مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں مجموعی ملکی پیداوار کو 3000 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ معاشی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی‘ قومی آمدنی میں کمی ہوئی اور رواں سال کورونا کے باعث کوئی ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی کی نسبت امسال معاشی حالات کافی خراب رہے ہیں ، کورونا کے باعث کاروباری سرگرمیاں بالکل بند رہی ہیں، جس کے باعث حکومت کو حالیہ بجٹ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا کے بعد رہی سہی کسر ٹڈی دل نے نکال دی ہے۔ اس حوالے سے قومی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سروے میں بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران برآمدات صفر فیصد بڑھیں۔ سابق حکومت نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے سستا رکھا جس سے درآمدات برآمدات سے دوگنا ہو گئی تھیں،اس کے علاوہ شرح نمو بھی بڑھائی گئی تھی۔ گو موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات کو جوڑا لیکن اس میں اپنے مفادات کو مقدم رکھا۔ موجودہ حکومت جاری کھاتوں کے خسارے کو 20 ارب روپے سے کم کر کے تین ارب روپے تک لائی ہے جو واقعی قابل تحسین ہے۔ حکومت نے کسانوں سے 280 ارب روپے میں گندم خریدی ہے جبکہ کورونا کے باعث جھوٹے کاروباری کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے 3 ماہ تک بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا ہے۔ اس سے چھوٹے طبقے کے کاروبار بند ہونے سے بچ گئے ہیں، بیروزگاری بھی کمی واقع ہوئی ہے اور لاکھوں گھروں میں چولہے چلتے رہے ہیں۔ اسی طرح کسانوں کو کھادوں پر سبسڈی فراہم کی گئی ہے۔ مشکل حالات میں غریبوں کو بھوک سے بچانے کے لیے یوٹیلیٹی سٹور پر پچاس ارب روپے کا ریلیف فراہم کیا گیا۔ اسی طرح کم آمدنی والوں کو گھر فراہم کرنے کے لیے تیس ارب مختص کئے گئے۔ کنسٹریکشن انڈسٹری کے لیے بھی مراعاتی پیکیج دیا گیا۔ اقتصادی سروے میں درحقیقت عوام کو ملکی اقتصادی صورتحال سے باخبر رکھا جاتا ہے ، گزشتہ برس حکومت نے جو وعدے کئے تھے آیا وہ پورے ہوئے یا پھر ابھی تک کوئی کمی بیشی ہے۔ وطن عزیزمیں اقتصادی سروے کی روایت تو موجود ہے لیکن عوام کو اصل حقائق سے باخبر نہیں رکھا جاتا۔ ہر حکومت آمدنی اور اخراجات کے حقیقی اعداد و شمار عوام سے چھپا کر من پسند کی تصویر پیش کرتی ہے تاکہ اس کی تحسین ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد غریب لوگوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کے لیے انہیں گائیں‘ بھینس اور مرغیاں پالنے کا کہا تھا اس سلسلے میں حکومت نے غریب کی مدد بھی کی تھی جس پر نہ صرف اپوزیشن جماعتوں بلکہ بعض عوامی طبقوں کی جانب سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن ایک برس کے بعد ہی اقتصادی سروے میں ان کے ثمرات سامنے آ گئے ہیں۔ ایک برس میں بھیڑوں کی تعداد میں 3 لاکھ اضافہ ہوا جبکہ بکریوں کی تعداد 21 لاکھ اضافے کے ساتھ 7 کروڑ 61 لاکھ ہو گئی ہے۔ اسی طرح پولٹری کی تعداد میں 12 کروڑ 20 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، جو لوگ وزیراعظم کے بھینس‘ گائیں‘ بکریاں اور مرغیاں پالنے کے منصوبے پر تنقید کرتے تھے انہیں آج اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے بعد کم از کم اپنے الفاظ واپس لینے چاہئیں۔ یہ منصوبے صرف نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہیں۔ اسی طرح حکومت نے سابق حکومتوں کے پانچ ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ مستحق خاندانوں میں امداد تقسیم کی گئی ہے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو حکومت نے نامساعد اور مشکل حالات میں اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود سے بھرپور کام کیا ہے۔ مستقبل میں اگر کاروبار کھلتے ہیں اور بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کا ٹوٹا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پھر امید ہے کہ انشاء اللہ یہ بحران ختم ہو جائے گا اور حکومت مشکلات سے نکل آئے گی۔ کورونا کے باعث پونے تین کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ ہول سیل، اور یٹیل ٹریڈ اور اوورسیز پاکستانیوں کے مستقل بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت کو ان افراد کی مشکلات کا ازالہ کرتے ہوئے ان کی بھی مدد کے لیے کوئی پیکیج متعارف کروانا چاہیے تاکہ معاشرے میں بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ ماہی گیری کی نمو میں 0.60 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ جنگلات کی شرح بھی 2.29 فیصد بڑھی ہے۔ گو حکومت نے جو اہداف مقرر کئے تھے انہیں حاصل کرنے میں وہ لگی رہی لیکن بدقسمتی سے کورونا نے آکر حکومت ترقی کی رفتار کو بریک لگا دی جس کے باعث آج حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی مشکلات کاشکار ہے۔ آنے والے دنوں میں کورونا کے باعث نہ صرف عوام بلکہ ہماری معیشت کا بھی نقصان ہوسکتا ہے۔ اس لیے حکومت کو نہ صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے عوام پر ضرور دبائو ڈالنا چاہیے بلکہ بجٹ میں خصوصی فنڈ بھی مختص کئے جانے چاہئیں تاکہ ایمرجنسی کے حالات میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکومت کی اقتصادی جائزہ رپورٹ مشکلات کے باوجود کافی حوصلہ افزا ہے لیکن آنے والے مالی سال میں اس میں مزید بہتری لانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔اس سال جو کمی بیشی رہ گئی ہے اسے آئندہ برس مکمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہمارا آنے والا مالی سال گزشتہ برس سے بہتر ہوسکے۔