اگلے ہفتہ پاکستان کے قریبی دوست ملک ترکی کے صدر طیب اردوان پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔اُنکی آمد اِس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ صرف ترکی اور ملائشیا ایسے دومسلمان ملک ہیں جنہوں نے سفارتی سطح پر بھارت کے زیر تسلط کشمیریوں کے حقوق کے لیے دلیری سے آواز بلند کی۔صدر اردوان نے کشمیر کے تنازعہ پر کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جارحانہ اقدامات کی مذمت کی۔عالمِ اسلام کے بیشتر مسائل پر ترکی نے بہادری کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے۔برما کے روہنگیا مسلمانوں کے معاملہ پر بھی ترکی نے ان مظلوموں کی عملی مدد کی۔ صدر طیب اردوان کی قیادت میںترکی کاعالم اسلام خصوصاً مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقہ کی علاقائی سیاست میں کردار بڑھتا جارہا ہے۔ترکی کی ایک بڑی طاقت اس کے پاس دستیاب وافر پانی ہے۔ دو بڑے دریا فرات اور دجلہ ترکی کے پہاڑی علاقوں میں جنم لیتے ہیں۔ فرات کا نوّے فیصد پانی اور دجلہ کا تقریباًنصف پانی ترکی استعمال کرتا ہے۔ پھر یہ دریا عراق اور شام میں داخل ہوتے ہیں۔ ترکی نے ان دریاؤں پر سینکڑوں ڈیم تعمیر کیے ہوئے ہیں۔ ترکی میں ہمسایہ عرب ملکوں کی نسبت اوسط فی کس دس گنا زیادہ پانی دستیاب ہے۔یہ عرب ملک پانی کے لیے ترکی کے محتاج ہیں۔جوں جوں ان کی آبادی بڑھ رہی ہے ان کی پانی کی ضروریات بڑھ رہی ہیں ‘ انہیں ترکی سے زیادہ مقدار میں پانی درکار ہے۔ ترکی کے جنوب میں واقع شام نو برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس ہمسایہ عرب ملک کی خانہ جنگی کے اثرات سب سے زیادہ ترکی پر پڑے ہیں جہاں چھتیس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزین ہیں۔ آجکل شام کے شمال مغرب میںواقع اِدلب صوبہ میںاسد حکومت کی فوجوں اور اس کے مخالفین کے درمیان جنگ ہورہی ہے۔یہ واحدصوبہ ہے جوصدر بشارالاسدکے قبضہ سے باہر تھا۔تازہ لڑائی میں ایک لاکھ شامی اِدلب سے نکل کر ترکی میں پناہ کے لیے داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ ترکی کی کوشش ہے کہ شامی فوجیں اِدلب میں حملے کرکے ایسا بحران نہ پیدا کریں کہ مزید لاکھوں شامی مہاجرین ترکی کا رُخ کرلیں۔تاہم معاملہ ابھی تک سلجھتا نظر نہیں آرہاحالانکہ بشارالاسد کا حامی اور مددگار ملک رُوس بھی دمشق اوراستنبول کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ سب سے اہم‘امریکہ شام کے شمال مشرق میں کردوں کے خود مختار علاقہ کی حمایت کرتا آیا ہے۔کرد دو ہزار بارہ سے اس علاقہ میں اپنی حکومت بناکر بیٹھے ہوئے تھے۔ ترکی میںبھی ڈیڑھ کروڑکُرد آباد ہیں جو کئی عشروں سے علیحدگی کی تحریک چلارہے ہیں۔ استنبول سمجھتا ہے کہ اگرترکی کی سرحد سے متصل شام میں کردخود مختار ہونگے تو ترکی میں اُنکی تحریک کو تقویت ملے گی۔ دو برس پہلے روس نے شام میں اپنی فضائی حدود کھول کر ترکی کی مدد کی کہ وہ شام کے افرین صوبہ کوکردوں کے قبضہ سے چھڑوا سکے۔دو ماہ پہلے بالآخر امریکہ کوبھی استنبول کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ترک فوجوں کو شام کے کرد علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت دینا پڑی۔ لیبیابھی خانہ جنگی کا شکار ہے جو ترکی کے جنوب میں بحیرۂ روم کے پارواقع ہے۔ وہاں صدر اردوان کی حکومت طرابلس کی محصور حکومت کا ساتھ دے رہی ہے حالانکہ اس ملک کا دو تہائی سے زیادہ علاقہ باغی جنرل ہفتر کے قبضہ میں ہے جن کی مدد سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ روس اور یورپی ممالک کررہے ہیں۔ ترکی طرابلس کی حکومت کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھی بھیجنے کو تیار ہے۔ لیبیا شمالی افریقہ اور مشرقی بحیرۂ رُوم کا اہم ملک ہے۔ اس علاقہ سے تیل اور گیس کی رسد اوریورپ کی بحری تجارت کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔روس لیبیا کی بندرگاہوں پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے جبکہ ترکی بھی لیبیا کی کم سے کم ایک اہم بندرگاہ یعنی طرابلس کو اپنے زیراثر رکھنا چاہتا ہے۔ لیبیا کی حد تک ترکی اور بعض عرب ممالک ایک دوسرے کے مدّمقابل ہیں۔جب کسی ملک میں قوم پرستی کا جذبہ ہو‘ قوم دولت مند ہو‘ اسکے پاس عسکری قوت اور خود اعتمادی ہو تب ہی ایسی علاقائی سیاست کھیلی جاسکتی ہے جس کا مظاہرہ ترکی اس وقت لیبیا ‘ شام اور دیگر معاملات میںکررہا ہے۔ دونوں ملکوںکی خانہ جنگی میںاس کے مقابلہ میں روس ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی کے روس سے بھی گہرے معاشی تعلقات ہیں ۔ حالیہ برسوں میں ترکی نے روس کے ساتھ تعلقات میں مزید گہرائی پیدا کی ہے حالانکہ وہ روس کے خلاف یورپ کے فوجی اتحاد نیٹو کا اہم رکن ملک ہے۔ ترکی اور روس دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کی سینکڑوں کمپنیاں کاروبار اور سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ روس نے حال ہی میں ترکی تک اپنی قدرتی گیس پہنچانے کے لیے ایک پائپ لائن بچھائی ہے جسے ترک اسٹریم کہا جاتا ہے جو بحرِ اسود سے گزر کر ترکی پہنچتی ہے ۔ امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجودترکی نے روس سے جنگی جہاز شکن جدید میزائیل نظام ایس 400 بھی خریدا ہے ۔ امریکہ نے ناراض ہوکر ترکی کو جدید ترین جنگی طیارہ ایف35 بیچنے کا معاہدہ منسوخ کردیا لیکن طیب اردوان اپنے فیصلہ پر ڈٹے رہے۔ استنبول کی نڈر خود مختارانہ خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ایک بار پھر ترکی کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ترکی اور روس مزید قریب آجائیں اورمشرقِ وسطیٰ میںامریکی مفادات کو نقصان پہنچے۔پہلے تو امریکہ نے کردوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچا۔پھر حال ہی میں ایک امریکی عدالت نے ایک سرکاری ترک بنک کے خلاف کاروائی کو روک دیا جسے اس بات کی علامت سمجھا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ استنبول کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک صدی پہلے یورپ نے پہلی جنگ ِعظم میں شکست دیکر سلطنتِ عثمانیہ کو موجودہ ترکی کی حدود میںمحدود کیا تھا۔ اس وقت ترکی کو مردِ بیمار کہا جاتا تھا۔ آج وہی ترکی معاشی اعتبار سے ایک امیر اور فوجی لحاظ سے طاقتور ملک بن چکا ہے ۔ دنیا کی بڑی طاقتیں کئی معاملات پر اس سے اختلافات کے باوجود اس سے بہتر تعلقات رکھنا چاہتی ہیں۔