پاکستان کے سیاسی محاذ پر اپوزیشن حالت ِ سکون میں ہے تو بیرونی محاذ پر حکومت غیر معمولی طور متحرک نظر آتی ہے۔ یہ صورت حال پچھلے عام انتخابات کے بعد پیش آئے حالات و واقعات کے برعکس ہے جب سابق حکمران پارٹیاں نئی حکومت کو یکسر ناجائز قراردے کر اسے منہ کے بل گرانے کے لیے مضطرب تھیں۔ بھارت کشمیر ہڑپ کرگیا لیکن نہ تو سوائے چین کے کوئی عالمی ردعمل سامنے آیا۔ اور تو اور، عرب ممالک نے بھی کشمیر کے معاملے پر بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک الٹا بھارت سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھاتے نظر آئے۔ اوآئی سی سے قرارداد مذمت پاس کرانے کے لیے شاہ محمود قریشی جتن کرتے نظر آئے۔ حرف ِشکایت زبان پر لائے تو سعودی عرب الٹا ناراض ہوگیا اور معاشی امداد کے سلسلے میں دی گئی رقم کا بھی تقاضا جڑ دیا۔ سیاسی محاذ پر قومی یکجہتی کا عملی مظاہر مفقود تھا۔ اپوزیشن جہاں احتساب کے عمل کو جامد کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی وہیں پر حکمران پارٹی بھی بضد تھی کہ وہ این آر او کسی صورت نہیں دیگی۔ حکومت معاشی محاذ پر بھی لڑکھڑاتی نظر آئی، آئی ایم ایف کے پاس جانیکے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو اس نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کے راستے بند کرنے کے لیے آئین سازی کی شرط لگادی۔ نادیدہ طاقتوں کو میدان عمل میں آنا پڑا۔ سفارتی محاذ پر عرب ممالک کی بے حسی اور مغربی ممالک کا شدت پسندی کی روک تھام کے لیے آئین سازی پر اصرار جہاں بھارت کوجارحیت کے مواقع فراہم کر رہا تھا ، وہیں پر سابق حکمران پارٹیاں احتجاج کی روش پر چل پڑیں، پاکستان جمہوری تحریک کا علم اٹھائے اس عزم کے ساتھ میدان میں نکل پڑیں کہ سینٹ انتخاب سے پہلے ہی اسمبلیاں ٹوٹ جائیں اور نئے انتخابات کا اعلان ہوجائے۔ اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سابقہ حکمران پارٹیوں کی قیادت اتنی بھولی اور بے وقوف تھی کہ وہ بھارت سے کشیدگی یاکشمیر کے ادغام کے مضمرات کو نہیں سمجھتی تھی۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ حزب اختلاف اس معاملے میں اتنا آزاد محسوس کر رہی تھی کہ اس نے حکومت سے مفاہمت کو احتساب کے معاملے میں نرمی سے مشروط کردیا۔ دوسری طرف حکومت نے بھی مشرقی سرحدوں پر صورتحال کی وجہ سے سیاسی استحکام کو لاحق خطرات کو سنجیدہ نہ لیا اور بے رحم احتساب کے اصول پر ،نتائج کی پرواہ کیے بغیر ،اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ یہ روش کشمیر لاک ڈاون اور بعد ازاں کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران بھی جاری رہی۔ صورتحال میں، تاہم،بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب بائیڈن انتظامیہ برسراقتدار آئی اور اس نے اوبامہ انتظامیہ کے اس عزم کی تجدید کردی کہ وہ بہر صورت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو یقینی بنائے گی۔حتمی تاریخ کے اعلان تک پاکستان کا سیاسی محاذ خاموشی میں ڈوب چکا تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں اور بازی پلٹ چکی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جن کی آمدو رفت افغانستان تک ہی محدود تھی ، اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ بیرونی دوروں پر ہی رہتے ہیں۔ عرب ممالک اور اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کو فلسطین کے حالیہ بحران سے کافی دھچکا لگا ہے اور وہ اب دوبارہ پاکستان کی طرف دیکھنا شروع ہوگئے ہیں ۔ دوسری طرف حماس اور اسرائیل تنازعے میں پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عرب اسرائیل مفاہمت کا دائرہ بڑھ جائے اور خطے کے امن کی کوششوں میں ترکی اور پاکستان بھی برابر کے شریک ہوں۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب خطے کو امن ہی کی طرف لے جائیگا اور پاکستان اس کاوش میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ یوں یہ امکان بھی پیدا ہوگیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت پر دباو? میں اضافہ ہوگا۔ اگر راہ راست پر نہ آیا تو اس تیزی سے بدلتی دنیا میں بے یقینی کی دلدل میں پھنس سکتا ہے۔ یہ سب تو ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ ایسے وقت جب ملک کو بھارتی جارحیت اور وبا و? کا سامنے تھا قومی یکجہتی کو کیوں داو ? پر لگی۔ ایسے کونسے مفادات تھے جن کے حصول کے لیے ملکی سلامتی کو نظر انداز کردیاگیا؟ وہ کونسی طاقتیں تھی جو سیاسی پارٹیوں کو آپس لڑارہی تھی؟ ان سوالوں کے جوابات کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں عالمی نظام کروٹ بدل رہا تھا اور بین الاقوامی واقعات کو تہذیبی تناظر میں دیکھاجا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ فیصلہ ساز گو مگو کی کیفیت کا شکار ہوگئے ہوں اور انہیں خود بھی اندازہ نہ ہورہا ہو کہ کیا کرنا ہے۔ ایسے میں سیاسی پارٹیاں، جن میں جمہوری فیصلہ سازی کا فقدان ہے، جانے پہچانے راستے پر چل پڑیں ، اس بات کا ادراک کیے بغیر کے خطے کی صورتحال کیا کہہ رہی ہے اور یہ کہ معاشی بے بسی اور عالمی سیاست میں بدلاو? کی صورت میں وبا ایسے نتائج لاسکتی ہے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔ ظاہر ہے اب صورتحال بدل چکی ہے۔ سول اور عسکری قیادت نے ماہ صیام کی ' افطار پارٹیوں ' کے ذریعے واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب ہم نے دائیں ،بائیں کی بجائے ' صراط مستقیم'پر چلنا ہے۔ احتساب بھی ہوگا اور آئین و قانون کی حکمرانی بھی یقینی بنائے جائیگی۔ نئے سرے سے صف بندی کرلی جائے۔