندہ غیر مقبولیت سے بچنے کے لیے یہ انتخابات جلد کرائے جارہے ہیں۔نیز ترکی اورشام کی سرحد پر ترک فوج نے کرد ملیشیا کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس سے بھی فائدہ اٹھا کر ایک قومی جذباتی تحریک پیدا کرنے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 2016 ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ناٖفذ کی جانے والی ایمرجنسی ہنوز نافذ ہے اور انتخاب اسی کے سائے تلے ہوں گے۔ اس انتخاب کی اہمیت مسلمہ ہے۔جدید ترکی کی تاریخ میں یہ اہم ترین انتخابات ہیں۔نیا صدر ایک ایسی کرسی پر بیٹھے گا جس پر طاقت مرتکز ہے۔صدر کو یہ غیر معمولی اختیارات پچھلے سال ایک دستوری ریفرنڈم کے ذریعے ملے ہیں۔اس ریفرنڈم میں اگرچہ معمولی اکثریت سے حکمران جماعت نے ریفرنڈم جیتا تھا لیکن کامیابی بہرحال کامیابی ہے۔ ان اختیارات میں صدر کو نائب صدر ،سینئر عدالتوں کے سینئر ججوں کی نامزدگی کے اختیار، نیز ضرورت پڑنے پر پولیس اور فوج کی طاقت استعمال کرنے کے اختیار بھی شامل ہیں۔طیب اردوان سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں ضروری ہیں جبکہ ان کے مخالفین کو تشویش ہے کہ اس طرح اردوان تمام طاقت اپنی ذات میں اکٹھی کرنا چاہتے ہیں۔ صدارتی امیدواروں میں ظاہر ہے 64سالہ طیب اردوان تو موجود ہی ہیں۔وہ تا حال ترکی کے مقبول ترین قائد ہیں۔اور ان کی جیت کے غالب امکانات بھی موجود ہیں۔لیکن مخالف اتحاد اور کامیاب کارکردگی نے انہیں ایک سخت مقابلے سے دوچار کر رکھا ہے جس میں یہ قوی امکان پیدا ہوچلا ہے کہ صدارتی انتخاب ممکنہ طور پر منعقد ہونے والے دوسرے مرحلے کی طرف چلے جائیں گے۔ محرم انجے فزکس کے استاد ہیں لیکن ان کی شخصیت میں ایک کشش موجود ہے جس نے انہیں صدارتی امیدوار کے طور پر لا کھڑا کیا ہے۔وہ اپوزیشن اتحاد ری پبلکن پیپلز پارٹی(CHP)کے نامزد امیدوار ہیں۔ میرال اکسینرنامی خاتون نیشنل آئی وائے آئی IYI) )پارٹی کی سربراہ ہیں اور نوجوانوں اور متوسط کلاس میں مقبول ہیں۔تیمال کرامولاغلو اسلامی فیلیسٹی پارٹی کے رہنما ہیں جو اگرچہ نظریاتی ہم آہنگ جماعت ہے تاہم وہ اردوان کے سخت ناقد ہیں۔پھر صلاح الدین دمرتاس ہیں جو کرد مسئلے کو لے کر اٹھنے والی بائیں بازو کی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (HDP) کے کرشماتی رہنما ہیںوہ اس وقت جیل میں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ایک اور قانون دان دوغو پیرنجیک وطن پارٹی کی طرف سے امیدوار ہیں۔ کامیاب امیدوار کے لیے 50 فیصد سے زائدووٹ لینے ضروری ہیں ۔پہلے مرحلے میں ایسا نہ ہوسکے تو صدارتی انتخاب اگلے مرحلے یعنی 8جولائی 2018 ء کی طرف بڑھ جائے گا جس میں زیادہ ووٹ لینے والے امیدواروں کے درمیان حتمی مقابلہ ہوگا۔واضح رہے کہ اگست 2014 ء میں اردوان51.23 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ پارلیمنٹ کے انتخاب کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ طیب اردوان کی پارٹی اے کے پی) (AKP)قوم پرست جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ میدان میں ہے۔ان کے مخالف ایک مختلف الخیال جماعتوں کا اتحاد ہے جس میں سی ایچ پی(CHP)کی سیکولر جماعت، قوم پرستوں کی آئی وائے آئی پارٹی اور اسلام پسندوں کی اسلامی فیلیسٹی پارٹی موجود ہے۔اس طرح برسوں سے متحارب قوتیں اس انتخاب کی وجہ سے یہ اتحاد بنانے پر مجبور ہوگئی ہیں۔اس کے علاوہ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (HDP) تن تنہا اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ترکی کے آئین کے تحت پارلیمنٹ میں داخلے کے لیے ہر جماعت کو کم از کم 10 فیصد ووٹ حاصل کرنے ضروری ہیں۔یہ صورت حال بڑی پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ہے لیکن حال ہی میں انتخابی اتحاد بنانے کی آئینی اجازت سے چھوٹی پارٹیوں کو بھی چند نشستوں کا فائدہ ہوجائے گا۔ ہر پھر کر وہی سوال آکھڑا ہوتا ہے کہ آخر ہوگا کیا ؟جیتے گا کون؟ جب اچانک انتخابات کا اعلان کیا گیاتھا تو لگتا تھا کہ مخالف جماعتیں مقابلہ نہیں کرسکیں گی اور اے کے پارٹی اکثریت سے جیت جائے گی لیکن یہ واضح ہوتا گیا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔طیب اردوان بلا شبہ اس وقت بھی ترکی کے مقبول ترین رہنما ہیں لیکن مخالف اتحاد بھی بڑی طاقت رکھتا ہے ۔پھر ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ مغربی میڈیا مکمل طور پر اردوان مخالف ہے اور وہ محرم انجے کو خاص طور پر بڑھا کر پیش کر رہا ہے۔اس مخالفت کو دیکھنا ہو تو حالیہ دنوں کے بڑے مغربی اخبارات دیکھے جاسکتے ہیں ۔لگ یہ رہا ہے کہ اردوان صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر50 فیصد ووٹ کی شرط پوری نہیں ہوگی۔اس طرح صدارتی انتخاب اگلے مرحلے میں جائے گا یعنی اوپر کے امیدواروں کے درمیان ہوگا۔اردوان،انجے اور ایکسینر کے درمیان فوقیت پھر اردوان ہی کو حاصل ہوگی۔ وقت کے ساتھ یہ امکان بھی بڑھ رہا ہے کہ اردوان صدارتی انتخابات جیت جائیں مگر پارلیمنٹ میں اکثریت کھو بیٹھیں۔اگر مخالف اتحاد بہتر کارکردگی دکھاتا ہے اور ایچ ڈی پی 10% سے زائد ووٹ حاصل کرلیتی ہے تو اے کے پی کی حاکمیت پارلیمنٹ میں ختم ہوجائے گی۔اس صورت میں صدر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پارلیمنٹ تحلیل کردے اور بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اردوان اس صورت میں ایسا ہی کریں گے۔لیکن یہ صورت حال ترکی کو بے یقینی سے نکالنے کے بجائے جس کے تحت جلد انتخابات کرائے جارہے ہیں ،مزید بے یقینی کی طرف لے جائے گی۔ اس انتخاب میں طیب اردوان کے پاس کئی نعرے ہیں۔ایک تو ان کے پاس کارکردگی کا غیر معمولی ریکارڈ ہے ۔ ایک نیا نعرہ استنبول کنال کا ہے ۔ یہ بہت بڑا مجوزہ پراجیکٹ استنبول کے مضافات سے نکلنے والی ایک بڑی نہر اور جہازوں کے لیے آبی گزرگاہ کا ہے جوبحر مرمرا کو بحر اسود سے ملائے گی۔ اور اس راستے میں بہت سے نئے منصوبوں کا آغاز ہوگا ۔ اردوان کا دعوی ٰ ہے کہ پانامہ نہر اور سویز نہر کی طرح کا یہ منصوبہ ترکی کی تقدیر بدل دے گا۔اردوان نے بہت کچھ ترکی کو بدلا بھی ہے لیکن آگے کیا ہے ۔ کہنا مشکل ہے ۔ دعا تو یہی ہے کہ کسی طرح ترک اپنی عظمت رفتہ حاصل کرلیں۔ کہ روح ِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی