محکمہ تعلیم بلوچستان میں گریڈپندرہ اور اس سے نیچے گریڈکی آسامیوں(انگلش ٹیچرز،عربک ٹیچر،جونیئرانگلش ٹیچر، معلم القرآن،ڈرائینگ ماسٹر اورپی ٹی ) کے اوپراساتذہ کومیرٹ پر بھرتی کرنے کاٹاسک جس ادارے نے اپنے ذمے لیاہواہے اس کانام کیریئر ٹیسٹنگ سروس پاکستان( سی ٹی ایس پی) ہے ۔سی ٹی ایس پی کی ویب سائٹ پر اگر ہم جائیں تواس کے اہداف نہایت حوصلہ افزاء لگتے ہیں تاہم اس کے عملی اقدامات انتہائی ناگفتہ بہ اور غیرتسلی بخش ثابت ہوئے ہیں ۔ ہمیں یادہے کہ پچھلی صوبائی حکومت نے بھی صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کانعرہ لگایاتھا اور حالیہ حکومت کا بھی یہی نعرہ تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر بلوچستان کے تعلیمی نظام کو معیاری اور جدید خطوط پر استوار کیاجائے گا۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ یہاں کے محکمہ تعلیم میں اب بھی قابلِ رحم حدتک کرپشن، اقرباپروری اورعوام کااستحصال ہورہاہے ۔ قارئین خود اندازہ لگالیں کہ جس صوبے میں میٹرک ، ایف اے اور بی اے لیول کے پورے پورے امتحانی سنٹرز بکتے ہوں اور آسامیوں کی بولیاں لگتی ہو تو وہاں کے تعلیمی نظام کا پھر اللہ ہی حافظ ہو ۔ بات سی ٹی ایس پی کی ہورہی تھی جس کے تحت صوبہ بھر میں مختلف آسامیوں پر اساتذہ بغیر کسی معقول اور واضح پالیسی کے تعینات کیے جارہے ہیں ۔حالانکہ 2014ء کی تعلیمی پالیسی کے مطابق امیدواروںسے اسکریننگ ٹیسٹ این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس)لے گی اور بعدمیںاسے ڈسٹرکٹ ریکرومنٹ کمیٹی (ڈی آرسی ) کے حوالہ کرے گی جس کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر ہوتاہے۔ڈی آرسی امیدوار وںکے کاغذات کی تصدیق، ان کے لوکل اسٹیٹس کی جانچ پڑتال اور ان کے تما م تر دیگرکوائف کی جانچ پڑتال کا مجازہوگا۔2014ء کی ریکرومنٹ پالیسی کی روسے ٹیسٹ کے نتائج کا میرٹ لسٹ مرتب کرنابھی ڈی آرسی ہی کی ذمہ داری ہوگی ۔ خدانخواستہ اگر کوئی امیدوارمیرٹ لسٹ سے مطمئن نہ ہواتو وہ اپنااعتراض ریکارڈ کروانے کیلئے پہلے ڈی آرسی ہی کے فورم کو استعمال کریگا۔یا باالفرض اگر ڈی آرسی ان کے تحفظات کاازالہ نہ کرسکاتوامیدواراگلے مرحلے میں سی آرسی (کمشنر ریکرومنٹ کمیٹی) کے پاس اپنی شکایت درج کر سکتاہے جبکہ آخری مرحلے اس کے پاس عدالت جانے کا آپشن بھی موجودہے ۔لیکن یہاں ہویہ رہاہے کہ سکریننگ ٹیسٹ لینے کے بعداین ٹی ایس ٹیسٹ کو ڈی آرسی کوفارورڈ کرنے کی بجائے اسے سی ٹی ایس پی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔یعنی دوہزار چودہ کی پالیسی کے مطابق ان تعیناتیوں کا باقاعدہ ایک صاف شفاف اور آسان پروسس موجود ہے جس میں ٹانگ اڑاکر سی ٹی ایس پی اسے مشکل بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ سی ٹی ایس پی کا ادارہ اساتذہ کوبھرتی کروانے کے دوران ذیل میں دی گئی چند بنیادی بے قاعدگیاں کررہاہے، مثلاً (الف) ادارہ بڑی بے قاعدگی بلکہ فاش غلطی یہ کررہا ہے کہ آسامیوں کوفی الفور پُر کرنے کی بجائے اسے محض چند جزوی وجوہ کی بناء پر منسوخ کرکے ڈیڑھ دوسال بعدمشتہرکرتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک خوش قسمت امیدوار اگربیک وقت دویاتین آسامیوں پرکامیاب قرارپاتاہے تواسے لازمی طور پر ایک آسامی سے دستبرداراوردوسرے کو جوائن کرنا پڑے گا ۔اب انصاف اورعقل کاتقاضاتویہ ہے کہ ادارہ مذکورہ آسامی سے دستبردارامیدوار کے بعد دوسرے نمبرپر کامیاب ہونے والے امیدوار کے تعیناتی کے آرڈرجاری کرے لیکن بدقسمتی سے ادارہ اس آسامی کو کینسل کرکے ڈیڑھ دوسال بعد اسے دوبارہ مشتہر کردیتا ہے ۔ہمارے دوست اور اساتذہ یونین (JTA) کے ضلعی صدر حافظ محمدعثمان مندو خیل اور جناب سینیئر ٹیچر ببرک پشتونیارکے مطابق ضلع ژوب میں دوسوستر آسامیوں میں سے سو کے قریب ایسے آسامیوں کو سی ٹی ایس پی نے صرف ایسے ہی امیدواروں کے دستبردار ہونے کی صورت میں منسوخ کردیئے ہیں جو امیدوار بیک وقت دویاتین پوسٹوں پر کامیاب قرار پائے ہیں۔(ب)سی ٹی ایس پی بسااوقات رورل ایریاز میں یونین کونسلA میں واقع ااسکول کو یونین کونسل Bجبکہ یونین کونسل Cمیںواقع اسکول کو یونین کونسل Dکے کھاتے میں ڈال کر معاملے کو متنازع بنادیتا ہے ۔(ج)اسی طرح نتائج آنے کے بعدادارہ ایک امیدوار کواپنے حریف امیدوارپرجائز اعتراض کرنے کاحق لفاظی حدتک تودے چکاہے لیکن اس کے اوپرعملدرآمدکوخاطر میں نہیںلاتا۔مثلاً اکرام نے عربک ٹیچر پر کامیاب ہونے والے امیدوار اقبال کے جعلی دستاویزات کاغذات کو چیلنج کردیا،اب سی ٹی ایس پی کے قاعدے کی روسے مذکورہ پوسٹ پر اکرام اور نہ ہی اقبال تعینات ہوسکتاہے بلکہ ادارہ پوسٹ کو بیک رول کرکے ڈیڑھ دوسال کے بعد دوبارہ مشتہر کردیتاہے۔یعنی اکرام کو صرف اس جرم کی سزا دے کراس پوسٹ سے محروم کیاجاتاہے کہ اس نے کیوں اقبال کی جعلی ڈگری کو چیلنچ کیاہے؟ اب جب ایک امیدوار کو جائزاور معقول اعتراض کرنے کے باوجود اسے ہاتھ کچھ نہیں آتاتو آئندہ مفت میں کون کسی جعلی ڈگری ہولڈرز کو چیلنج کرنے کی زحمت کرے گا؟صرف ضلع ژوب میںفی الوقت دوسوچوہتر اساتذہ ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں جہاں فی الفور نئے اساتذہ بھرتی کرنااز حدناگزیر ہے لیکن سی ٹی ایس پی اپنے غیر جاندار قانون کے تحت ساٹھ فیصد آسامیوں پر بھرتیاں تو کرلیتی ہیں تاہم چالیس فیصد آسامیوں کو بیک رول کرکے ہر ضلع کے رورل اور میونسپل ایریاز کے اسکولوں کو اساتذہ کی کمی کی صورت میںناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔اب جب صرف ایک ضلع میں اساتذہ ریکرومنٹ کے طریقہ کار کی یہ حالت ہے کہ اسکولوں میں طلباء کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہاہے اور اساتذہ کی تعداد انتہائی کم پڑرہی تو پورے صوبے کی تعلیمی معیار کیاہوگی ؟ یعنی نئی آسامیاں کریٹ کرنا تو کجا، حکومت ریٹائرڈ اساتذہ کی جگہ نئے اساتذہ بھرتی کروانے میں ناکام ہوکررہ گئی ہے۔