دروغ برگردن مرشدی یوسفی، قصبہ دھیرج گنج کے ہیڈ ماسٹر مولوی مظفر، جو اختصار، پیار اور حقارت سے مولی مجن کہلائے جاتے تھے، بشارت علی فاروقی کو بشارت دیتے ہیں کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر اندر انہیں ہر طرح کا سالن پکانا اور ادھڑا ہوا رفو کرنا سکھا دیں گے تو واللہ انہیں ساری عمر بیوی کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ یہ مرشدی ہی کا ، جنہیں ایک بیوی بھی زائد از ضرورت محسوس ہوتی تھی، فیضان ہے کہ شادی کے مندرجہ بالا فوائد کی روشنی میں ہم جیسے سعادتمند دل سے ایمان لے آئے کہ تزویج کا بس یہی ایک مقصد ہے۔اس حساب سے تعدد ازدواج کے مرتکبین کو دیکھ کر بجا طور پہ ہم جیسے کم فہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ایک انسان کو نان شبینہ کے ساتھ آخر کتنی قسم کا سالن درکار ہے اور اس نے کیا کچھ ادھیڑ رکھا ہے کہ اسے ایک نہیں کئی بیویوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اس تمہید لذیذ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ وطن عزیز میں ایک بار پھر مرد کی دوسری اور تیسری شادی کا غلغلہ ہے۔کسی صاحب نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرلی ہے اور یوں وہ عائلی قوانین کی شق نمبر چھ کے تحت قید اور جرمانہ بیک وقت بھگت رہے ہیں۔یہ اس نوعیت کا تیسرا مقدمہ ہے۔ ایوب خان دور کے عائلی قوانین کے علاوہ فیملی ایکٹ 2015 (نواز شریف دور)کے تحت بھی مردکی پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی قابل تعزیر جرم ہے۔ اس ایکٹ کے خلاف اپیل بھی دائر کی جاچکی ہے۔فی الحال یہ ایکٹ اپنی جگہ موجود ہے اور منسوخ یا تبدیل نہیں کیا گیا ۔عائلی قوانین،شرعی قوانین سے متصادم اور متنازع رہے ہیں۔ اسی سے ملتے جلتے ایکٹ جو گزشتہ حکومت میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائے گئے ، مختلف قانونی فورم پہ چیلنج کئے جاتے رہے ہیں۔موجودہ آئین مین قراردار مقاصد آئین کا ایک حصہ ہے جس کی رو سے ملک میں کوئی قانون شریعت سے متصادم نہیں بنایا جاسکتا۔ اسی بنیاد پہ تعدد ازدواج سے متعلق مذکورہ قانون چیلنج کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی مرد پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کرسکتا۔ یہی نہیں، اگر بیوی دوسری شادی کی اجازت دے بھی دے تو مصالحتی کونسل کی تحریری اجازت کے بغیر مرد دوسری شادی کے لئے اہل نہیں ہوگا۔چونکہ شریعت میں مرد کی اگلی شادی یا بیک وقت چار شادیوں کے لئے پہلے سے موجود بیویوں کی اجازت کی ضرورت نہیں، اس لئے یہ قانون شریعت سے متصادم قرار دے کر اسے کالعدم قرار دینے کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ یہ قانون خود مرد کے حق میں جاتا ہے۔ یعنی بیوی کی اجازت کا مرحلہ طے کر کے مصالحتی کونسل سے بھی اجازت لینے کا مرحلہ سر کرنے تک مرد کو سوچ بچار کا خاصہ موقع مل جاتا ہے اور اگر وہ اس دوران ارادہ تبدیل کرنا چاہے تو بآسانی کرسکتا ہے اوربعد ازاں اپنی اس حماقت کے لئے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ تفنن برطرف،اسلامی نظریاتی کونسل اس پہ تحفظات کا اظہار اسی شرعی قباحت کے باعث کرچکی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ اس کی حیثیت اس ساس سے زیادہ نہیں جو بہو کی بے باکیوں پہ اسے ٹوک تو سکتی ہے لیکن روک نہیں سکتی۔ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی پہلے خود ملک کا آئین خلاف شریعت قوانین کی تشکیل کی راہ میں آئینی رکاوٹ ہے لیکن ہم یہیں سودی کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ شریعت سے متصادم قانون اور شریعت کی تشریح یا اجتہاد پہ مبنی قانون میں کیا فرق ہے ؟اس کا فیصلہ ضروری ہے۔ مثال کے طور پہ قران و سنت میں سود کی حرمت کے متعلق صریح احکامات موجود ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ ملک میں کوئی قانون شریعت سے متصادم نہیں ہوگا۔ لیکن اسی ملک میں روایتی بینک موجود ہیں جو سود پہ قرضے بھی دیتے ہیں اور کاروبار بھی کرتے ہیں۔اسلامی بینکوں کے متعلق بھی تحفظات موجود ہیں اور ان پہ سنجیدہ اہل علم قلم اٹھاتے رہے ہیں۔اب اگر ملک میں سودی کاروبار کی ممانعت نہیں ہے بلکہ اسے قانونی تحفظ حاصل ہے تو یہ غیر شرعی ہی نہیں غیر آئینی بھی ہے۔ شریعت میں شراب نوشی ،شراب سازی اور اس کی فروخت سب ممنوع ہے لیکن اسی مملکت خداداد میں قانونی طور پہ غیر مسلموں کو شراب سازی اور فروخت کے لائسنس جاری ہوتے ہیں ۔ معاشرے میں پھیلی بے راہ روی اور وہ غیر اسلامی طریقے جو بغیر کسی قانونی تحفظ کے رائج ہیں،ایک علیحدہ بحث ہیں کہ انہیں روکنے کے لئے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی لیکن ایک شرعی ممنوعہ کو قانونی تحفظ دینا ایک قطعی مختلف معاملہ اور آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ایسے قوانین بنانے والی مقننہ آئینی طور پہ نااہل ہوسکتی ہے اور ہونی چاہئے لیکن جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اسے مشرف بہ اسلام کیا تو جاسکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تضادات کا علاج نہیں کیا جاسکتا۔اس لئے اتفاق رائے سے ایسے قوانین بنتے رہتے ہیں جو خود شریعت کے خلاف ہوں یا ایسے قوانین نہیں بنتے جو خلاف شریعت اقدامات کو روک سکیں۔صرف تعدد ازواج یا شراب نوشی اور سود خوری نہیں، ملک میں اہل اقتدار اور عوام کے لئے انصاف کے دوغلے معیار بھی اس کی ایک مثال ہیں۔ تعدد ازواج کے لئے پہلی بیوی کی اجازت کی شرط خلاف شریعت ضرور ہے کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے اسی لئے ایسا نکاح شرعی طور پہ منعقد ہوجائے گا لیکن یہ مکمل طور پہ ایک خلاف شریعت قانون نہیں ہے کیونکہ ایسا نکاح قانونی طور پہ بھی ہوجائے گاالبتہ وہ رجسٹرڈ نہیں ہوسکے گا لیکن ایسے جوڑے پہ حد جاری نہیں ہوسکے گی اور ان کی اولاد بھی جائز اور قانونی سمجھی جائے گی۔صرف رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں دوسری بیوی اور اسکی اولاد وراثت کی حقدار نہیں ہوگی۔ نہ ہی مرد کو اگلی شادی کے لئے اس کی اجازت درکار ہوگی۔البتہ تعد ازواج پہ پابندی ایک مکمل خلاف شریعت قانون متصور ہوگا۔لیکن موجودہ قانون یعنی اگلی شادی کے لئے پہلی بیوی اور مصالحتی کونسل کی اجازت کی شرط محض کچھ پیچیدگیوں سے بچنے کا ایک راستہ ضرور ہے لیکن یہ اگلے نکاح کے انعقاد کی شرط اصل نہیں ہے۔وہ قانونی طور پہ بھی ہوجائے گا اور یہی نکتہ اس قانون کو جو پہلی بیوی کی شرط سے متعلق ہے، خلاف شریعت ہونے سے روکتا ہے۔جب پہلے اور اگلے نکاح کی قانونی حیثیت پہ بغیر اجازت نکاح کا کوئی اثر نہیں ہورہا تو وہ خلاف شریعت بھی نہیں ہے لیکن اس سے دوسری شادی کا راستہ مشکل ہوگیا ہے جو معاشرے کے مجموعی مفاد اورشریعہ اسلامی کے عمومی مقاصد کے خلاف جاتا ہے۔میری دانست میں اگر کوئی مرد ادھر ادھر منہ مارنے کی عادت کے برخلاف سنجیدگی سے نکاح کرنے اور اسے نبھانے پہ راضی ہو ہی گیا ہے تو اس کے لئے قانون کو اس کا مددگار ہونا چاہئے نہ کہ اس کے راستے کی رکاوٹ بننا چاہئے۔البتہ ہر صورت میں عورت، چاہے وہ پہلی بیوی ہو یا اگلی، کے مفادات کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔