یہ نہیں کہ ہم جیسوں کو جمہوریت، سویلین بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی ، آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق سے متعلق ’مغرب زدہ لبرلز‘ کے افکارو مطالبات سے اختلاف ہے ۔ تاہم فکر میںخیانت اور رویوں میںتضاد پانیوں کو گدلا دیتے ہیں۔ مغرب زدہ لبرلز میں اب وہ بھی شامل ہیں جو کسی زمانے میںرومان پسنداشتراکی تھے۔ چڑیا والے صاحب بھی کسی زمانے میں اِسی فکر کے مالک تھے ۔لگ بھگ پچاس برس قبل بلوچستان کے پہاڑوں پر ’پراریوں ‘ سے جا ملے تھے ۔ جنگ تو کیا خاک لڑتے، البتہ سخت کوشوں کی تفریح طبع کا سامان بن گئے۔سال 2001ء میں عالمی حالات بدلے تو ’مغربی استعمار‘ کی گود میں جا بیٹھے۔ سلامتی کے اداروں سے بغض سرشت میں شامل ہے ۔نواز شریف’ نظریاتی‘ ہوئے تواپنی خواہشات باپ بیٹی سے وابستہ کر لیں۔آج کل آئے روز’ ایک صفحے‘ کے پھٹنے کی خبر سناتے ہیں۔ حال ہی میںجھنجھلاکراپنے ٹی وی پروگرام میں بولے،’ اب جو جلوس اسلام آباد پر یلغار کرے تو ہجوم کو ایک ’پودا بھی توڑے بغیر‘ واپس جانے کی بجائے،گملے ہی نہیں (انسانوں کے) سر توڑنے چاہئیں‘۔ ایک اور نامور صحافی بھی اب’ انقلاب‘ میں ہی نجات دیکھنے لگے ہیں۔چڑیا والے صاحب ایک جہاندیدہ (Worldly wise) شخص، جبکہ دوسرے جن کا ذکر کیا ہے متین طبع اور سلجھے ہوئے صحافی ہیں۔ہر دو کسی نصیحت کے محتاج نہیں۔الیکٹرانک اور اس کے بعد سوشل میڈیا کے ظہور کے نتیجے میںخود رَو جھاڑیوں کی طرح اُگ آنے والے میڈیا ایکٹیوسٹس (Activists)کو مگر کون سمجھائے کہ جھوٹ اور فکری بد دیانتی کی بنیاد پر انتشارتو برپا کیا جا سکتا ہے،کسی’انقلاب‘ کی راہ تکناخود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔انتشارکے نتیجے میںطاقتور ایلیٹ تو اقتدار میں واپس لوٹ سکتے ہیں، اعلیٰ اور ارفع مقاصدکا حصول ہرگز ممکن نہیں۔ گلگت کے سابق چیف جج کا مبینہ بیان حلفی سامنے آیا توکھڑے کھڑے میاں صاحب کے سرخرو ہونے کا اعلان کر دیا گیا ۔ ابھی دھول بیٹھنے نہیں پائی تھی کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان سے منسوب ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ سامنے آ گئی ۔رانا صاحب کا بیانِ حلفی تقریباََ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ کل کلاں رانا صاحب لندن میں واقع لاکر میں ہاتھ ڈال کر کچھ برآمد کر لیں توہم کچھ کہہ نہیں سکتے، فی الحال تو صاحبزادے ٹی وی اینکرپرسنز کی تفریح طبع کا سبب بنے ہوئے ہیں۔جسٹس ثاقب نثارآڈیو ریکارڈنگ کے مندرجات کو جھوٹ قرار دے چکے ہیں۔ٹیپ کی تکنیکی صحت سے متعلق سنجیدہ شکوک و شبہات موجود ہیں۔یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ گفتگو کس نے ریکارڈ کی اور کن ذرائع سے امریکہ میں مقیم صحافی تک پہنچی۔ریکارڈنگ کو اب تک کسی عدالت میں بطور گواہی پیش نہیں کیا جا سکا۔ سپریم کورٹ آڈیو ویڈیو مواد کے بطور گواہی (Admissible Evidence) قبول کئے جانے سے متعلق اپنے ایک فیصلے میں کچھ نکات صراحت سے طے کر چکی ہے۔ آڈیو ،ویڈیو ریکارڈنگ کی عدالت میںقبولیت کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ ریکارڈ کرنے والا فرد مواد کو لے کر ذاتی طور پر عدالت میںپیش ہو۔جسٹس کھوسہ کا لکھا ہو افیصلہ ،سال 1984ء میں دیئے جانے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کاہی تسلسل تھا۔ ہماری ہمدردیاں ہر اس فرد کے ساتھ ہیں کہ جسے کسی بھی بناپر انصاف سے محروم رکھا گیا ہو۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی یقیناََیہی سمجھتے ہیں کہ انہیںعدالتوں سے بوجہ انصاف نہیں ملا۔ان کے حامیوں کا بھی یہی خیال ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شریف خاندان کو غیر معمولی ریلیف بھی ہمیشہ انہی عدالتوں سے ملا۔لہٰذا انہی عدالتوں پر انہیں اب بھی اعتبارکرنا ہو گا۔ اس کے بر عکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزِ اول سے ہی قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے ’دیگر ذرائع‘ پر انحصار کیا جا رہا ہے۔قانونی جنگ لڑنے کی بجائے بے یقینی کی دھول اڑائی جا رہی ہے ۔ بظاہرعدالتوں کے اندر نہیں عدالتوں سے باہر ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سلامتی کے اداروں سے مخاصمت کی تاریخ رکھنے والے وکلاء رہنمائوں اور ان کے زیراثر تنظیموں ، مخصوص میڈیا ہائوسز اور مخصوص میڈیا ایکٹوسٹس کے ذریعے ریاست کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یاد رکھنے کی بات مگر یہ ہے کہ حکومت کی تمام تر نا اہلیوں کے باوجودریاست کو اس قدر کمزور سمجھنا درست اندازہ نہیں ہے۔ہماری رائے ہے کہ ہر شخص کو اپنے خلاف مقدمات میں اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ تاہم اس حق کو قانون کے دائرے کے اندر ہی استعمال کرنا قرینِ انصاف ہے۔ عدالتوں پر دبائو کسی ادارے کی جانب سے ہو، کسی پارٹی کی طرف سے ہو یا فیصلوں پر اثر اندازہونے کی کوشش کسی ایک با اثر خاندان کی جانب سے ہو،کسی طور پر بھی جائز نہیں۔ اگرچہ شہباز شریف اور ن لیگ میں سنجیدہ فکرزعماء ریاست کو دبائو میں لانے کی کسی کوشش سے بظاہرلاتعلق نظر آرہے ہیں، تاہم بڑے میاں صاحب کے زیرِ اثر گروہ اپنی سرگرمیوں سے پیچھے ہٹنے کوتیار دکھائی نہیں دیتا۔ رانا صاحب کا بیانِ حلفی اور ایک صحافی کی جاری کردہ ویڈیو اسی سلسلے کی کڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔ رانا صاحب اپنے بیانِ حلفی کو پہچاننے سے انکار کر چکے ہیں ، جبکہ ثاقب نثار صاحب سے منسوب مبینہ آڈیو خود مریم صاحبہ کی یکے بعد دیگرے’لیک‘ ہونے والی آڈیوزکے نتیجے میں پسِ پشت جا چکی ہے۔اسی پس منظر میں معاملے کو زندہ رکھنے کے لئے دو نئے شوشے چھوڑے گئے۔ ایک طرف یہ الزام عائد کیا گیا کہ’نامعلوم افراد‘ کی جانب سے آڈیو کا فرانزک کرنے والی امریکی فرم کو رپورٹ کے مندرجات تبدیل کرنے کے لئے دھمکی آمیز پیغامات دیئے گئے ، تو دوسری جانب لاہور میں ایک خاتون صحافی پر ’نامعلوم افراد ‘کی جانب سے کئے گئے حملے کے تانے بانے بھی مذکورہ آڈیوسے جوڑ دیئے گئے۔اس بابت مریم نواز صاحبہ اورچند مخصوص میڈیا ایکٹوسٹس کے ٹویٹر اکائونٹس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکی فرم کو دھمکیوں والا مضحکہ خیز الزام اپنی موت آپ مر چکا ہے اورخاتون صحافی نے شوہر سے علیحدگی کی درخواست دائر کر دی ہے۔خاتون کی جانب سے خلع کے لئے دائر کی گئی درخواست کے بعد متذکرہ صحافی نے سوشل میڈیا پرجوغیر اخلاقی زبان لکھی ہے وہ نہایت قابلِ افسوس ہے۔ مخصوص میڈیا ایکٹوسٹس کی خانگی الجھنوں کے لئے بھی اب دوسرے ہی ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے؟ ’خواہشات کی چڑیا‘کو اڑانے والی مستنثیات کو چھوڑ کرجمہوری اقدار کے لئے جدو جہد کرنے والے جمہوریت پسند لبرلز کو کسی بھی نام سے پکارا جائے ، اُن کے افکار اور نظریات سے کوئی ذی شعور شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔ تاہم خونریز انقلاب کی راہ تکنے، جھوٹ کے ذریعے انتشار پھیلانے والے عناصر اور انتشارکے ذریعے ریاست کو دبائو میں لانے کی کوششوں میں مصروف ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ا پنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔