وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر پر کچھ دلچسپ چٹکلے اپنی جگہ مگر تقریر کے بھرپور مؤثر ہونے سے انکار ممکن نہیں۔ از راہ تفنن ایک چٹکلہ اس رات میں نے بھی سوشل میڈیا پر چھوڑا کہ تقریر مولوی سے اچھی کون کر سکتا ہے مگر تقریر کا اثر تب زائل ہوکر رہ جاتا ہے جب مولوی صاحب چندے کی رسید بک نکال لیتے ہیں۔ مطلب اس کا یہ رہا کہ عمران خان ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم ہیں جس کے سربراہ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری عربوں سے چندہ اور عالمی اداروں سے قرض مانگنا ہوتا ہے۔ اور مانگنے کا یہ عمل ایسا ہے کہ یہ جس شکل میں بھی ہو تقریر کا اثر زائل کرنے کو کافی ہوتا ہے۔ یوں یہ چٹکلہ ہوکر بھی ایک سنجیدہ پہلو کی جانب اشارہ تھا۔ بایں ہمہ یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ تقریر بھرپور تھی۔ اور اس تقریر کا اگر سفارتی میدان میں عملی فالواپ بھی ہوا تو بہتر نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی کشمکش ان حدوں کو چھو چکی ہے جہاں یہ تصور ہی حرام ہوگیا ہے کہ کسی کی کوئی اچھی پیش رفت قبول بھی کرلی جائے اور اسے سراہنے کا گناہ بھی کرلیا جائے۔اس حوالے سے پہلی بار ایک دلچسپ صورتحال سے تب واسطہ پڑا ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں والے مسئلے کے حوالے سے عمران حکومت نے اہم سفارتی کامیابی سمیٹی۔ اس کامیابی کو سوشل میڈیا پر سراہا تو کسی نے کمنٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت یا پارلیمنٹ کی قرارداد کا کوئی اثر نہیں یہ تو عوامی دباؤ کے نتیجے میں ہوا کہ گستاخوں کو پسپا ہونا پڑا۔ جوابی کمنٹ میں عرض کیا، اپنی حکومتوں سے ہم آئے روز مظاہرے یا دوسرے طریقے استعمال کرکے بہت کچھ منوا رہے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور حکومت کو متحرک کرنا اس لئے ضروری ہے کہ عالمی برادری میں گفتگو کے یہی فورم اور ذریعے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کی پارلیمنٹ اور وزارت خارجہ خاموش ہو تو بیشک آپ لاکھوں کی تعداد میں نکل آئیں عالمی برادری دباؤ نہیں لیتی۔ وہ مسلم عوام کی رائے کا ترجمان ان کی پارلیمنٹ کو سمجھتے ہیں، اسی کی بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ جو توہین رسالت کے ایشو پر ماضی میں پارلیمنٹ سے قراردادیں منظور ہوتی رہی ہیں وہ بس ویسے ہی ہوتی رہی ہیں ؟ اس جوابی کمنٹ سے کسی ایک نے بھی اختلاف کرتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ بھئی آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ حکومت کے کرنے سے کچھ نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا عمران خان کو تنگ نہ کیا جائے بلکہ توڑ پھوڑ فرمائی جائے۔ گستاخانہ خاکوں کے اس مسئلے کے حوالے سے میں نے عمران حکومت پر ایک بھی تنقیدی پوسٹ نہیں کی تھی۔ تنقید نہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ میں اس کی پیش رفت سے مطمئن تھا۔ لیکن مجموعی طور پر صورتحال یہ تھی کہ جب تک مسئلہ بطور مسئلہ موجود رہا لوگ عمران حکومت کو ہی کوسنے دئے جا رہے تھے لیکن جب عمران حکومت کی کوششوں سے مسئلہ حل ہوگیا تو لوگوں کو عجیب عجیب شگوفے سوجھنے لگے۔ کسی نے کہا، ہالینڈ کی حکومت تو پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ ہمارا اس مسئلے سے کوئی لینا دینا نہیں لھذا عمران حکومت نے ہالینڈ حکومت سے کیا کرالیا ؟ اس پر اس کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا کہ کیا آپ واقعی اتنے ہی معصوم ہیں ؟ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے سے ہالینڈ کی حکومت کا کچھ لینا دینا نہ تھا ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ نائن الیون کے بعد کی مسلم منافرت کی منظم سرکاری مغربی مہم کی تاریخ پر نظر دوڑا لیجئے۔ فرانس کے سکارف والے فیصلے سے شروع ہوکر سوئس حکومت کے مساجد کے مینار والے فیصلے تک آجائیے اور پچھلے بیس سالوں میں توہین رسالت کی بار بار کی کوششوں کو آپس میں جوڑ کر دیکھ لیجئے، سب سمجھ آجائے گا۔ اگر ہالینڈ کی حکومت کا اس مسئلے سے کوئی لینا دینا نہ تھا تو رات کے وقت اس کے سفیر نے ہمارے وزیرخارجہ کو اس کی آفیشل اطلاع کیوں دی ؟ کسی نے کہا، کوئی لنک ہی دیدو تاکہ ہم بھی دیکھ لیں کہ عمران حکومت نے کیا کیا ہے ؟ عرض کیا حضور ! اگر آپ اخبارات نہیں پڑھتے، نیوز چینلز نہیں دیکھتے تو اس کی سزا ہم کیوں بھگتیں ؟ یہ گوگل صرف دیپکاپڈکون کی تصویریں سرچ کرنے کے لئے تو نہیں۔ آپ ہمیں کیوں سرچ انجن بنانے پر تلے بیٹھے ہیں ؟ جو طے کرچکے ہوں کہ تسلیم ہی نہیں کرنا وہ چپ کہاں بیٹھتے ہیں ؟ فرمایا گیرٹ ورلڈز نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی، وہ تو کہتا ہے کہ میں نے انسانی جانوں کو بچانے کے لئے مقابلہ منسوخ کیا۔ گویا یہ معصوم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس کی ناک رگڑ دی جائے وہ کب مانتا ہے کہ ناک ہی نہیں روح کا درد بھی بہت تھا لھذا پسپائی میں ہی عافیت جانی۔ کہتا وہ یہی ہے کہ بس خدا ترسی یا انسانیت کی بقا کی خاطر میں نے قدم پیچھے ہٹا لئے۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس ارشاد کے بعد وہ مدتوں منہ چھپائے پھرتا ہے۔ بارہا عرض کرچکا کہ نون لیگی نہیں ہوں۔ نواز شریف بطور ووٹر مجھے پہلے بھی پسند تھا، آج بھی پسند ہے۔ اس کے ٹرائل کو بھی درست نہیں سمجھتا۔ اس کی حکومت کو پاکستان کی تاریخ کا یادگار دور سمجھتا ہوں۔ لیکن اگر اس کے نتیجے میں یہ توقع وابستہ کرلی جائے کہ عمران حکومت کی قابل تعریف چیزوں میں بھی کیڑے نکالوں گا تو بھول ہے آپ کی۔ خدا کو بھی منہ دکھانا ہے اور اس سے قبل روز آئینے اور ضمیر کا بھی سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس موجودہ حکومت سے ڈھنگ کا کوئی کام مدتوں میں ہی جاکر سرزد ہوتا ہے۔ یہ تعریف کا موقع کم اور تنقید کا بار بار دیتی ہے۔ سو یہ جو کبھی کبھار تعریف کا موقع آتا ہے اس میں اس کی تعریف کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر پر داد عمران خان کا حق ہے۔ یہ حق ادا کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے ! ٭٭٭٭٭