غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ترکی میں گرفتار ہونے والے 1600پاکستانیوں نے متوقع وزیر اعظم عمران خان اور وزارت خارجہ سے رہائی میں مدد دینے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والوں کے ساتھ حادثات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں پاکستان سے 6767افراد غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہوئے جبکہ یورپ پہنچنے میں ناکام ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین قانون پاکستان میں انسانی سمگلنگ میں اضافہ کی وجہ 1979ء کے امیگریشن ایکٹ کو قرار دیتے ہیں جو انسانی سمگلنگ کو روکنے یا اس جرم کے مرتکب افراد کو سزا کے حوالے سے کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ اس جرم میں ملوث ملزمان قید اور جرمانے کی شقوں کی بھی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ یہ قانونی موشگافیاں ہی ہیں کہ جب ایران ،ترکی یا یونان کی سرحد پر پاکستانیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات آنے کے بعد ایف آئی اے متحرک ہو تی ہے اور چند ہی دنوں میں درجنوں افراد کو گرفتار کرنے کادعویٰ توکیا جاتا ہے مگر کچھ ہی دنوں بعد بات آئی گئی ہو جاتی ہے، میڈیا کے شور کی گرد بیٹھتے ہی ملزمان خاموشی سے ضمانت یا رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کمزور قوانین کی وجہ سے ملزمان رہائی کے بعد پھر اسی مکروہ فعل میں جت جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چند پاکستانی نوجوانوں پر گھر والوں سے رقم منگوانے پر مجبور کرنے کے لیے تشدد کر تے دکھایا گیا تھا۔ اب ایک بار پھر ایسی ہی ایک ویڈیو میں ترکی میں قید16 سوپاکستانیوں نے حکومت سے رہائی کے لیے مدد کی اپیل کی ہے۔ بہتر ہو گا حکومت ان بے بس قیدیوں کی رہائی کے لیے فوری انتظامات کرنے کے ساتھ ان افراد کو ترکی لے جانے والے انسانی سمگلروں کو نشان عبرت بنانے کے لیے بھی موثر قانون سازی کرے تا کہ نوجوانوں کو بہکا کر موت کے منہ میں دھکیلنے والوں کو نشان عبرت بنایا جاسکے۔