جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اس وقت پورا عالم اسلام عید کی خوشیاں منا رہا ہے ۔ سب کو عید کی خوشیاں مبارک ۔کہتے ہیں عید تو بچوں کی ہوتی ہے ۔آج یہ بات یاد آئی تو لگا اس جملے میں بڑی گہرائی ہے ۔ یہ خوشی صرف نئے کپڑوں ، جوتوں ، اور عیدی کی ہی نہیں۔ اس میں یہ بات بھی پنہاں ہے کہ جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے جاتے ہیں ۔ عید کی خوشی میں کچھ غم ، کچھ جدائیاں،کچھ آنسو بھی بتدریج شامل ہوتے جاتے ہیں۔ ہر شخص کے ساتھ کم و بیش ایسا ہی ہے۔ کوئی کانٹا سا اس پھول کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ چاہے وہ ذاتی حالات ہوں،خاندانی،ملکی یا عالمی ۔اس عمر میں خدا کا شکر کہ بے شمار عیدیں نصیب ہوئیں ۔بے شمار خوشیاںجلو میں لے کر آئیں۔ مگر ایک فرق ضرور ہے ۔ایک زمانے میں عید کے ساتھ اداسی کا تصور نہیں تھا۔ اب عیدپر ایک طرح کی اداسی بھی خوشی سے گلے ملتی ہے ۔کہنے والے نے غلط نہیں کہا تھا کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے ۔ میںآنکھیں بند کروں تو بے شمار عیدیں مبارک دینے آجاتی ہیں۔سخت سردی کی یخ بستہ عید ۔ آگ برساتی دھوپ بھری عید۔ موسلا دھار بارش میں گیلے کپڑوں اور گیلے جوتوں کے ساتھ منائی گئی عید۔ اور والدین کے انتقال کے بعد سسکیاں لیتی اور بے قرار پھرتی عید ۔ نیلا گنبد چوک سے میو ہسپتال کے ساتھ ساتھ دھنی رام روڈ کی طرف جاتی سڑک ایونگ روڈ کہلاتی ہے ۔ اسی سڑک پر سو ڈیڑھ سو قدم چلیں تو بائیں ہاتھ مسجد والی بند گلی آتی ہے۔ہر عید پر صبح ہم اس گلی میں اپنے گھر سے نکلتے اور نیلا گنبد مسجد کی طرف عید کی نماز پڑھنے جایا کرتے۔عام طور پر مسجد کے باہرکھلی سڑک پر صفیں بچھی ہوتی تھیں اور میرے والد اپنے تینوں بیٹوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ وہیں نماز پڑھتے تھے۔میں اپنے دونوں بڑے بھائیوں کی طرف دیکھتا رہتا اور جیسے جیسے وہ نماز ادا کرتے ، ویسے ہی نقل کرتا جاتا۔بنے سنورے سجے سجائے بچے ،نئے خوب صورت کپڑے،اکثر اوقات نئی واسکٹ جو سنہری بھی ہوسکتی تھی اور مخملی عنابی بھی۔نئے جوتے جو سینڈل بھی ہوسکتے تھے اور بوٹ بھی۔ نئے موزے تو ہر صورت لازمی تھے۔ٹوپی لباس کا لازمی جزو تھی اور سیاہ مخمل کی رامپوری ٹوپی فیشن میں تھی۔قراقلی ٹوپی بھی بڑے اہتمام سے پہنی جاتی تھی لیکن ذرا بڑی عمر میں ۔میری امی ایک رومال تکونا کرکے واسکٹ یا قمیص کی سامنے سینے والی جیب میں لگا دیتی تھیں۔سردیاں ہوں تو دو رنگہ مفلر بھی لباس کا حصہ بن جاتا تھا۔چاند رات کو ہم چھ بہن بھائیوں کے مکمل کپڑے ٹین کے نیلے بکس سے نکال کر استری کرکے موزوں جوتوں کے ساتھ رکھ دئیے جاتے تھے تاکہ صبح دیر نہ ہو۔ عید گاہ کے ایک طرف غبارے والے جھولے والے اور کھلونے بیچنے والے کھڑے ہوتے تھے۔پلاسٹک ، سرکنڈوں اور سوئیوں سے بنا ہوا ایک پنکھے نما کھلونا جس کا نام مجھے یاد نہیں ،بچوں کو بہت پسند ہوتا تھا۔ اسے ہوا میں گول گول گھماتے تو اس سے آواز نکلتی تھی ۔غبارے والا ایک لمبا سا ڈنڈا لیے کھڑا ہوتا جس پر نیچے چھوٹے چھوٹے غبارے اور اوپر کی طرف بڑے غبارے بندھے ہوتے تھے۔سب سے اوپر ڈنڈے کی پھننگ پر سب سے بڑا غبارہ ہوتا تھا جس کی قیمت بھی سب سے زیادہ ہوتی تھی۔وہ دودھیا رنگ کا بڑا سا غبارہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے جس پر گلابی سنہری اور سبز رنگوں کی بنکیاں اور چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔چھوٹے غبارے ہاتھ میں تھا مے میں سوچتا تھا کہ یا اللہ یہ بڑا والا غبارہ کون خوش نصیب خریدتا ہوگا اور اسے اڑاتا ہوگا۔ ہم لوٹ کر گھر آتے تو امی اور بہنیں بھی نئے کپڑے پہنے تیار ملتیں۔ہماری دیرینہ خاندانی روایت کے مطابق شیر خرما تیارہوتا۔ چھوارے،کشمش اور پستہ شیر خورما کے اندر زیادہ ڈالے جاتے ۔شیر خرما بنانا بھی ایک فن ہے ۔ اور ہمارے خاندان کی خواتین اس فن میں ماہر ہیں۔عید کے دن پھل بھی خوب ہوتے اور مٹھائی کی قاب بھی بھری ہوتی۔شامی کباب میرے والد کو بہت پسند تھے اس لیے ان کا اہتمام ضرور ہوتا تھا۔بہت سے گھرانوں میں لذیذ سویاں لازمی ڈش تھی۔عیدیاں تقسیم ہوتیں جو عید کی سب سے بڑی خوشی ہوتی تھی۔اس عیدی کا انتظار کتنے دن پہلے سے لگتا تھا۔اس دور میںچار آنے ، آٹھ آنے اورسبز رنگ کے ایک ایک روپے والے نوٹ سے ہم مالا مال ہوجاتے تھے ۔یہ کافی خطیر رقم ہوا کرتی تھی ۔ جلد ہی قریبی عزیز نمازوں سے فارغ ہوکر عید ملنے کے لیے آنا شروع ہوجاتے۔سب سے پہلے ماموں محترم اور ماموں مکرم پہنچتے۔ماموں مکرم ہمیں کہانیاں سناتے تھے اس لیے ان کا نام کہانی والے ماموں تھا۔سگی خالہ کی طرح ہماری ہمسائی خالہ اقبال اور ان کی بیٹیاں باجی یاسمین اور باجی کوثر ہمیں خوب خوب پیار کرتیں ۔محلے دار اور ہمسائے بھی سارا دن ملنے آتے تھے۔شام کو یا اگلے دن ہم اپنی محبوب پھوپھی سے ملنے سمن آباد موڑ جاتے جہاں ہمارے ہم عمر، ان کے بچے نئی خوشیوں کے ساتھ ہمارے منتظر ہوتے تھے۔رات کو واپس گھر آتے تو تھکن سے چور بدن نیند کی نیلی جھیل میں اترنے میں دیر نہ لگاتا تھا۔ وقت بدلا۔کچھ بڑے ہوئے تو یہ کرائے کا گھر چھوڑ کر سمن آباد موڑ پر اپنے گھر منتقل ہوگئے ۔یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ہم نماز کے بعد چوبرجی کوارٹرز گراؤنڈ کا رخ کرتے۔وہی گراؤنڈ جو اورنج ٹرین کے روٹ پر ہے اور اس وقت ہر طرح کی تعمیری مشینری اس کا سانس بند کیے ہوئے ہے ۔ اور یہی کیا ، یونی ورسٹی گراؤنڈ ، بے بی گراؤنڈ غرضیکہ راستے کا ہر گراؤنڈ کرینوں ،سیمنٹ مکسروں ،ڈمپروں اور بل ڈوزروں نے کچل کر رکھ دیا ہے ۔حالانکہ یہاں عید کی نماز کے بڑے اجتماعات ہوتے تھے۔انہیں دیکھتا ہوں تو لگتا ہے میری عید کچل دی گئی ہے ۔دیکھیے کب یہ مشینری ہٹے اورسبزہ دوبارہ سانس لے سکے۔ چوبرجی گراؤنڈز میں بے شمار چیزیں ہماری منتظر ہوتی تھیں۔غبارے،گیس کے غبارے،ہنڈولے ،جھولے،چاٹ والا،بندوق سے غبارے پھوڑنے والا اور قتلما والا۔قتلما ان دنوں صرف تہواروں پر ملتا تھا اور اس چٹپٹی لذیذ روٹی کے بغیر بچوں میں عید کا تصور ہی نہیں تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک عید پر میری بڑی بہن پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ سارا دن اسے کسی نے قتلما لاکر نہیں دیا تھا،چنانچہ اس کی عید ہی نہیں ہوئی تھی۔بچوں سے زیادہ یہ دکھ کون محسوس کرسکتا تھا سو ہم سب نے اس دکھ کو محسوس کیا اور اگلے دن اس نے بڑا سا قتلما خرید کر اپنی عید مکمل کی۔سال بھر میں اتنے پیسے کبھی اکٹھے نہیں ہوتے تھے جتنے عید کے دن۔ بچے صرف وصولیاں کرتے تھے سو انہیں جلد از جلد،بہترین طریقے سے خرچ کرنے کے اہم فیصلے سر پر کھڑے ہوتے تھے۔نان مچھلی مہنگا آئیٹم تھا جس کی سال بھر میں گنجائش کم کم ہوتی تھی۔چنانچہ عید کے دن بچے ٹولیوں کی شکل میںاس سے فیضیاب ہوتے تھے۔ چکن لیگ پیس اور کولا بھی بچوں کی عام استطاعت سے قدرے باہر کی چیز تھی۔ عید پر یہ نشہ بھی پورا ہوتا۔پہلے گول چکر سمن آباد کے قریب برگر اور چکن سینڈوچ کی عیاشی کئی سال بعد شروع ہوئی ۔ اور تادیر جاری رہی ۔ ہر نسل کی اپنی طرح کی عید ہوتی ہے ۔ صرف عید کے حوالے سے سوچوں تو زمانے نے کتنی کروٹیں بدل لیں۔عید کارڈز کا زمانہ گیا اور موبائل مبارک بادوں نے ان کی جگہ لے لی ۔بہت کچھ بدلا لیکن ایک چیز اسی طرح تازہ اور خوشبو بکھیرتی ہوئی موجود ہے ۔ عید کے دن کسی بے فکربچے کا مسکراتا اور خوشی سے دمکتا چہرہ۔سچ یہ ہے کہ دل کھلا دینے کے لیے یہی منظر کافی ہے۔اس سے بہتر نظارہ کوئی ہوسکتا ہے ؟ بس یہی دید ہماری عید ہے۔؟یہ دید یہ عید آپ سب کو مبارک۔