سات راتیں‘ اذیت ناک‘ کرب اور انتظار کی سولی پر گزار کربالآخر شہداء ہزارہ کی میتیں سپرد خاک کردی گئیں۔ایک اطمینان سا دل میں اتر گیا اور آنکھیں چھلک گئیں۔گزشتہ سال دنوں میں کئی بار آنکھیں نم ہوئیں‘ معمولات زندگی نبھاتے ہوئے عجیب بے چینی کا سامنا رہا‘ کبھی نصف شب کے بعد اچانک سے آنکھ کھل جاتی اور ایک ٹیس سی دل میں اٹھتی۔تازہ ترین صورت حال کے لیے ٹی وی آن کر کے دیکھتی تو کربناک احتجاج کا وہی نظر سامنے ہوتا۔ منجمد کردینے و الی سردی‘ میتوں کی قطاریں اور سوگواران‘ رنج‘ تکلیف‘ بے بسی مل کر دل پر ایک وار سا کرتیں۔ یہ وہ سانحہ تھا کہ وطن عزیز کا ہر حساس دل شخص درد کی اس زنجیر میں بندھا ہوا تھا۔ ہجر و وصال کی اپنی دنیائوں میں غرق رہنے والے شاعروں نے بھی کیسی کیسی دلگداز نظمیں اس سانحے کے پس منظر میں کہیں۔ ہر شخص‘ رنج و ملال کی ایک جیسی آنچ پر پگھل رہا تھا۔ سوائے ان کے جن کے انتظار میں سوگواروں نے سات دن انتظار کی سولی پر گزار دیئے: تمام شہر ہی مرہم بدست حاضر تھا مگر وہ شخص کہ اس دکھ سے بے خبر ہی رہا سو سپرد خاک صرف جسم ہوئے ہیں‘ ضد اور انا اور بے حسی سے جو صورت حال پیدا ہوئی تکلیف کا وہ احساس کبھی دفن نہیں ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہزاریوں کے ساتھ بیتنے والی یہ قیامت بہت بڑا حادثہ تھا مگر بے وقت‘ ضد‘ انا اور بے حسی ظلم گریدہ غریبوں کو بلیک میلر کہنا اس سے بھی بڑا سانحہ ثابت ہوئی۔ پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ایک نئی معنوی بلاغت کے ساتھ سامنے آیا: حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر ایسا برتائو اگر کسی بڑے کی طرف سے ہوتو پھر تو اس کی تکلیف دو چند ہے۔ میتیں سپرد خاک ہو گئیں اور وزیراعظم کوئٹہ آئے ہیں۔ افسوس کہ اس تاخیر کا ملبہ وہ گزشتہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی پر بھی نہیں ڈال سکتے۔ نہ ہی سوگواروں کے سامنے اس کا ذمہ دار قومی خزانہ لوٹنے والوں کو ٹھہرا سکتے ہیں۔ یہ وہ کارنامہ ہے جس کا کریڈٹ بس انہی کو جاتا ہے۔ کیسا حکمران ہو ایسے نازک اور حساس موقعوں پر وہی کرتا ہے جو وقت کا تقاضا ہوتا ہے۔ پورا ملک ایک احساس کے ساتھ ایک جانب کھڑا تھا اور جناب وزیراعظم دوسری جانب۔ کیا انہیں احساس بھی ہے کہ اپنے اس طرز عمل اور برتائو کے ساتھ انہوں نے اپنے کتنے چاہنے والوں کو شرمندہ کیا۔ ہر کڑے موقع پر وزیراعظم عمران خان کا دفاع کرنے والے بھی اس طرز عمل پر خاموش تھے کیونکہ کوئی اس کی دلیل پیش نہیں کرسکتا۔ مقبول وزیراعظم عمران خان 22 برس کی جدوجہد سے انہوں نے یہ مقام حاصل کیا۔ نجات دہندہ‘ مسیحا‘ عوامی مقبولیت کا یہ سفر اقتدار میں آنے تک اپنے عروج پر رہا اور پھر ڈھلوان کا سفر شروع ہوا۔ اگر یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا کے آئینے سے گرتی مقبولیت ملاحظہ فرمالیں۔ لوگ موازنے کے لیے نیوزی لینڈکی ہمدرد وزیراعظم جیسنڈرا آرڈن کی تصویریں پوسٹ کرتے رہے۔ سکارف سے سر کو ڈھانپے ہوئے وہ مسلمان متاثرین کو گلے لگائے کھڑی ہیں۔ صرف ایک تصویر وہ کچھ بیان کر جاتی ہے جو ایک ہزار الفاظ بھی بیان نہیں کرسکتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جیسنڈا آرڈن کا یہ انداز حکمرانی دنیا کے لیے اجنبی تھا۔جہاں ایک حکمران کے اپنے عوام کے ساتھ احساس سے بھرے ہوئے اس برتاؤ نے دنیا بھر میں میں لوگوں کے دل جیت لیے وہیں اس پر سوالات بھی اٹھائے گئے۔اور دنیا بھر کے مقتدر حلقوں میں کہا گیا کہ اگر ایک لیڈر عوام کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار اس انداز میں کرتا ہے جیسے نرم دل جیسنڈا نے کیا تو یہ کمزور ہونے کی علامت ہے اسکے لیے انگریزی کا ایک لفظ vulnerable استعمال کیا گیا جو معنی کے اعتبار سے ,زیادہ بلیغ ہے۔ بی بی سی کے ایک انٹرویو نگار نے جب یہی نکتہ جیسنڈا آرڈن کے سامنے رکھا تو اس نے نہایت خوبصورت جواب دیا it needs a courage and strength to be an empathetic and compassionate leader. اس نے کہا ہم مہربان اور ہمدرد ہونے کا سبق اپنے بچوں کو ہمیشہ پڑھاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری سیاست اور اور طرز حکمرانی میں یہ سب کچھ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔. اس نے کہا میرے نزدیک اپنے لوگوں کے ساتھ دکھ میں کھڑا ہونا اور ان کے دکھ کو محسوس کرنا ہی اصل لیڈر شپ ہے۔ This is my new paradigm of leadership. گارڈین اخبار میں ایک آرٹیکل چھپا جس میں کہا گیا کہ جیسنڈا آرڈن لیڈرشپ اور طرز حکمرانی کے پرانے تصور توڑ کو نئے سرے سے بنارہی ھیں.اب دنیا کو ایسے لیڈرز کی ضرورت ہے ۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لفظ empathy کا مطلب انگریزی لغت کی رو سے ہے یہ کہ The ability to share and understand the feelings of other. سانحہ ہزارہ کے تناظر میں وزیراعظم کو اسی بنا پر سخت تنقید کا سامنا ہے کہ انہوں نے اس کڑے وقت میں اپنے برتاؤ سے متاثرین سے لاتعلقی کا احساس ظاہر کیا۔اچھے وقتوں میں عمران خان کہا کرتے تھے کہ سوشل میڈیا ہماری طاقت ہے۔ سوشل میڈیا کاآئینہ دیکھنے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ خلق خدا حکمرانی کی باریاں لینے والے کرپٹ عناصر سے تنگ ہے۔ سو تازہ ہوا کیلئے عمران خان سے امیدیں باندھی گئیں اور آج سوشل میڈیا کا آئینہ اس سچائی اور مقبولیت کے امیج کا منہ چڑا رہا ہے۔ تحریک انصاف ایک شخص کا نام ہے اور وہ ہے عمران خان۔ کیا خان صاحب اس سچائی کا سامنا کریں گے کہ انکی صورت میں سچائی کا بنایا ہوا بت خوفناک انہدام سے دوچار ہے۔ معاف کیجئے گا۔ دنیا کی کسی بھی لغت میں اس شخص کو لیڈر نہیں مانا جاتا جو اس وقت عوام کے ساتھ نہ کھڑا ہو، جب انہیں اس کی ضرورت ہو۔ جو اس وقت انہیں میسر نہ آئے جب وہ نگاہیں پتھر ائے ہوئے اس کے منتظر ہو۔ وہ لیڈر کیسے ہو سکتا ہے جو اپنے وسوسوں‘ خدشات اور خوف کا اسیر ہو اور عوامی امنگوں کو نظر انداز کرے۔ لیڈر کی لغت میں تاخیر نہیں بروقت فیصلوں کے باب ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر پٹی چل رہی ہے وزیراعظم تعزیت کے لیے کوئٹہ پہنچ گئے اور مجھے حفیظ ہوشیار پوری کا یہ بے مثل شعر یاد آ رہا ہے: اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے