جمعرات کا دن لاہوریوں کے لئے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ویسے تو یہ دن تصوف ، خانقاہوں اور مزارات کے حوالے سے ہر جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ہم سمجھتے تھے کہ صرف پاک وہند میں جمعرات کو اہم سمجھا جاتا ہے، استنبول گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی صوفی اس دن کے خاص قسم کے تقدس کے قائل ہیں۔ ہمارے خطے میں تبلیغی جماعت نے بھی’’ شب جمعہ‘‘ کے بیان کے لئے جمعرات کی شام کا انتخاب کیا۔ ہر جگہ تبلیغی مراکز میں مغرب کی نماز کے بعد تبلیغی سرگرمی شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارے تبلیغی دوست جب کسی کو ’’وقت لگانے‘‘ کی ترغیب دیتے ہیں تو آغاز چلہ یا عشرہ لگانے سے کرتے ہیں،ا ختتام سہہ روزے پر کیا جاتا ہے ، کہا جاتا ہے،’’ہمت کر کے ایک سہہ روزہ(تین دن)لگا لیں‘‘ جب یہ تیر بھی نشانے پر نہ لگے تو بڑی محبت سے شب جمعہ کے بیان پر آنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ عام طور سے یہ وار خطا نہیں جاتا اور ہمارے جیسے سخت دل بھی اس پر پسیج جاتے ہیں۔ سرائیکی میں جمعرات کو خمیس کہا جاتا ہے۔جمعرات کو پیدا ہونے والے خمیسو بھی کہلاتے ہیں، سرائیکی وسیب میں اس نام کے کئی بچے مل جاتے ہیں۔ ملتان میں بعض سرائیکی قوم پرست احباب نے’’ خمیس یاترا ‘‘کے نام سے ایک سرگرمی شروع کر رکھی ہے۔معروف سرائیکی ادیب اور پی ٹی وی ملتان کے سکرپٹ رائٹر باسط بھٹی نے ایک بار اس کی تفصیل بتائی تھی۔ وہ جمعرات کی شام ملتان شہر کے کسی تاریخی مقام کا وزٹ کرتے اور پھر اس حوالے سے خصوصی نشست رکھتے ہیں۔ اسے بعض دوست تاریخ کا کھوج لگانا بھی کہتے ہیں، بقول ان کے خمیس یاترا کے ذریعے ہم اپنی کھوئی ہوئی تاریخ کو بازیاب کر رہے ہیں۔ خیر بات لاہو رکی ہورہی تھی، اس شہر نگاراں میں جس بزرگ ہستی کے گہرے مگر نظر نہ آنے والے اثرات موجود ہیں، وہ غزنی کے عظیم روحانی بزرگ سید علی عثمان ہجویری ؒ ہیں، ایک زمانہ انہیں داتا گنج بخش کہتا ہے، لاہوریوں کے لئے وہ داتا صاحب ہیں۔ مولوی صاحبان جو کچھ کہتے رہیں،فقیہہ شہر کے اپنے ترازو اور حساب کتا ب ہوتے ہیں۔درد ِ دل رکھنے والوں کا یہ معاملہ نہیں، اسے لفظی مفہوم سے غرض نہیں ، ظاہر ہے کوئی مسلمان شرک کا تو سوچ بھی نہیں سکتا، حضرت علی ہجویری کو داتا صاحب کہنے والے انہیں کسی خاص مفہوم میں نہیں بلکہ اپنی محبت اور اپنائیت کے ایک رشتے میں ایسا پکارتے ہیں۔لاہوریوں کے لئے وہ ایک ایسے سایہ شجردار ،مہربان بزرگ(Father Figure)کی حیثیت رکھتے ہیں، جس کا کوئی اورمتبادل نہیں۔ لاکھوں لوگ ہیں جو روحانیت کے اس مرکز کا رخ کرتے اور وہاں سکون پاتے ہیں۔ گزشتہ روز یعنی جمعرات کی دوپہر ہم بھی داتا دربار حاضری کیلئے پہنچے۔ خوش نصیب تھے کہ بلاوا آیااور وہاں جانے کی سبیل ہمارے دوست ضیاالحق نقشبندی بنے۔ ضیاالحق نقشبندی نہایت متحرک اور فعال انسان ہیں۔ اصلاً ان کا تعلق دینی مدارس سے ہے، جامعہ نعیمہ کے ترجمان رہے، انہی دنوں مختلف جرائد ، اخبارات میں لکھنا شروع کیا۔تصنیف وتالیف کی طرف آئے، حامد میر پر ایک مبسوط کتاب لکھ ڈالی۔ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی ،طلبہ کے لئے کئی فری پروگرام منعقد کئے، پہلی بار کسی کو مدارس کے طلبہ کیلئے سی ایس ایس کی تیاری واسطے فری کلاسز کا خیال آیا ہوگا۔ضیا نقشبندی پچھلے چند برسوں سے باقاعدہ صحافت میں کود پڑے، ایک اخبار میں کالم لکھ رہے ، رمضان میں دینی پروگرام کیا تو بڑے منفرد موضوعات پر اہل علم کو بلایا ۔ آلودگی، ٹریفک قوانین کی پابندی سمیت کئی اور اہم معاشرتی ایشوز پر پروگرام کئے ۔نقشبندی سلسلہ طریقت سے تعلق ، مگر مزاج میں چشتی مٹھاس ہے۔تنازعات سے دور،محبت پھیلانے کے قائل، آج کل متحدہ علما بورڈ، حکومت پنجاب کے کوآرڈینیٹر ہیں۔انہوں نے دعوت نامہ بھیجا کہ صوبائی وزیر برائے اوقاف پیر سعید الحسن شاہ کے زیر صدارت جمعرات کو داتا دربار میں اہل قلم داتارعلی ہجویری نشست ہوگی ۔ ترغیب کو مزید پرکشش بنانے کیلئے ’’دعوت لنگر داتا صاحب‘‘کا اضافہ بھی شامل تھا۔کچھ اپنے فطری تساہل اور کچھ صحافتی مصروفیت کی وجہ سے تقریبات میں کم جاتا ہوں۔ اس ’’خمیس یاترا ‘‘میںمگر عجب کشش محسوس ہوئی، وہاں گیا اور سچ تو یہ ہے کہ اپنے اس فیصلے پر خوشی اور اطمینان ہوا۔ ایک کمرے میں محدود نشست تھی، دس پندرہ لوگ ہی شریک تھے، محفل مگر خوب جمی۔ کئی سینئر صحافی شریک ہوئے،جناب سجاد میر ،مولوی سعید اظہر،حفیظ اللہ نیازی، سعید آسی،واصف ناگی،امجد اقبال، فضل اعوان،عابد تہامی ،اعجاز حفیظ، افضال ریحان ، حافظ زوہیب اور بعض دیگر احباب موجود تھے۔ سعید اظہر شدید علالت سے حال ہی میں صحت یاب ہوئے، کمزوری کے باوجود وہ آئے، کہنے لگے کہ یہ نشست مس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حفیظ اللہ نیازی کاہمارے ساتھ بڑے بھائیوں والا مشفقانہ تعلق ہے۔چند دن پہلے ان کے صاحبزادے کی شادی ہوئی۔عمران خان کے ساتھ حفیظ اللہ نیازی اور ان کے بھائی انعام اللہ نیازی کے شدید سیاسی اختلافات ہیں، ماضی میں ہمیشہ اکٹھے رہنے والے اب کوسوں دور ہیں۔دولہا حسان نیازی عمران خان کا بھانجااور ان کا پرجوش پیروکار ہے۔ وزیراعظم تقریب میں شامل نہیں ہوئے تھے، حفیظ اللہ نیازی سے اس کی وجہ پوچھی، وہ خاصے دل گرفتہ اور مایوس نظر آئے،مگر کچھ زیادہ بولنے سے گریز کیا۔ پیر سعید الحسن شاہ گورنمنٹ کالج کے اولڈ راوین ہیں، پتہ چلا کہ عربی ، فارسی سمیت پانچ زبانیں جانتے ہیں۔ خوشگوار حیرت ہوئی جب انہوںنے بڑی عمدہ قرآت سے تلاوت قرآن پاک اور پھر نعت شریف کے چند اشعار سنا کر محفل کاآغاز کیا ۔زیادہ تر گفتگو تصوف پر ہی کرتے رہے۔ نسبت اور تصرف کے حوالے سے اپنے اکابر کے اقوال سنائے اور ان دونوں حوالوں سے قرآنی استدلال کے ذریعے بات واضح کی۔ اہل سنت کا یہ معروف نظریہ ہے، مگر ہمارے ہاں جو حلقہ تصوف سے فاصلے پر رہتا ہے، ان کے لئے بات ہضم کرنا آسان نہیں۔ کن انکھیوں سے دیکھتا رہا ،بعض احباب کسمساتے ، پہلو بدلتے رہے، مگر پیر سعید الحسن نے بات ایسے نرم انداز اور علمی شائستگی سے کی کہ اختلاف کی گنجائش نہ نکل پائی۔ پیر سعید الحسن نے اوقاف کے حوالے سے سترہ نکات پر محیط ایک مبسوط پالیسی تیار کی ہے، اسے نیا پاکستان ویژن برائے اوقاف ڈیپارٹمنٹ کا نام دیا گیا۔ بتانے لگے کہ میں نے وزیراعظم عمران خان کو اس پر بریفنگ دی تو شروع کے چار پانچ نکات سننے کے بعد خان صاحب بول اٹھے کہ یہ سب ہی تو میں چاہتا ہوں ۔وزیر موصوف کے کہنے کے مطابق وزیراعظم کی سپورٹ ہمیں حاصل ہے اور انشااللہ اپنی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ ان میں سے بعض نکات بہت عمدہ اور دلچسپ ہیں۔ پہلا نکتہ ہے کہ محکمہ اوقاف سے کرپشن کاہر حال میں خاتمہ کرنا ہے۔اس مقصد کے لئے روایتی گلہ کی جگہ پر الیکٹرانک کیش ڈیپازٹ باکسز کی مزارات میں تنصیب، مزار پر موجود ملازمین کی مانیٹرنگ اور ٹریکنگ کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال،اوقاف کی غیر استعمال شدہ زمینوں پر درخت لگوانا،قبضہ جات کا خاتمہ،مسنگ سہولتوں کی فراہمی، موجودہ سہولتوں کواپ گریڈ کرانا،پنجاب کے تمام مزارات پر زائرین کے لئے شیلٹر ہائوسز کی تعمیر،مزارات میں تصوف اکیڈیمیز شروع کرانا،محکمہ کی ویب سائیٹ کو بھرپورانداز میں اپ ڈیٹ کرنا،سٹاف کی ریکروٹمنٹ کا شفاف طریقہ کار وغیرہ۔پیر سعید الحسن نے ایک اہم بات کی کہ ترکی اور دنیا کے کئی اور ممالک کے مزارات اور مذہبی مراکز میں جوتیاں رکھنے کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا، سکھوں کی عبادت گاہوں کا حوالہ دیا کہ وہاں جائو توواپسی پر پالش شدہ بوٹ ملتے ہیں ، مگر ہمارے ہاں داتا دربار سمیت دیگر مزاروں پرپاپوش(جوتی)رکھنے والے زائرین کو اوور چارج کر کے تنگ کرتے ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ پنجاب کے مزارات پر بھی فری سسٹم بنایا جائے۔ اس اوقاف پالیسی میں لاہور کی سیرت اینڈتصوف یونیورسٹی کا نکتہ بھی شامل ہے۔ بعد میں کھانے پر بھی اس پر بات ہوتی رہی۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ صوفی یونیورسٹی کا پراجیکٹ بہت اہم ہے ، وہ اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں، مگر ان کا خیال تھا کہ ایچ ای سی کے روایتی سسٹم میں اس کا نصاب بنانا ممکن نہیں، اس کے لئے تصوف کے اہل علم سے رہنمائی لینی چاہیے۔ ایک بات پر وہ بار بار زور دیتے رہے کہ تصوف دینی تعلیم کا حصہ ہے، اسے الگ سے کرنا لارڈ میکالے کی سازش تھی جو ڈیڑھ سو سال پہلے اس نے کی۔ان کا ماننا تھا کہ تصوف قرآن وسنت کا نچوڑ ہی ہے اور اسلامیات کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ مجھے یہ بات سن کر غامدی سکول آف تھاٹ کے لوگ یاد آئے، جن کی پوری کوشش ہی تصوف کو دین کا متوازی نظام ثابت کرنا ہے۔ یہ اور بات کہ ان سے بات بنی نہیں ، اس لئے کہ تصوف حقیقت میں سیرت طیبہ کا ایک عکس ہی ہے، آپ ﷺ کی منور شخصیت کو کاپی کرنے، رول ماڈل بنا کر اپنے اندر وہی خصوصیات پیدا کرنے کی سعی کانام تصوف ہے ۔ صوفیوں نے ہمیشہ اسی کا درس دیا اورطریقت دراصل شریعت کی راہ پر اچھے طریقے سے چلنے کے قابل بنانے کا نام ہے۔ کاش وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم، صوبائی وزیراوقاف اور ان کا محکمہ لاہور میں صوفی یونیورسٹی کی صورت میں ایک رہنما ادارہ بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ کیا خبر کہ اس نیکی کا اثر عمران خان کی حکومت کے دیگر شعبوں میں بھی منعکس ہو ، وہ ڈیلیور کرنے میں کامران ٹھیریں ۔کیا خبرکہ ایسا ہو ہی جائے۔