بنیادی طور پر استاد اور تعلیم ایک مقدس پیشہ ہے اس لئے اس شعبے میں صرف ان لوگوں کو آنا چاہئے جن میں بے لوث خدمت اور ایثار و قربانی کا جذبہ موجود ہو۔ استاد ہی ہے جو اپنے شاگرد پر انمٹ نقوش چھوڑتا، نئی منزلوں کی طرف آگے بڑھنے سے قبل اس کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتا، اس میں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جذبہ پیدا کرتا، اوراسے نئی منزلوں سے آشنا کرواتا، اپنی پاکیزہ فکر،صالح کردار اور گہرے مطالعے سے شاگردوں کے ذہن پر خوش گوارنقوش مرتب کرتا ہے! اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں کردار سرانجام دیتا اور اسے معرکے سرکرنے کے قابل بناتاہے۔ قابل،لائق اورذہین وفطین شاگردوں کی سوچ و فکراورشخصیت پرایسے استادکی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ غور وفکر کے چراغ جلاکر شخصیت کا ایکسرے کریں اور باطن میں گھس جائیں تو آپ کو شخصیت کے سنوارنے میں کئی اپنے استادوں کے ہی ہاتھ نظر آئیں گے۔ اچھے طالب علم کی بہت سی عادات، زندگی کے رویئے، بول چال اور روز مرہ کی زبان کے الفاظ و محاورے ایسے ہی استاد سے ورثے میںملتے ہیں ۔اسی لئے توکہاجاتاہے کہ استادمعمارقوم ہوتاہے اور قوموں کی تعمیر میں وہ بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھی اساتذہ کی بے لوث رہنمائیوں ، کرم فر مائیوں اور ان کی شفقتوں کا رہیں منت ہوں۔ میرے استاتذہ کرام نے میری راہنمائی کی اور شاہراہ حیات پر انگلی پکڑ کر میری صلاحیتوں کو نکھارا سنوارا۔ان محترمان میں سے سوائے پروفیسر ابراہیم کے سب کے سب اپنے درویشانہ جلال و جمال میں یکتاتھے۔ انہی کی محبت وشفقت سے میری زندگی میں لالہ وگل نے جنم لیااورمیرے چمن میں بہارآئی میںزانوئے ادب تہہ کئے بیٹھے ان صبحوں اور شاموں کو آواز دینا چاہتا تھا جو نہ جانے کہاں کھو گئیں، لیکن آج بھی دل کے عطردان میں عود کی طرح سلگتی رہتی ہیں۔میرے یہ سب اساتذہ وفات پاچکے ہیں۔میں گئے زمانے کے کھنڈروں کے بیچ ان کوشب وروز کو حافظے کی شمعیں لے کر تلاش کرتا رہا ہوں، جن کا مجھ پر بڑ ااحسان ہے۔ میں ان پاک نفوس لوگوںسے نگار خانہ دل آباد کرنا چاہتا ہوں جن کی یادوں کی پر چھا ئیاںمیرے چار سو موجود ہیں۔ چنانچہ اسی بہانے بدلتے موسموں کے رنگ و روپ ، آتی جاتی رتوں کی بو باس اور گئے زمانوں کی بھولی بسری یادیں تازہ ہو تی ہیں۔کبھی ماضی کی دھند میں لپٹے خوشحال چہروں کے خدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ کبھی گردپوش بستیوں کے بام و در ابھرنے لگتے ہیں اور کبھی بھر جانے والے پرانے زخم کا کوئی ٹانکا بھی ادھڑ جاتا ہے اور لہو رسنے لگتا ہے۔بہر کیف اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اور ان کے ہم مقام اپنے ان اساتذہ کرام کے لئے خلوص ِ دل سے دعا گوہوں۔ طالب علم ایک خاندان کا فرد ہی نہیں، بلکہ پوری قوم کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں اساتذہ کی بہترین تعلیم و تربیت ہی اسے عملی زندگی میںنئے نئے راستے دکھا سکتی ہے۔بلاشبہ تعلیم کے میدان میں نجی شعبے کی اونچی پرواز اور ترقی نے تعلیم جیسے مقدس فریضے کو رفتہ رفتہ ایک مقدس مشن کی بجائے محض کاروبار بنا دیا ہے۔ غریب طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلانے کی سکت نہیں رکھتے، اسی لیے ان کے بچے معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ تاہم یہ بات افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ آج کے استادکو بھی وہ احترام نہیں دیا جاتا جس کا وہ حقدار ہے۔بلاشبہ وہ قوم کا معمار ہے۔ آج ایک طرف استاد ہو اور دوسری طرف ایک پولیس کانسٹیبل تو لوگ خوف سے اس پولیس والے کو سلام کریں گے مگر استاد کونہیں! کشمیر میں نام نہاد الیکشن ہو ،مردم شماری ہو یا خانہ شماری کٹھ پتلی انتظامیہ کی طرف سے ان سب میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگادی جاتی ہے، حتی کہ اب تو سرکاری سطح کے جلسے اور جلوسوں میں خصوصی طور پر حکم نامہ جاری کئے جاتے ہیں کہ ان میں تمام اساتذہ حاضرہوکر نیتائوں کی شان بڑ ھا ئیں ۔حالانکہ یہ اساتذہ کے فرایض منصبی کی بے حرمتی اور بے تعظیمی ہے ۔ان کاموں کے لئے دوسرے بے کار اور بدنام محکموں کے ملازمین کافی ہوتے ہیں۔ استاد کاکام نئی نسل کوتعلیم سے آراستہ کرنا ہے نہ کہ کٹھ پتلی حکمرانوں اور سیاہ کارسیاست کاروں کے جلسے جلوس کی زینت بڑ ھا نا۔ کشمیرمیں اور بھی سرکاری ادارے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ ایسے ہر نامراد کام کے لئے حکومت کو صر ف اساتذہ ہی فارغ اور فالتو نظر آتے ہیں !یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے! حقیقت یہ ہے کہ اساتذہ آج بھی اپنے طلبا کے آئیڈیل ہیں اوردیگرخطوں کی طرح ریاست جموں وکشمیربھی اپنی بقا اور ترقی کے لیے اساتذہ پر انحصار کرتی ہے۔ اس اعتماد کو بحال رکھنا اور مسابقت کے اس دور میں ثابت قدم رہنا اساتذہ ہی کو زیب دیتا ہے وہ ہمت ہار بیٹھیں تو پوری قوم ماضی کی تاریکیوں میں گم ہو جائے گی ۔ہماری کوئی دردمندانہ استدعا،کوئی گذارش ،کوئی اپیل اساتذہ کو ان کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلا دے تو ہم اسے کار خیرسمجھتے ہیں۔استادکامنصب فرائض سے غفلت، کار منصبی سے کوتاہی اور کام میں تساہل برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔دیکھنایہ ہے کہ آج استاد اور طالب علم کے مابین خلوص اور عقیدت کا رشتہ عنقا کیوں ہو چلا ہے، آج کے اساتذہ کو طلبا اور ان کے والدین کی جانب سے وہ پذیرائی کیوں نہیں مل رہی جو ان کے اساتذہ کو حاصل تھی۔ایک ایسے دور میں طالب علم سے زیادہ ذہین اور زیادہ ذرائع رکھتا ہو، معلم کو خود کو منوانے کیلئے کچھ بڑھ کر کرنا پڑے گا ۔ معاشرہ استاد سے بہت کچھ چاہتا ہے۔اگر معاشرے کو درست کرنا ہے تو ہمیں بنیاد پریعنی استاد کے رول پر توجہ دینی ہو گی ۔ ہمارے اساتذہ کو ٹیم پلیئر اور ٹیم لیڈر کا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہونا ہو گا ۔ استاد کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ روحانی والدین کا لفظ کتابوں میں تو اچھا لگتا ہے مگر وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اب استاد کو اپنا بنیادی کردار نبھانا ہو گا ۔ اگر استاد آج خود کو رول ماڈل کے سانچے میں ڈھال لیں تو طلبا خود بخود پیروکار کے قالب میں ڈھل جائیں گے۔