سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کی آرمی چیف سے ہونے والی دو ملاقاتوں کی خبر، اگر کسی رپورٹر یا اینکر پرسن نے ’’ٹپکائی‘‘ (Leak) ہوتی ، تو اس کی مقبولیت کا گراف راتوں رات آسمان کی بلندیوں کو چھو جاتا، لیکن معاملہ یہ ہے کہ خبر اس شیخ رشید نے طشت از بام کی ہے، جس کو اپنے پروگراموں میں رو برو بٹھا کر ’’ریٹنگ‘‘ میں اضافہ کرنے کی دوڑ، گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ کون ہے جو شیخ رشیدکو پروگراموں میں شامل کرنے کی اس میراتھن میں شامل نہیں۔ کوئی بخوشی اس کا انٹرویو کرتا ہے اور کوئی د ل پر پتھر رکھ کر اسے اپنے پروگرام کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لیئے ایسا کر رہا ہوتا ہے۔ ریٹنگ کی اس دوڑ نے ایسے ایسے ’’مجسم نظریاتی‘‘ لوگوں کو بے نقاب کیا ہے کہ اب تو نظریے سے وفا داری پر ایمان ہی اٹھتا جا رہا ہے۔ جب سے الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا اور خصوصاً ’’یو ٹیوب‘‘ چینلوں نے رواج پکڑا ہے اور ان سے لوگوں نے خوب کمانا بھی شروع کر دیا ہے، تو ایسے ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اترے ہیں کہ دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ یہ وہی اینکر تھے جو اپنے پروگراموں میں کسی غیر سیکولر یا غیر لبرل شخص کی جھلک دکھانا بھی پسند نہیں کرتے تھے ،لیکن کمائی، ناظرین (Viewers) بڑھانے اور مستقل ناظرین (Subscribers) کی تعداد میں اضافہ کرنے کی دوڑ نے انہیں ایسے لوگوں کے دروازے پر لا کھڑا کیا ہے، جن کا وہ نام اپنی گفتگو میں بغیر دشنام کے نہیں لیتے تھے۔ سرمایہ اور ریٹنگ جب آپ کی محبوبہ بن جائے تو پھربقول مومن خان مومن: اس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کیاذلیل میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا شیخ رشید پاکستانی سیاست کا وہ ڈھنڈورچی ہے جو گذشتہ ستر سالہ سیاست کے دوغلے پن اور منافقت کے گندے کپڑے بیچ چوراہے میں لا کر پھینک دیتا ہے۔ دھونا اور نہ دھونا تو بعد کی بات ہے۔ اسے وہ تمام کہانیاں ازبر ہیں، جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا ہر سیاستدان ’’جی ایچ کیو ‘‘کی نرسری میں پروان چڑھا ہے۔ اس پر غصہ تو کھایا جا سکتا ہے، پیچ و تاب بھی دکھائے جا سکتے ہیں، لیکن اس کی تردید ممکن نہیں۔ پاکستانی سیاست شروع دن ہی سے دو نرسریوں کی مشترکہ پیداوار رہی ہے۔ ایک سول اور دوسری ملٹری بیوروکریسی۔ دونوں برطانوی ہندوستان کے دور سے ایک دوسرے کی ہم لباس ہیں۔ جس طرح اس کائنات میں ہر چیز کا جوڑا ہوتا ہے، ویسے ہی یہ دونوں ادارے ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ کبھی ایک زیادہ نمایاں، واضح اور طاقتور نظر آتا ہے اور کبھی دوسرا۔ پاکستان کی سیاست کے آباء و اجداد کو ان دونوں نے اپنی پالنے میں جھولا کر جوان کیا ہے۔ بنگال کے سندربن کے جنگلات سے لے کر بلوچستان کے ٖفورٹ سنڈیمن تک قبائلی، جاگیر دارانہ ، اور شہری قیادت، سب کی سب سول اور ملٹری بیوروکریسی کی آشیر باد سے وجود میں آئی ہے۔وہ تمام خاندان جو آج پاکستانی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں، ان کے آباء و اجداد کے قصے 1857ء کی جنگِ آزادی سے پہلے سے شروع ہوتے ہیں، ’’قومِ فروختند چہ ارزاں فروختند‘‘ یعنی قوم بیچی مگر کتنی ارزاں قیمت پر بیچی کے مصداق ہر کسی نے انگریز کی وفاداری میں اس سر زمین کے مجاہدین کے گلے کاٹے اور لاشوں کو گن گن کر ’’فی لاش‘‘ انگریز فوج کی چھاؤنیوںمیں ’’بذاتِ خود‘‘جا کر قیمت وصول کی۔ ارباب، ترین، جدون، ٹوانے، دولتانے، گردیزی، گیلانی، ڈاہے، مزاری ولغاری، روکڑی، نون، انٹر، جتوئی، شیرازی، کھوڑو، بھٹو، مخدوم،بگٹی، رئیسانی، جمالی، جوگیزئی اور جام غرض کون ہے جس کے آبائو اجداد میں مراعات یافتہ لوگ شامل نہیں ہیں، کسی کو ’’آنریری مجسٹریٹ‘‘ لگایا گیااور اس طرح لوگوں کے سارے مال مقدمے اس کے سپرد کر دیئے گئے اور کسی کو فوج میں ’’آنریری کیپٹن‘‘ کی وردی پہنا کر اس کا رعب اور دبدبہ قائم کیا گیا۔ یہی لوگ تھے جن کی مخبریوں پر پورے برصغیر میں مجاہدینِ آزادی کوپھانسیوں پر لٹکا یا گیا، کالے پانی بھجوایا گیا اور انہیں اذیتیں دے کر شہید کیا گیا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں انگریز کے خلاف جہاد کرنے کا پرچم ہمیشہ منبر و محراب کے بوریا نشین علماء کے ہاتھ میں رہا۔ دلّی جب1857ء میں ان سیاستدانوں کے آباء و اجداد کی غداری اور انگریز کے ساتھ شانہ بشانہ لڑائی کے بعد فتح ہوا تو ہزاروں علماء کو دلّی کے چوراہوں پر پھانسی پر لٹکایا گیا۔ غالب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’شہر کے چوراہوں پر علماء کی لاشیں ایسے جھول رہی ہیں جیسے درختوں پر بجروں کے گھونسلے‘‘۔ علامہ فضل حق خیر آبادی سے لے کر مولانا محمود الحسن تک علماء کا ایک قافلہ ہے، جو پانچ دہائیوں تک لڑتا ہے اور ان کے مقابلے میں غداروں کا ایک قافلہ ہے جو زمینیں الاٹ کرواتا رہا، کونسلر، ممبر لجسلیٹو کونسل اور دیگر مراعات حاصل کرتا رہا۔ جو سیاسی پارٹی بھی انگریز بناتا تھا اس میں ممتاز دالتانہ کا والد یار محمد دولتانہ ہو یا ذوالفقارعلی بھٹو کا والد سر شاہنواز بھٹو، بخوشی شریک ہوجاتے۔ بلوچستان کے موجودہ سرداراور نواب آج تک اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ’’خانہ نشینی‘‘ الاؤنس وصول کرتے ہیں، جو انگریز نے ان کی خدمات کے صلے میں ماہانہ جاری کئے تھے۔ آج پاکستان کی سیاست پر یہی گھرانے راج کر رہے ہیں۔ ان کی تخلیق میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کا خون پسینہ شامل ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے برسر اقتدار آنے تک چونکہ انگریز نے سول بیوروکریسی کو بالا دست رکھا ہواتھا، اس لیئے ان ’’عظیم‘‘ سیاستدانوں کی قیادت کے لیئے بیوروکریسی سے چوہدری محمد علی ،وزیر اعظم، محمد علی بوگرہ ،وزیر اعظم ،ملک غلام محمد ،گورنر جنرل اور سکندر مرزا، صدر جیسے عہدوں پر متمکن رہے اور پاکستان کی پوری سیاست 1958ء تک انہیں قبلہ نما سمجھتی رہی۔ لیکن جسٹس منیر کے 27اکتوبر1958ء کے فیصلے نے پاکستان کا ’’سیاسی تحویلِ قبلہ‘‘کر دیا اور سب سول بیوروکریسی کے درخت سے اڑ کر’’ جی ایچ کیو‘‘ کے برگد پر جا کر بیٹھ گئے۔ ذالفقار علی بھٹو، قائد عوام، فخرِ ایشیا کا جنم اسی برگد کے اوّلین فرزندوں میں سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو بھی میدانِ سیاست میںآیا ،اس نے اپنا گھونسلہ یہیں بنایا۔ گذشتہ ستر سالوں میں سول بیوروکریسی اور ملٹری بیوروکریسی کی لڑائی دو میاں بیوی کی لڑائی ہے، جو ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں بھی لگے رہتے ہیں۔ جبکہ سیاستدان کی لڑائیاں ان اولادوں کی طرح ہیں جو اسی دسترخوان پر موجود تورہتے ہیں، مگر ان میں سے کچھ، ذرا سی توجہ کم ملنے پرناراض ہو کر بگڑے بچوں کی طرح اغیار کے ساتھ مل کرباتیں کرنے لگتے ہیں ،جبکہ کچھ صبر شکر کر کے اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ صرف پاکستانی سیاست کا خمیر نہیں، بلکہ یہ دنیا بھر میں سو سے زیادہ ملکوں میں جمہوری نظام کا خمیر ہے، جو ہر ملک کی اسٹبلشمنٹ کے دسترخوان پر آراستہ ہوتا اور اسی کے گملے میں پروان چڑھتا ہے۔ شیخ رشید اس گملے کا نووارد ہے اور خاندانی طور پر اس گملے کا پودا نہیں ہے۔ اس نے خود اپنی ’’کارگزاری‘‘ دکھا کراس درخت پر گھونسلا بنایا ہے، اسی لیے ابھی اس میں وہ خاندانی ’’بردباری‘‘ نہیں آئی جو سب کچھ ڈکارنے کے بعد بھی چہرے پر ’’معصومیت‘‘ کا لبادہ قائم رکھتی ہے۔ وہ ایک ڈھنڈورچی ہے، بے صبرا ہے، لیکن وہ جو کچھ کہتا ہے اگر وہ کسی کالم نگار، اینکر پرسن یا رپورٹر کی زبان سے ادا ہو تو یہ ایک ’’خبر‘‘ ہے، ’’سکوپ‘‘ ہے، ’’تمغہ‘‘ ہے، لیکن شیخ رشید’’ وجۂ ملامت‘‘ ہے، ’’قابلِ مذمت‘‘ ہے۔