مطلعٔ تقویم پر جب بھی مارچ کا بیش بہار، پُر خمار مہینہ طلوع ہوتا ہے، میرے حواسِ ہشتہ پر غالب کا یہ شعر ہر بار نئے انداز سے ورُود کرتا ہے: آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سَنج اُڑتی سی اِک خبر ہے زبانی طیور کی مارچ کا یہی مہینہ جس سے بچپن میں ہم صرف یومِ پاکستان (۲۳ مارچ) کے حوالے سے متعارف تھے۔ تعلیمی دنیا میں قدم رکھا تو اکتیس مارچ ہر سال امتحانی نتائج کا خوف لیے برآمد ہونے لگا۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ سال ہا سال سے سیاست دانوں کے لانگ مارچ یا رانگ مارچ کے حوالے سے آلودہ ہوتا آ رہا ہے۔ رہی سہی کسر چند برسوں سے ’میرا جسم، میری مرضی‘ والی چند بیبیوں نے پوری کر رکھی ہے۔ ہمارے لیے مارچ کا یہ گل کھلاتا، پھول برساتا، ہنستا ہنساتا مہینہ ہر سال تارڑ نگری کی یاد تازہ کرنے کے لیے آتا ہے، جو ہمارے وجدان اور دھیان کی اُنگلی تھام کر کبھی رنگا رنگ سفرناموں کی وسیع دنیا میں لے جاتا ہے اور کہیں گوناں گوں ناولوںکے خواب نگر میںرَم کرتا ہے۔ ناول بھی محض ایک رنگ میں رنگے ہوئے نہیں بلکہ ایک کہکشاں ہے، جس میں ستارے ہر بار ایک نئے انداز سے ہجوم کرتے ہیں۔ ان میں کہیں تاریخ، کہیں تہذیب، کہیں تصوف، کہیں مزاح، کہیں طنز، کہیں حالاتِ حاضرہ اور کہیں رومانس کا بگھار نہایت سلیقے سے لگایا گیا ہوتا ہے۔ محمد خالد اختر کی سواتی اور کاغانی مہموں کے بعد ملکی سیاحت کو فروغ دینے میں بھی اِس محبِ وطن ادیب اور سیّاح کا کردار بے مثل ہے۔ اس نے امریکا، کولمبیا، کینیڈا، روس،چین وغیرہ کے ساتھ ساتھ، راکا پوشی سے نانگا پربت، دیو سائی سے سنو لیک،کالاش سے رتی گلی اور سندھ سے بلتستان تک کی محبت ہمارے دلوں میں دُگنی چوگنی کر دی ہے۔ پھر لاہور تو اس کا اپنا شہر ہے، لوگ کہتے ہیں کہ جتنا لاہور اس کی تحریروں میں دبکا پڑا ہے، بلکہ سطر سطر سے چھلکا پڑتا ہے، اتنا تو تاریخ اور جغرافیے کی کتابوں میں بھی میسر نہیں۔ ان دونوں مقبول ترین اصناف کے ساتھ ساتھ سیکڑوں کالموں پر محیط متعدد تارڑ نامے، وطنِ عزیر کے ادبی، سیاسی، معاشرتی حالات کے نہایت دلچسپ چوکھٹے ہیں۔ نامور ادیبوں کے خطوط، افسانے، ڈرامے، اداکاری اور ٹی وی پروگراموں کی میزبانی اس کے علاوہ ہے۔ ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ فکشن کی مضبوط عمارت، حالاتِ حاضرہ کی تھرکتی بنیادوں پہ اُستوار نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ہمیشہ ماضی کا بوسیدہ چُونا گارا ہی استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ اسی مفروضے کو بنیاد بنا کر یار لوگ تمام عمر رفتگاں کے بکھیڑوں ہی میں الجھے رہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے ماضی کے مزاروں کی پرستش میں خود کو اتنا کھپا لیا کہ انھیں حال میں جینے کی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قاری کم اور مجاور زیادہ پیدا کیے ہیں حالانکہ سعادت حسن منٹو جیسے نابغۂ روزگار نے پون صدی قبل، حال کے حُجرے میں فکشن کے دائمی چراغ روشن کر کے اس مِتھ کو سرِ بازار رُسوا کیا تھا، اور اب تقریباً نصف صدی سے ہمارا یہ داستانوی حیثیت اختیار کر لینے والا ہیرو، حالاتِ حاضرہ کی متحرک عمارت کی، فکشن کے دل فریب رنگوں سے تزئین و آرائش کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ ہمارا یہ پُر گو فکشن نگار ایسی با ہمت سوچ کا مالک ہے کہ عطار کی ہزار سال سے زیادہ پرانی منطق الطیر کو اپنے پختہ تخیل اور مقامی پرندوں کے پروں پہ سوار کر کے ’منطق الطیر، جدید‘ کی صورت ٹِلّہ جوگیاں تک کھینچ لایا ہے۔ ناول کی اسی نروان نگری میںکہیں یہ اپنے کچی عمر کے تجربے سے ’پیار کا پہلا شہر‘ آباد کرتا ہے۔ کہیں اُمتِ مسلمہ کی افغانستان میں کئی عشروں سے دُور مار میزائلوں اور کابلی حوصلے کے درمیان جاری انوکھی جنگ کہ جس کادنیا بھر کے لوگوں اور حکمرانوں کو اب جا کے احساس ہوا ہے، تارڑ نے اس مضحکہ خیزی کی بہت عرصہ پہلے ’قلعہ جنگی‘ کے عنوان سے تصویر کشی کی تھی۔ پھر کہیں وہ اپنے باطنی مکاشفات کو ’غارِ حرا کی ایک رات‘ کے صفحات پہ بیسیوں صفحات پر پھیلا دیتا ہے اور کہیں اپنے جوکالیاں سے لاہور کے بہ ظاہر معمولی سے سفر کو پنجاب کی ڈیڑھ سو سالہ تہذیب کے دھاگے میں ’خس و خاشاک زمانے‘ کی صورت مہارت سے پرو کر اسی صنف کی ملکہ ہانس کے گلے میں ڈال دیتا ہے۔ بلند بانگ دعووں سے جنم لینے اور محض پون صدی ہی میں ڈھیر ہو جانے والی سوشلزم کی جو کیفیت، طنزیہ اسلوب میں ہمارے اس دبنگ قلم کار نے ’اے غزالِ شب‘ میں بیان کر دی ہے، فکشن کی دنیا میں اس کی مثال ملنا بھی محال ہے۔ اسی طرح ’بہاؤ‘ کے بھاؤ اور ’راکھ‘ کی ساکھ کا کون سا ذی شعور قاری واقف اور معترف نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند سال قبل جب مَیںنے ان کے انوکھے رومانوی ناول ’قربتِ مرگ میں محبت‘ (زنانہ کرداروں کی کثرت کی بنا پر جس کا عنوان ’قربتِ مرد میں محبت‘ بھی ہو سکتا تھا)کا مطالعہ کیا، جس میں ایک طرح دار خاتون کو ساٹھ سال کی عمرمیں ریٹائر ہونے والے شخص سے شدید قسم کی محبت ہو جاتی ہے۔ ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو مَیں نے حیرتیہ شکایت کے انداز میں کہا کہ اس ادھیڑ عمر میں اتنی تفصیلی محبت کیسے ممکن ہے؟ ہنس کے کہنے لگے: ممکن کیوں نہیں ؟ یہ تو سراسر میرا ذاتی تجربہ تھا… جس طرح شاعر غزل کے لیے نئی نئی زمینیں تلاشتے یا تراشتے ہیں،اسی طرح ہمارا یہ طرح دار ناول نگارسفرناموں کے لیے نئی نئی حقیقی وادیاں، اپنے ادبی پوتے پوتیوں کے لیے قسم قسم کی تصوراتی دادیاں، اور ناولوں کے پلاٹ کے لیے نئے نکور ملکی و بین الاقوامی واقعات و سانحات پہ تیکھی نظر رکھتا ہے۔ ناول کی دنیا میں جدید کاریاں کرتا، کرونا جیسی انوکھی اور حادثاتی وبا کے ضمن میں تحریر کردہ اس کاتازہ ترین شاہکار ’شہر خالی، کوچہ خالی‘ ہے۔ کیسی مزے کی بات ہے کہ جب دنیا بھر کے چھوٹے بڑے لوگ قرنطینہ کے خوف سے دبکے بیٹھے تھے۔ کاروبارِ حیات اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لے رہا تھا اور شاعر ادیب چونچ پروں میں دبائے حیرت کی تصویر بنے ہوئے تھے، اس کا توانا تخیل ایسے دگرگوں حالات میں بھی فکشن کی ہتھیلی پہ نادر و نایاب سرسوں جمانے میں مصروف تھا۔ اُردو ادب کی اس محدود دنیا میں بہت سے لوگوں نے بہت سا شور مچایا۔ بعض نے تو چیخ چیخ کے، سیاسی، فوجی اور میڈیا کے اونچی ایڑی والے جوتوں پہ کھڑے ہو ہو کے اپنی ہوند کا احساس دلایا لیکن جمع تفریق کرنے کے بعد ہاتھ کچھ نہیں آیا، روحی کنجاہی نے کہا تھا: خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی مستنصر حسین تارڑ کی یہ انفرادیت ہمیشہ سب کو متاثر کرتی رہے گی کہ وہ ان منمناتے محکمانہ عہدوں اور سیاسی شُہدوں سے بے نیاز رہا۔ چھے سات دہائیوں سے لاہور میں رہتے ہوئے وہ یہ کام نہایت اُچھل خیزی اور مٹک ریزی سے کر سکتا تھا لیکن اس نے ہمیشہ قلم و آواز کی پرواز کے وسیلے سے اپنا رزق کمایا اور خوب کمایا۔ یہ اَمر نہایت خوش کُن ہے کہ اس کی تحریریں دریوزہ گری، دُم بازی، دَم سازی، بھاگ لگے رہن کی ہُمک سے پاک ہیں۔