سانحہ سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا بطور مسلمان پاکستانی میں بے حد رنجیدہ ہوں اور اس سانحے پر محسوس ہونے والی اذیت اور شرمندگی کو الفاظ پیرائے میں ڈھالنے سے قاصر ہوں۔پرنتھا کماراسری لنکا سے آیا ہوا پاکستان میں ہمارا مہمان تھا۔گزشتہ دس سال سے وہ پاکستان میں گارمنٹس فیکٹری میں کام کر رہا تھا۔فیکٹری کے کچھ ملازمین نے مبینہ طور پر سری لنکن جنرل منیجر کے خلاف توہین مذہب کا الزام لگا کر لوگوں کو اکٹھا کیا۔اس دوران مقامی پولیس کو اطلاع دی گئی لیکن وہاں پر صرف تین اہلکار پہنچے جو کہ سب سے پہلے انتظامیہ کی ناکامی اور نااہلی کا ثبوت ہے۔سانحے کی حساسیت کے پیش نظر پولیس کا چاک و چوبند دستہ پولیس کے اعلی افسر کی نگرانی میں پہنچنا چاہیے تھا ۔مذہب کے نام پر ہونے والا کوئی ہلکی نوعیت کا تصادم انتہائی حساس قسم کے بڑے سانحے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔جس کا اندازہ وہاں کے مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اول اول جب مقامی پولیس کو کال کی گئی تو جائے حادثہ پر پولیس کے صرف تین اہلکار پہنچے۔شہر میں کسی بدامنی کو روکنے کے لیے قانون کی عملداری پہلے ادارے پر پڑتی ہے وہ ضلعی پولیس ہے۔ امن وامان کے قائم کرنے میں پولیس ابتدائی اور بنیادی ادارہ ہے۔پاکستانی معاشرے میں جہاں بدقسمتی سے عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان میں مذہب کو فساد پیدا کرنے کے استمعال کیا جارہا ہے یہ بہت ضروری ہے کہ امن وامان کو قائم کرنے اور بدامنی کو روکنے کے لیے پولیس کا بنیادی ادارہ اس حساسیت کو سمجھے۔ اس نہج پر تربیت کی ضرورت ہے کہ ایسے کسی واقعے میں جہاں مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے رد عمل کتنی سرعت اور کس حکمت کے ساتھ دینا ہے تاکہ اس حادثے کی سنگینی کو بروقت روکا جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ تین پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ایک ہجوم جو چند لوگوں سے درجنوں بپھرے ہوئے افراد تک پہنچ گیا کسی بھی طرح ان کے قابو میں نہیں آ سکا۔یہ صرف اس حادثے کا ایک پہلو ہے اس حادثے کے کئی پہلو ایسے ہیں جہاں سوال ہی سوال سلگ رہے ہیں۔گیارہ سال پہلے 2010 میں سیالکوٹ میں دو نوجوان بھائیوں حافظ منیب اور مغیث کو ایسے ہی ایک بپھرے ہوئے، ہجوم نے ڈنڈے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ وحشت ناک مناظر لوگوں نے اپنے فون کے کیمروں میں ریکارڈ کیے، آج بھی شاید یوٹیوب پر موجود ہوں گے۔دو بیگناہ بھائیوں کو ہلاک کرنے والوں میں سات لوگوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی ان کی سزائے موت بعدازاں سپریم کورٹ نے عمر قید میں بدل دی۔اگر اس کیس میں قاتلوں کوعبرتناک سزا ہوجاتی تو شاید آئندہ کے لیے یہ بپھرا ہوا ہجوم اس طرح کسی کی جان لینے سے گریز کرتا۔قانون کی عملداری انصاف اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کی روایت ہمارے ملک کے نظام میں نایاب ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خود پنجاب پولیس کے ہاتھوں گولی چلتی ہے اور پاکستانی شہری مارے جاتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں قانون نافذ کرنے والے ادارے معصوم بچوں کے سامنے ان کے بے گناہ والدین کو گولیوں سے اڑا دیتے ہیں۔کراچی بلدیہ ٹاؤن کا سانحہ کسے بھول سکتا ہے کہ ظالم بھتہ نہ دینے پر 260 مزدوروں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ زندہ جلانے والے جس سیاسی جماعت کے کارندے تھے۔ ظلم اور سنگین ناانصافی پر مبنی یہ تمام واقعات پاکستان کے نظام پر سنگین سوال اٹھاتے ہیں۔ اس واقعہ کا ایک پہلو مذہبی عدم برداشت کا معاملہ ہے۔ پاکستان میں دن بدن مذہبی عدم برداشت بڑھتی کرتی چلی جا رہی ہے۔ میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ لوگ اپنے اپنے مسلک کے بارے میں پوسٹیں لگا کر دوسروں کو کافر اور غیر مسلم ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ اب عام سیدھی سادی گھریلو خواتین بھی مختلف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو ایسی مسلکی تقسیم کو پروان کے لیے استعمال کرتی ہیں۔غلطی کہاں ہوئی کہ پورا معاشرہ مذہب مسلک سیاست نظریات کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے بدترین عمل سے گزر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے آئینے میں آپ کی کٹس میں ڈھلتے ہوئے معاشرے کی بدصورتی تصویر دیکھ سکتے ہیں جہاں زبانیں مخالفین کے خلاف بسا اوقات گھونسوں اور خنجروں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔جہاں مذہب کے نام پر فساد پیدا کرنا آسان اور سہولت آمیز کام محسوس ہو وہ معاشرہ آتش فشاں کے دہانے پر موجود ہوتا ہے۔جہاں سینکڑوں لوگ کسی پر ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو تماشبین کی طرح نظارہ کرتے ہیں۔ ویڈیو بناتے ہیں، ان کے اندر احساس کی کوئی رمق بیدار نہیں ہوتی۔وہاں یہ سوال اٹھانا بہت ضروری ہے کہ غلطی کہاں ہوئی؟معاشرہ کیسے بے حسی کے اس زوال تک پہنچا ؟ ہمارے تعلیمی نصاب میں کوئی سنگین کمی تھی؟منبر اور محراب سے دیے جانے والے خطبوں میں کوئی سقم تھا۔اہل اختیار کی بنائی ہوئی پالیسیوں میں کہیں اس نا انصافی اور اس بے حسی کے بیج بوئے گئے۔ایسے کسی سانحے میں ملوث یا تماش بین کی طرح شریک ہجوم کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جائیں تو میرا یقین ہے کہ ان میں ننانوے اعشاریہ نو پرسنٹ افراد غربت جہالت اور بے روزگاری کے مارے ہوئے ملیں گے۔ آگ کہیں سے لگنی شروع ہوئی تھی، تو اسے بجھانے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھا۔بدقسمتی سے اس بڑھتی ہوئی آگ کے ساتھ معاشرے کے بہت سے اسٹیک ہولڈرز نے اپنے مفادات وابستہ کیے ہیں۔آگ پھر پھیلتی چلی جارہی اور راستے میں آنے والی ہر شے کو جلا کر راکھ کر رہی۔آتش فشاں کے دہانے پر موجود اس معاشرے کے سمت کو درست کرنے کیلئے لیے اب بھی کوئی آگے نہیں بڑھے گا۔ خدا کے لیے اب تو سوچئیے!!