اس کالم کے لیے ہم نے نو ایسی ترقی پزیر معیشتوں کا جائزہ لیا، جن کی معیشت کا معدنی وسائل پر بڑا دارومدار نہ ہو، جن کی آبادی پانچ کروڑ سے زیادہ ہو اور جہاں مسابقتی جمہوریت رائج ہو۔ان چیدہ معیشتوں میں برازیل، ترکی، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن، ہندوستان، بنگلہ دیش، کینیا اور پاکستان شامل ہیں۔آئی ایم ایف کے ڈیٹا کے مطابق ان ممالک کی اوسطََ سالانہ فی کس مجموعی قومی پیداوار4577 ڈالر ہے، برازیل 8570 ڈالر کے ساتھ ان معیشتوں میں سرفہرست ہے اور پاکستان رینکنگ میں1562 ڈالر کے ساتھ سب سے نیچے ہے۔ان نو ممالک کا ورلڈ بینک کے معاشی عدم مساوات کے پیمائش کے جنی انڈیکس کا اوسط اسکور38.2 ہے۔100 نمبر کی پیمائش پر اس انڈیکس پر زیادہ اسکور بڑے معاشی عدم مساوات کی نشاندہی کرتا ہے۔48.9 کے اسکور کیساتھ برازیل میں معاشی عدم مساوات ان نو معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے، جبکہ پاکستان میں معاشی عدم مساوات ان ممالک میں 29.6 کے اسکور کے ساتھ سب سے کم ہے۔اس رحجان سے ایک حقیقت ابھرتی ہے، ترقی پزیر ممالک میں معاشی بڑھائوکے ساتھ معاشی عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں آبادی کے بڑے حصے میں، جو کہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہو، یہ احساس سرایت کر جائے کہ وہ معاشی ناانصافی کا شکار ہیں ، تو پھر یہ ملک میں معاشرتی بے چینی، سیاسی عدم استحکام اور پرتشدد ردعمل کو جنم دیتا ہے۔اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشی عدم مساوات سرمایہ دارانہ نظام کا ایک لازمی جز ہے۔یہ دونوں ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ملکوں کے محروم طبقات میں سیاسی تحریکوں کا سبب بنتا ہے، جو ان ممالک کی حکمران اشرافیہ کے لیے مستقل چیلنج کے طور پر رہتا ہے۔وسائل کی فراوانی اور قانون کے سخت اطلاق کی وجہ سے ترقییافتہ ممالک کے اہل اقتدار اپنے ملک کے غریب طبقے کو خریدنے اور دبانے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور یہ بات واضح ہوتی ہے جب ہم شمالی امریکہ اور یورپ کی روایتی دائیں بازو کی قدامت پسند سیاسی جماعتوں کا حالیہ دہائیوں میں طرز حکمرانی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔1970 کے عشرے میں جب ترقی یافتہ معیشتیں مختلف وجوہات کی وجہ سے کساد بازاری کا شکار ہوئی، تو رفتہ رفتہ نیو لبرل ڈاکٹرائن کو دائیں بازو کی حکمران جماعتوں کے تحت عروج ملتا گیا۔ اس معاشی سوچ کی بنیاد سرکا ر کے مالی حجم میں کمی اور مارکیٹ میں کردار کو محدود کرنا تھا۔ اس کے اثرات فلاحی ریاست کے سکڑنے اور مارکیٹ اکانومی کے پھیلائومیں ہوا۔جب عدم مساوات میں اضافے کے باوجود ترقی یافتہ معیشتوں کی ترقی کی شرح میں اضافہ ہونے لگا، تو اس معاشی نظریے کو ترقی پزیر ممالک میں بھی خوب فروغ حاصل ہوا۔ ہمارے آج کے کالم کا مقصد اس معاشی تبدیلی کا ترقی پزیر ممالک خاص طور پر پاکستان پر سیاسی اثرات اور غریبوں کے بہبود کے رحجانات کا مختصر جائزہ لینا ہے۔ وسائل کی قلت کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک میں سرکارکی سماجی اور فلاحی شعبوں میں موجودگییا سرمایہ کاری پہلے ہی کم تھی، کھلی مارکیٹ کے نظریات نے کم آمدنی والے طبقے کو سماجی بہبود کے آسرے سے مزید محروم کر دیا۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے نجی شعبہ کی شمولیت اور بین الاقوامی ڈونرز کی امداد بھی اس خلا کو پر کرنے میں ناکام رہی۔ اس معاشی تبدیلی نے ترقی پزیر ممالک کی سیاست کو نظریاتی سیاست سے سرپرستی کی سیاست کے سفر پر گامزن کر دیا۔بائیں بازو کی جماعتیں، جو کہ سماجی جمہوریت ، پروگیریسو ٹیکس ، وسائل کی تقسیم اور طبقاتی جدوجہد پر یقین رکھتی تھی، ان کے سیاسی اثر میںیا تو کمی ہونے لگی یا پھر سیاسی طور پر متعلق رہنے کے لیے انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں حالات کے حساب سے بنیادی نظریات میں اصلاحات کرنی شروع کردی۔ دائیں بازو کی سیاست تو پہلے ہی روایت پسندی، قوم پرستی ، مذہبی عقیدت اور بازاری معیشت کی بنیادوں پر کام کررہی تھی۔ اسے نیو لبرل معاشی اصلاحات کو اپنانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ مگر ترقی پزیر ممالک کی انتخابی سیاست نے نیو لبرل معاشی اصلاحات کے وسیع عملدرآمد میں رکاوٹ کھڑی کردی۔ مغرب کی درسگاہوں سے فارغ التحصیل مقامی اور بیرونی دانشوران اور پالیسی ماہرین تو شروع سے مقامی بیوروکریسی اور سیاسی اشرفیہ کی سست روی اور کرپشن سے شاکی تھے۔ مگر جیسے تیسے اپنے تئیںیہ اعلیٰ گروپ اس جوہری تبدیلی کے حصول میں لگا رہا۔ مگر غریبوں کی بڑی تعداد کو مارکیٹ کے مقدس نظریہ پر قائل کرنے میں ناکام رہا۔ اب یہ عوامی اکثریت بریانی کی دیگوں ، سرکاری نوکریوں، کچی آبادیوں کو باضابطہ، مفت بجلی کی فراہمی، کیش ٹرانسفر ، سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے قیام کے وعدوں پر ووٹ دیتی ہے۔ مارکیٹ کے انصاف پر اسے یقین کامل نہیں ہے۔ جن نو ترقی پزیر ممالک کا اس کالم کے شروع میں ذکر ہوا تھا، ان میں سے سات ملکوں میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں حکومت کر رہی ہیں اور دو میں بائیں بازو کی حکومتیں قائم ہیں۔ مگر سرپرستی کی سیاست کے حصول میں ،دائیںیا بائیں بازو ، دونوں طرز کی حکومتوں کے عمل میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو اقتدار چاہے کسی کا بھی ہو، دائیں بازو کی سیاست ہماری پچھتر سالہ تاریخ میں بالادست رہی ہے، ماسوائے اسلامی سوشلزم کے تجربے کے، جو پیپلز پارٹی نے 77-1972 میں کیا۔ اب اس دائیں بازو کے دور دورہ کی سرپرستی کی سیاست میں بائیں بازو یا ترقی پسند ، جیسے کہ بائیں بازو والے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے ہیں، کے بیانیے کی کوئی رمق نظر آتی ہے، تو وہ سرکار کی تخفیف غربت یا سماجی بہبود کی کاوشوں میں ہے۔اب چاہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو یا احساس کا کوئی پروجیکٹ ہو یا اور کوئی ایسی اسکیم ہو، یہ سب غریبوں پر مسابقتی مارکیٹ کے بوجھ کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی، معاشرتی اور معاشی استحکام میں بہتری ان کا دائرہ کار غریبوں کے لیے مزید وسیع کرنے سے ہونگی کم کرنے سے نہیں۔