اس سے یوں دوستی نبھائی کیا یار اتنی بھی سخت جانی کیا ہم مکمل زوال دیکھیں گے آنکھ منظر سے اب ہٹانی کیا چلیے آپ کو اسی بہائو میں لئے چلتے ہیں جب بچھڑنا کسی کے بس میں نہیں صبر کیا اور نوحہ خوانی کیا ’ددرد‘غم‘ ہجر ‘یاس‘ تنہائی اور بھیجے وہ اب نشانی کیا۔کبھی طالب علمی کی زمانے میں ناصر کاظمی کو پڑھتے تھے تو حیرت ہوتی تھی غزلوں کی غزلیں دل و ذہن پر نقش ہوتی جاتیں۔ میرا خیال ہے کہ اس طلسم سخن سے نکل کر بیٹھتے ہیں۔اصل میں آج میرے سب سے چھوٹے بیٹے حافظ عزیر بن سعد کا نویں کا نتیجہ آیا وہ نتیجہ آنے سے قبل ہی کہنا شروع ہو گیا ابو ٹریٹ اور انعام کے لئے تیار ہو جائیں اصل میں آج کے بچوں میں ہمارے مقابلے میں زیادہ اعتماد ہے۔رزلٹ آیا تو سچ مچ میں بھی حیران رہ گیا کہ 481نمبر اور وہ بھی 505میں سے عہد موجود میں جہاں ایک کلک پر ہر قسم کی معلومات پڑی ہیں تو بچے استفادہ کرتے ہیں کچھ خوبیاں اگلی جنریشن میں ملٹی پلائی ہو جاتی ہیں۔بچوں کو لیٹیسٹ ماڈل کی گاڑیوں بلکہ کئی حوالے سے معلومات ہیں بہت اچھی بات ہے مگر ایک چیز کی کمی جو میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ آپ ان ذھین بچوں کو کچھ وقت دیں اور ان کی معلومات کو علم میں ڈھالیں مقصد یہ کہ انہیں تربیت سے گزاریں۔ زندگی کے آداب سکھائیں ان کا کردار بنانے کی کوشش کریں اب دیکھیے ناں ہمیں حضرت عبدالقادر جیلانی کے بچپن کا واقعہ پڑھایا جاتا تھا کہ ماں نے انہیں سچ بولنا سکھایا تھا اور انہوں نے بے خوف ڈاکوئوں کو بتا دیا کہ چالیس دینار اندر کی پوشاک میں ہیں۔ڈاکو حیران رہ گئے اور آپ جانتے ہیں کہ وہ ڈاکو مسلمان ہو گئے حکایات سعدی کی اشد ضرورت ہے۔دکھ ہوتا ہے کہ بچے جو کچھ سکرین اور سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور گالی گلوچ دیکھ رہے ہیں وہ زہریلا پن ان معصوم بچوں کو کیوں متاثر نہیں کرے گا۔ میرا دوسرا دکھ یہ ہے کہ اپنی نئی نسل کے بچوں کو دیکھتا ہوں جو مسابقت میں راتوں کو اٹھ کر پڑھتے ہیں اور 95 فیصد تک نمبر لیتے ہیں جب میں ان کا مستقبل دیکھتا ہوں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہوں ان کے لئے نوکریاں نہیں اس کے مقابلے میں جاگیردار اور سرمایہ دار کے نااہل اور نالائق بچے بڑے بڑے اداروں میں پڑھ کر باہر نکل جاتے ہیں چلیں یہاں تک بھی ٹھیک ہے کہ اگر وہ سچ مچ پڑھ کر لائق ہو جائیں۔مگر یہاں تو ڈفر اور جاہل اپنی ماروثی سیاست کے باعث نسل درنسل حکومت کر رہے ہیں ان کو پڑھایا ہی یہ جاتا ہے نہ بھی پڑھایا جائے تو بتایا ہی جاتا ہے کہ آپ کو رول کرنا ہے یہی لوگ جو اوسط درجے کا ذھن بھی نہیں رکھتے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ قانون سازی کرتے ہیں اور ہماری قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں بعض تو شکل سے ہی اجڈ لگتے ہیں۔ نویں جماعت کے بچے کو سیاسی بصیرت اس عہد نے دی ہے آپ مانیں نہ مانیں بچوں پر سیاستدانوں کے جھوٹ وعدہ خلافیاں اور کہہ مکرنیاں کیوں کر اثر انداز نہیں ہوتی ہونگی آپ اسے ساحر کے شعر سے سمجھ سکتے ہیں: دنیا نے واقعات و حوادث کی شکل میں جو کچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں اس عہد میں بچوں کے اذھان پر کئی حملے ہوئے ہیں ان میں کورونا کے دنوں کی ٹینشن بھی ہے کہ بچے مہینوں کے حساب سے سکول نہیں گئے وہ آپس کا ملنا ملانا کھیلنا کودنا اور شرارتیں کرنا ان کی زندگی ہے وہ تو پڑھنا بھول گئے تھے پھر بھی ان کی ہمت ہے کہ امتحانات کی تیاری گھر بیٹھ کر یا آن لائن کر لی۔بہت باصلاحیت نسل ہے یہ دوسرا ان کے سامنے سوشل میڈیا پر سلطان راہی کلچر پروان چڑھتا رہا پرلے درجے کی بدتہذیبی اوربچے تو بندر کی طرح ہوتے ہیں وہ تو آپ کی نقل کریں گے گالی سکھائو گے تو گالی سیکھیں گے جب سب ایک دوسرے کو ڈاکو چور کہیں گے تو بچے سب کا یقین کر لیں گے۔ سمجھانے کے لئے اتنے اشارے کافی ہیں والدین سے درخواست ہے کہ وہ بچوں کی رہنمائی کریں بچوں کی دلچسپی پر نظر رکھیں۔ موبائل سے وہ باز نہیں آئیں گے آپ ان کا کوئی وقت مقرر کر دیں دلچسپی کے خلاف چلیں گے تو ردعمل آئے گا ان کو صحت مند سرگرمی میں لگائیں مثلاً ابھی میرا دوست پروفیسر فرخ محمود بتا رہا تھا اس کے بچے نے کرکٹ کھیلنے کی ضد کی تو میں نے اس شرط پر علیم خاں کی اکیڈمی میں داخل کروا دیا اب وہ پڑھائی بھی کرتا ہے۔ خاص طور پر ان کی تخلیقی صلاحیت کو اجاگر کریں میں دیکھتا ہوں کہ میرا بیٹا ابھی جس نے 481مارکس لئے کئی اشیا خود بناتا ہے اس نے انکیو بیٹر خود تیار کیا اور مرغی کے انڈوں سے بچے نکالے دوستوں کو بھی سکھایا کہ کیسے انکو بیٹر بناتے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سود مند مصروفیت ہے اگر آپ انہیں اس طرف نہیں لائیں گے تو وہ نالائق بچوں کے ساتھ ویلیاں مارتے پھریں گے اور غلط رخ اختیار کر جائیں گے۔ سب سے اہم رول تو مائوں کا ہے۔ایسے ہی مائوزے تنگ نے نہیں کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھل نسل دوں گا۔ ہمارے نوجوان جو باصلاحیت ہیں مستقبل انہی کا ہے ہم تو الٹا ان کے راستے کی رکاوٹ ہیں اسی باعث تو ملک ترقی نہیں کرتا کہ جاہل ہی ہماری قسمتوں کے مالک بنے ہوئے ہیں تعلیم کے محکمے کی تو کوئی وزیر قبول نہیں کرتا کہ اس میں پیدا نہیں۔ حکومت اگر کچھ کر سکے تو ہمارے بچوں کے لئے تعلیم آسان کرے کاغذ ہی اتنا مہنگا ہے کہ کتاب کی دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔ پرویز الٰہی کا تو بہت پرانا نعرہ ہے پڑھا لکھا پنجاب‘اب دیکھنا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔دو شعر: جینے کا حوصلہ مجھے اچھا دیا گیا مجھ کو خیال خام میں الجھا دیا گیا منزل تلاشنا تھی مجھے راہبر کے ساتھ لیکن مجھے بھی راہ سے بھٹکا دیا گیا