اپنے جرنلز م کے کیریئر کے دوران میں نے تین شدید زلزلوں کی تباہ کاریاں رپورٹ کی ہیں۔ 1993میں بھارت کے مغربی صوبہ مہاراشٹر کے لاٹور میں ، 2001میں گجرات کے بھج اور پھر 2005میں کشمیر میں زلزلہ سے آئی تباہ کاریوں کو کور کیا ہے۔ یہ زلزلے ایک یا دو ضلعوں تک ہی محدود تھے، گو کہ جانی ومالی نقصان ان میں بھی بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ مگر ترکیہ کے جنوب مشرق میں شام کی سرحد پر 6فروری کو آئے زلزلے نے ملک کے دس صوبوں میں قہر مچا دیا ہے۔ تقریبا ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ اس کی زد میں آگیا ہے۔ دس صوبوں، قہرمان مارش، حاتائی، عثمانیہ، غازی ان تپ، شانلی عرفہ، دیاربکر، مالاتیہ، کیلس، آدانا اور آدیمان کی 12ملین کی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ اس متاثرہ علاقے کے ایک سرے یعنی آدانا سے دوسرے سرے یعنی دیار بکر یا مالاتیہ تک 700کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ علاقہ تباہی اور بربادی کی ایک داستان بیان کر رہا ہے۔ تقریباً چالیس ہزار افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ اتنے بڑے علاقے میں بچاو و راحت کیلئے حکومتی اور رضاکاروں کی ایک بڑی فوج درکار ہے۔ ترکی کے ان صوبوں کے علاوہ سرحد کی دوسری طرف شام کے پانچ صوبے لاتیکا، ادلیب، رقہ اور ال حکہ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ تین سال قبل جب میں نے ترکیہ کی قومی و گلوبل نیو ز ایجنسی انادولو دارالحکومت انقرہ میں جوائین کی ، تو مجھے بتایا گیا کہ ترکیہ میں زلزے آنا تو عام سی بات ہے اور اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلڈنگوں کے ڈیزائن و تعمیر ایسی ہے کہ یہ ہلتی تو ہیں، مگر گرنے کا احتمال کم ہے۔ ترکیہ دوٹیکٹونک پلیٹوں کے بیچ میں واقع ہے اور یہ پلیٹیں ایک دوسرے کو ٹکریں مارتی رہتی ہیں۔ ہمارے دفتر میں کئی ترک ساتھیوں کو اپنے اہل خانہ یا والدین کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ خبر آئی کہ حاتائی صوبہ میں انادولو کے ایک رپورٹر براق ملی اپنی اہلیہ اور بچی سمیت زلزلہ کی زد میں آکر ہلاک ہو گئے ہیں۔ سنیچر کو ملبہ سے ان کی لاشیں نکالی گئیں۔ شانلی عرفہ کے سرحدی سوروج قصبہ میں مقامی صحافی آیان گلدووان مجھے بتا رہے تھے کہ جب وہ زلز لے کے جھٹکے سے بیدار ہوئے تو ان کو پہلے لگا کہ ترکیہ نے شاید شام میں امریکہ کے حلیف کرد باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیاہے اور بمباری ہو رہی ہے۔ وہ پچھلے چند ماہ سے اس آپریشن کو کور کرنے کا انتظا ر کر رہے تھے۔ زلزلہ بھی مقامی وقت کے مطابق 4بجکر 17منٹ پر آیااور باہر برف باری بھی ہو رہی تھی۔ آج کل تو فجر کی آذا ن ہی 6بجکر 45منٹ پر ہوتی ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ جان بچانے کیلئے وہ بلڈنگ سے باہر نکلے۔ دور سے ان کو تاریخی عرفہ شہر سے گرد و غبار آسمان تک بلند ہوتے ہوئے دکھا ئی دیا۔زمین کی تھرتھراہٹ جو 65سیکنڈ تک جاری تھی اب بند ہوگئی اور پندرہ منٹ کے بعد وہ برف باری اور منجمد کرتی سردی سے بچنے کیلئے اپنی بلڈنگ کی طرف جانے لگے۔ اسی دوران ایک اور زلزلہ آگیا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے اس بلڈنگ کو گرتے دیکھا ، جس میں ان کا فلیٹ تھا۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بے گھر ہو چکے تھے۔ پڑوسی متمول صوبہ غازی ان تپ، جس کے دارالحکومت کا نام بھی غازی ان تپ ہے، کے نواح میں ایک پہاڑی پر نیوز اینکر اوکتے یالچن کا فلیٹ تھا۔ ان کی بلڈنگ بھی زلزلے کے دوسرے جھٹکے سے گر گئی۔ اس پہاڑی سے وہ شہر پر آئی قیامت کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ ان کا کہناہے کہ جیسے کوئی نیوکلیئر بم گرادیا گیا تھا۔ بعدمیں ماہرین نے بتایا کہ اس زلزلہ کی شدت 500میگاٹن ایٹم بم جتنی تھی۔ جاپان کے ہیروشیما شہر پر جو جوہری بم گرا تھا اس کی طاقت بس 15کلوٹن تھی۔ زلزلہ تھمنے کے بعد وہ شہر کے مرکز کی طرف روانہ ہوگئے تو دیکھا کہ شاپنگ مال، کلب اور ریسٹورنٹ ، جہاں کل رات تک لوگ چمکتی ہوئی بھڑکیلی روشنیوں کے جلو میں ویک اینڈ جشن منا رہے تھے، زمین بوس ہو چکے تھے۔ قہر مان مار ش صوبہ کے دو قصبے پزارجک اور البستان کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ زلزلہ کا مرکز یہیں تھا۔ اس کالم کے تحریر کرنے تک 700کے قریب آفٹر شاک آچکے ہیں۔ حاتائی میں ہی انادولو کے ایک اور رپورٹر مکان کے گرنے سے اپنی فیملی کے ساتھ زندہ ہی دفن ہو گئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہر طرف اندھیر ا تھا اورلگتا تھا کہ وہ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چند گھنٹوں کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ زلزلہ کے مزید جھٹکوں نے دیوار میں شگاف کیا ہوا تھا اور اس میں روشنی نظر آرہی تھی۔ انہوں نے کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد کسی آلہ سے اس سوراخ کو بڑا کیا۔ ان کو خود یاد نہیں آرہا ہے کہ و ہ آلہ کیا تھا اور کیسے ان کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ سوراخ تھوڑا بڑا ہوگیا تو پہلے انہوںنے اپنے بچوں کو باہر نکالا اور پھر اپنے والدین ، خود اور ان کی اہلیہ باہر آگئیں۔ وہ دو دن تک خون جمانے والی سردی اور بارش میں بغیر جوتو ں کے نائٹ سوٹ پہنے سڑک پر کسی ریسکیو ٹیم کا انتظار کر رہے تھے۔ بحیرہ روم کے ساحل پر حاتائی صوبہ کی اسکندرون بندرگاہ تو آگ کی نذر ہو گئی ۔ یہاں ترکیہ کی بحریہ کا ایک سٹیشن بھی ہے۔ زلزلہ سے کئی کنٹینر الٹ گئے اور آگ بھڑک اٹھی۔ کئی روز کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ پڑوس میں آدانا صوبہ میں انجیرلک کے مقام پر نیٹو اور امریکی فوج کی فارورڈ بیس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مگر اس کے ائیر پورٹ کو ٹھیک کرکے بھارتی طیاروں کے اترنے کے قابل بنایا گیا ہے۔ (جاری ہے)