غالباً آٹھ نو ماہ پہلے اس کالم میں لکھا گیا تھا کہ امریکہ شام میں کرد علاقے سے جانے کا سوچ رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ترک فوج اس علاقے میں گھس آئے گی اور اب جبکہ امریکی دستے کرد علاقے سے نکلے‘ ترک فوج داخل ہو گئی اور دو تین روز کی فوجی کارروائی کے بعد اس نے اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ پوری لمبائی میں 30کلو میٹر چوڑی پٹی پر قبضہ کر لیا ہے‘ ترکی کا اعلان تو یہ ہے کہ وہ اس علاقے میں ان 35,30لاکھ شامی باشندوں کو بسائے گا جو چھ سات سال کی خانہ جنگی کے نتیجے میں بے وطن ہو کر ترکی میں مہاجر بن کر رہ رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ کرد علاقے اور اپنی سرحد کے درمیان ایک ہائی سکیورٹی بفرزون بنانا چاہتا ہے۔ جنوب مشرقی ترکی میں طویل عرصے تک کرد بغاوت رہی ہے اور ترکی کو یقین ہے کہ شام کی آزاد کرد ریاست مستحکم ہو گئی تو وہ کرد علیحدگی کی تحریک کی مددگار ہو گا۔ ترکی چاہتا تو شامی کردوں سے دوستی کر کے حالات کو اپنے حق میں کر سکتا تھا لیکن اس نے فوجی آپشن کو بہتر سمجھا۔ ترکی اس پٹی پر اپنا قبضہ مستحکم کر سکتا ہے لیکن کرد مزاحمت جاری رہے گی‘ یوں شام میں خون بہنے کو ایک محاذ اور کھل گیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ نظر آتا تھا کہ شام کے شمال مشرقی علاقے میں کرد ریاست کا تحفظ امریکہ کی پہلی ترجیح ہے۔ یہ ریاست بننی بھی امریکہ کی مدد سے تھی اور امریکہ نے اسے لاحق خطرے داعش پر شدید بمباری کر کے کردوں کے علاقے سے پسپا بھی کیا تھا۔ یہ علاقہ خانہ جنگی کے ابتدائی برسوں ہی سے آزاد ریاست بن گیا تھا۔ شام کے کل رقبے کا یہ ایک تہائی ہے۔ امریکہ نے ترکی کو ٹریپ کیا یا واقعی وہ کرد ریاست کی سرپرستی ختم کر چکا ہے۔ ابھی واضح اور یقینی بات نہیں کی جا سکتی۔ فی الحال امریکہ نے ترکی پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے لیکن جتنے علاقے پر ترکی قبضہ کرنا چاہتا تھا‘ اس نے حاصل کر لیا ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں‘ ترکی کے اقدام سے سعودی عرب بھی سخت ناراض ہے۔ سعودی عرب پہلے شام میں عوامی تحریک کا حامی تھا لیکن اب اس کی بشار الاسد سے صلح ہو گئی ہے کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں وہ سمجھتا ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمہ سے علاقے میں ترکی کا اثرو نفوذ بڑھ جائے گا۔ اس وقت ایک خطرہ پھر سے ابھر رہا ہے۔ وہ ہے داعش جسے امریکہ اور روس کی بمباری نے تباہ کر دیا تھا لیکن چند مہینوں سے اس کی سرگرمیاں پھر سے بڑھ گئی ہیں۔ ایک طرف وہ کرد علاقے میں کارروائیاں کر رہی ہے۔ دوسری طرف شامی حکومت پر بھی حملے کر رہی ہے۔ دیرالزور‘ الرقہ اورحمص کے درمیان صحرا میں اس کے اڈے موجود ہیں۔ شامی حکومت کا خیال ہے کہ اس کے ایک ہزار چھاپہ مار اس علاقے میں سرگرم ہیں۔ دیگر ذرائع یہ تعداد دس ہزار سے تیس ہزار تک بتاتے ہیں۔ داعش کے قبضے میں صحرا کے اندر کئی سو مربع کلو میٹر کا رقبہ ہے لیکن یہ بے آباد اور بنجر پہاڑی صحرا ہے۔ ترکی نے جس پٹی پر قبضہ کیا ہے‘ اس کے مغرب میں عفرین کا علاقہ پہلے ہی اس نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے جس کی سرحد لطانیہ سے ملتی ہے۔ یوں شام کی پوری شمالی سرحد پر جو عراق سے بحرہ روم کے کنارے سے ذرا پہلے تک پھیلی ہوئی ہے، ترکی نے ایک مناسب چوڑائی والا بفرزون قائم کر لیا ہے اور لگتا نہیں ہے کہ حتمی تصفیے تک وہ یہ قبضہ چھوڑے گا اور حتمی تصفیے کا ابھی کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ شامی حکومت کے قبضے میں ایک تہائی رقبہ ہے۔ ایک تہائی البتہ اس کے علاوہ ایسے صحرائی اور پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے جس پر کسی کا قبضہ نہیں۔شام کے اکثر اہم شہر اسی ایک تہائی رقبے میں ہیں۔ جس پر بشار کا قبضہ ہے۔ ان میں دمشق‘ حمص‘ حما‘ لطاکیہ‘ الیپو اور طرطوس شامل ہیں۔ آزادی پسندوں کے قبضے میں ادلیب کا صوبہ اور کچھ ملحقہ علاقے ہیں۔ کردوں کے پاس الرقہ‘ حساکہ اور چند دیگر اہم شہر ہیں۔ شمالی حکومت کو اس پر بھی پریشان ہے کہ جنوبی سرحد کو اس نے سال بھر پہلے باغیوں سے مکمل طور پر چھین لیا تھا لیکن وہاں بھی اب تواتر سے حملے ہو رہے ہیں۔ اس علاقے کا اہم ترین شہر درہ ہے اور یہ وہی شہر ہے جہاں آج سے 9سال پہلے آزادی کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ یہاں ایک وسیع رقبہ حریت پسندوں نے شامی حکومت سے چھین لیا تھا۔ یہاں بے پناہ قتل و غارت گری ہوئی اور شامی فضائیہ نے کارپٹ بمباری کر کے ایک لاکھ سے زیادہ شہری مار دیے تھے۔ پورا علاقہ اب کھنڈرات کی تصویر ہے۔ شام کی اس جنگ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جن میں ایک لاکھ شامی فوجی۔ ایک لاکھ حریت پسند‘ داعش کے تیس ہزار سے زیادہ جنگجو اور باقی عام شہری شامل ہیں۔ دس لاکھ سے کہیں زیادہ زخمی اور ملک کی آدھی آبادی مہاجر ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ مہاجر ترکی گئے۔ کچھ لبنان اور اردن نیز یورپ اور پچیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے ادلب کے صوبے میں پناہ لی جسے ترکی کا جزوی تحفظ حاصل ہے۔ سعودی عرب تو مکمل طور پر بغاوت کی تحریک سے لاتعلق ہو چکا جبکہ ترکی بشار حکومت کا اب بھی مخالف ہے لیکن تحریک آزادی کی مدد اس نے بھی ختم کر دی ہے۔ وہ صرف عفرین اور ادلب کے علاقے میں اپنی حامی تحریکوں کی مدد کر رہا ہے۔ باقی علاقے میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ اس لئے بغاوت کی تحریک بھی انہی علاقوں تک محدود ہے لیکن داعش کے علاوہ القاعدہ کے چھاپہ مار پھر سے باقی ملک میں بالخصوص لطاکیہ اور حمص میں سرگرم ہو رہے ہیں۔ شام میں خونریزی تھمنے میں نہیں آ رہی اور اب یہ ایک نیا مستقل تنازعہ چھڑ گیا ہے جس کے نتیجے میں دو لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے۔