صاحب،شرافت کسی کی میراث نہیں۔کبھی تو یہ نجیب الطرفین لوگوں میں بھی نہیں ملتی اور کبھی نہایت غیر متوقع طور پر چوروں، ڈاکوئوں اور راہزنوں میں مل جاتی ہے۔ مثال کے طور پر گلبرگ (لاہور) میں رہائش پذیر جناب پروفیسر عبدالمنان کی کوٹھی پر ڈاکہ ڈالنے والے پانچوں مسلح حضرات نے اپنے پیچھے پائوں کے نشانات تو نہیں چھوڑے البتہ شرافت کے اَنمٹ نقوش ضرور چھوڑے ہیں۔ پروفیسر صاحب اور اُن کے اہل خانہ کے ساتھ اُن کا سلوک مثالی اور دوسرے ڈاکوئوں کے لیے قابل تقلید تھا۔ وہ اُنھیں مخاطب کرتے وقت ’’آپ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے۔ حالانکہ ڈاکوئوں کی لغت میں یہ لفظ سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پروفیسر صاحب کی مالی حالت پر ازراہ ہمدردی شدید تشویش کا اظہار کیا اور انھیں مالی حالت بہتر بنانے کے لیے چند انتہائی مفید مشورے بھی دیے۔ مثلاً یہ کہ ’’قبلہ پروفیسر صاحب! آپ پروفیسری پر تین حرف بھیجئے اور یہ کوٹھی بیچ کر کوئی سکول کھول لیجئے۔ تین ہزار کے قریب فیس رکھیں اور پانچ سات سو بچے جمع کر لیجئے اور کمائیے مہینے کے بیس پچیس لاکھ روپے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آئندہ آپ کے گھر ڈاکے کی نیّت سے تشریف لانے والے اصحاب کو اس شدید مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو آج ہمارا مقدر بنی ہے۔‘‘ پروفیسر صاحب کو یہ قیمتی مشورہ دینے کے بعد وہ برسرِ مطلب آئے اور اُن سے کہا: ’’سر! آپ کے ہاتھوں آج تک کئی طالب علم، کسٹمز انسپکٹر، انکم ٹیکس انسپکٹر، تھانیدار، کرپٹ سیاستدان اور تاجر وغیرہ بن کر نکلے ہوں گے۔ کیا آپ براہِ کرم ہمیں ان میں سے چند ایک کے ہوم ایڈریس معہ ٹیلی فون نمبر عنایت فرما سکیں گے؟‘‘ اس کے جواب میں جب پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ میں اپنے طالب علموں کے بارے میں ایسا کوئی ریکارڈ نہیں رکھتا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ پروفیسر صاحب کی ناعاقبت اندیشی کا خوب ماتم کرنے کے بعد بولے: ’’اچھا تو ہم چند گھنٹوں کے لیے آپ کی کار لے جا رہے ہیں۔ آپ کی بچی سے جو تین سو روپے ہم نے ازراہِ مذاق چھینے تھے وہ اُسے واپس کر دیے ہیں اس لیے کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ ہم اتنے بھی گئے گزرے ڈاکونہیں کہ معصوم بچوں سے ان کی پاکٹ منی چھین لیں۔‘‘ پروفیسر صاحب اُن کی شرافت اور نجابت کے اس قدر قائل ہوئے کہ چپکے سے کار کی چابیاں ڈاکوئوں کے حوالے کر دیں اور اطمینان سے سو گئے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ڈاکے کی تفصیلات پڑھ کر نہ تو میرے رونگٹے کھڑے ہوئے اور نہ اختلاج قلب کا دورہ پڑا بلکہ میرا سر اُن شریف النفس ڈاکو صاحبان کے حضور احتراماً جھک گیا۔ میری خواہش ہے کہ کسی شب بارہ بجے کے بعد وہ میرے ہاں بھی تشریف لائیں اور مجھے خدمت کا موقع دیں۔ اگر وہ خود یہ کالم پڑھ لیں تو بلا جھجک غریب خانے پر تشریف لے آئیں۔ نہ صرف انھیں کچھ کہا نہیں جائے بلکہ دامے، درمے سُخنے اُن کی معاونت بھی کی جائے گی۔ اگر وہ آنے سے پہلے مجھے فون کر دیں تو اور ابھی اچھا ہے تاکہ میں ان کا شایانِ استقبال کرنے کے لیے دروازے پر ہار لیے کھڑا ہو جائوں۔ اگر وہ مین گیٹ کے بجائے کسی کھڑکی کی آہنی گِرل توڑ کر تشریف لانا چاہیں تو۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرے مکان کی وہ کھڑکی جو ایک ڈی ایس پی صاحب کی کوٹھی کی جانب کھلتی ہے، نہایت کمزور ہے۔ اس میں لگی ہوئی گرل بظاہر لوہے کی ہے لیکن پچھلے بیس سال میں روغن نہ ہونے کی وجہ سے لوہے کو زنگ نے یوں چاٹ لیا ہے کہ کمزور سے کمزور ڈاکو بھی اسے بائیں ہاتھ سے توڑ سکتا ہے۔ پھر بھی اگر دِقّت محسوس ہو تو باہر سے آپ حضرات زور لگائیے گا، اندر سے یہ خاکسار اپنی سی کرے گا اور یوں ہم مل کر گرِل معہ کھڑکی اُکھاڑ پھینکیں گے۔ لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ میری اُس پُر خلوص دعوت کو قبول کرنے کے بجائے معذرت فرما لیں گے۔ عبدالمنان صاحب کے گھر جا کر آپ کو جس شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا وہ خبر کے متن سے ظاہر ہے۔ آپ یقینا نہیں چاہیں گے کہ دوبارہ کسی پروفیسر کے گھر ڈاکے کی نیت سے داخل ہونے کی کوشش کریں۔ لیکن جناب والا! پیسہ اور مال ودولت ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا۔ عقیدت مندوں کے خلوص کی بھی کچھ قدر ہونی چاہیے۔ ممکن ہے میں آپ کی خدمت میں قیمتی تحائف نہ پیش کر سکوں لیکن میں آپ کو کئی کسٹمز انسپکٹروں، انکم ٹیکس انسپکٹروں، تھانیداروں، پٹواریوں، تاجروں اور گداگروں کے ایڈریس دے سکتا ہوں جن کے گھروں میں ہزار ہزار کے نوٹ یوںرُلتے پھرتے ہیں جسے پروفیسروں کے گھروں میں شعری مجموعے اور ادبی رسالے۔ بہر حال میں آج ہی اپنے پرانے شاگردوں سے رابطے کی مہم شروع کر رہا ہوں تاکہ اُن سب کے ہوم ایڈریس اکٹھے کر سکوں۔ ٭٭٭٭٭ میرے ایک کالج کے زمانے کے دوست صوفی حفیظ الدین نے جو میاں چنوں کے رہائشی ہیں ہمیں نو تصاویر ایک خط کے ہمراہ بھیجی ہیں ۔ اس سے پہلے کہ ہم صوفی صاحب کا شکریہ ادا کریں، آپ یہ سن لیں کہ ان تصاویر کا پسِ منظر کیا ہے۔ ہوا یوں کہ ایک روز صوفی صاحب ناشتے کا سامان خریدنے کے لیے ایک جنرل سٹور پر گئے۔ اچانک انکی نظر اشتعال انگیز تصویروں پر پڑی۔ انھیں دیکھ کر صوفی صاحب کا مشتعل ہو جانا بالکل قدرتی امر تھا۔ چنانچہ وہ اشتعال میں آ گئے اور ہمارے نام ان کا خط اسی اشتعال کا نتیجہ ہے۔ بقول ان کے خواتین کی یہ نیم برہنہ اور برہنہ تصاویر ایک جنرل سٹور میں ایک ایسی نمایاں جگہ پر لگی ہوئی ہیں کہ سٹور میں سودا خریدنے والی خواتین کی نظر غیر ارادی طور پر ان تصویروں پر پڑ جاتی ہے اور کافی دیر تک پڑی رہتی ہے۔ مردوں کی تو چلیں خیر ہے، یہ سودا خریدنے والی خواتین کون ہیں؟ ہماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں اور بعض حضرات کی بیویاں۔ ان تصویروں سے جس قسم کی ترغیب ملتی ہے، وہ یا صوفی صاحب بتا سکتے ہیں یا ہم کہ ہمارے سامنے ان کی کاپیاں پڑی ہیں۔ ہوا یوں کہ جب صوفی صاحب نے یہ تصویریں دیکھیں تو اپنا موبائل فون نکال کر دکان دار کی نظریں بچا کر ان تصویروں کی تصویریں لے لیں۔ اسے تصویر در تصویر کہتے ہیں۔ باہر نکل کر ایک فوٹو گرافر سے ان کے پرنٹ حاصل کر لیے اور سب تصویروں کا ایک ایک پرنٹ ہمیں بھیج دیا اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ ہم اپنے کالم کے توسط سے حکومت کی توجہ ان ضمیر فروش اور بے حس لوگوں کی مذموم سرگرمیوں کی طرف مبذول کروائیں جو صرف دولت کمانے کی خاطر، معاشرے میں عریانی اور بے حیائی پھیلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تصویریں اکثر دکانداروں کے شو کیسوں میں لگی نظر آتی ہیں جنھیں صوفی صاحب بچشم خود اور بقائمی ہوش و حوا اس بار بار دیکھ چکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ صوفی ہونے کی وجہ سے ان کے ہوش و حواس ابھی تک قائم ہیں۔