سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے دو چار روز بعد تک سکوت کا سا عالم رہا۔ ایک انگریزی اخبار نے بھی فیصلے کو ’سرپرائز‘ قرار دیتے ہوئے محض ایک اداریہ لکھنے پر اکتفا کیا ۔ وکلاء اور صحافیوں کی دو ایک تنظیموں کے چند عہدیداروں نے آئین اور قانون کی سربلندی کے عزم کا اظہار کیا۔ تاہم وہ ولولہ، وہ جشن کا سا سماں جو عزت مآب افتخار چوہدری کی بحالی پر دیکھنے میں آیا تھا، اس بار اس کا عشر عشیر بھی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملا۔ایسے مواقع پر اچانک سے سوشل میڈیا پر جو گھڑی گھڑائی پوسٹیں راتوں رات گردش میں آجاتی ہیں، پراسرار طور پر وہ بھی دیکھنے کو نہ ملیں۔بس گھٹی گھٹی کچھ سرگوشیاں تھیں ۔اس بحرِ سکوت میں تلاطم بالآخر عزت مآب چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ کے ان ریمارکس نے پیدا کیا جن کی گونج سرحد پار تک سنی گئی۔ اپنے ایک گزشتہ کالم میں،جوکہ قومی اسمبلی میں جناب شاہد خاقان عباسی کے نامناسب رویے کے تناظر میں لکھا گیاتھا، صراحت کے ساتھ عرض کیا تھا کہ مذکورہ مضمون میں قائد اعظم کا موازنہ عصر حاضر کے کسی سیاست دان سے کرنا ہر گز مقصود نہیں۔ اگرچہ میرے پڑھنے والوں میں سے اکثر نے اس کے باوجود بیزاری کا اظہار فرمایا ، تاہم گذشتہ دنوں رونما ہونے والے چند واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ گزشتہ مضمون سے وہی اقتباس یہاں ایک بار پھر دہرایا جائے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ میرے پیشِ نظر اس بار بھی کوئی موازنہ مقصود نہیں۔ ’’نوجوان محمد علی جناح نے لندن میں حصولِ تعلیم کے بعد قانون دان بننے کا فیصلہ کیا۔ لنکنزاِن میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ،طالب علموں کے لئے گریٹ ہال کے اندر خاص تعداد میں پر تکلف (Formal) عشائیوں میں شرکت کرنا لازم ہوتا کہ جن میں نوجوان طالب علم، تجربہ کار بیرسٹرز اور بینچ کے ارکان کے ساتھ بیٹھتے ۔ برتنوں اورکٹلری کے درست استعمال سے لے کر باوقار گفتگو تک کا سلیقہ سیکھتے۔ قانونی مباحث میں حصہ لیتے ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کونکھارتے۔ نوجوان جناح نے قانونی تربیت کے دوران دو سال بیرسٹرز چیمبر میں Reading Apprenticeship کے دوران دنیا کے بہترین قانون دانوں کی تحریریں پڑھنے میں صرف کئے۔ نوجوان جناح بہت جلد اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں، مزاج میں رکھ رکھائو ،بود و باش اور رہن سہن کی بناء پر ایک ایسے قانون دان کی صورت ڈھل گئے جو اپنے کردار اور گفتار،لہجے اور الفاظ کے چنائو کی بناپر ناصرف لندن بلکہ ہندوستان واپسی پر قانونی اور سیاسی حلقوں میں نمایاں مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ محمد علی جناح عدالت میں دلائل شیکسپیرئن زیر و بم کے ساتھ ڈرامائی مکالموں کی صورت یوں پیش کرتے کہ سننے والوں پر سحر طاری ہو جاتا۔ جناح سخت سے سخت بات سلیقے سے کہنے کا گُرجانتے تھے۔ نوجوان قانون ساز نے مسلمانوں کے’وقف‘ بارے قوانین مرتب کئے توحکومتی، سیاسی اور قانونی حلقوں میں دھاک بٹھا دی۔ وائسرائے کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے سب سے کم عمر رکن کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ عدالت یا کسی قانون ساز مجلس میں محمد علی جناح اپنے الفاظ اس احتیاط سے چنتے کہ زندگی بھرانہیں اپنا کہا ایک لفظ واپس نہ لینا پڑا۔ مقننہ کی کاروائیوں میں جناح بولتے تو سناٹا چھا جاتا۔ اقلیتوں کے حقوق کے لئے سینئر قانون سازوں کی کمیٹی بنی توپارلیمنٹ میں نوجوان جناح کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ۔ کمیٹی جناح کے نام سے پہچانی جانے لگی۔ لارڈ ولنگنڈن کی رخصت کے وقت ٹائون ہال میں ان کا مجسمہ نصب کرنے کی تقریب میں محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے احتجاج کیاتو یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا جب محمد علی جناح دھکم پیل کا شکار ہوئے وگرنہ ایک باوقار سیاسی رہنما کے طور ساری عمرقانون کی پاس داری میں بسر کی ۔ جناح صاحب نے اکابرین کی طرح کو ئی کتاب تو نہیں لکھی ، تاہم ان کی تقریروں پر مبنی درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ فی البدیہہ تقریر وںکا بھی ایک ایک حرف جیسے چن چن کر ٹانکا جاتا ہو ۔‘ سٹینلے ولپرٹ کے مطابق ستمبر 1943ء میں لندن بھیجے گئے ایک خفیہ خط میں لارڈ ویول نے لکھا،’ جناح کی عدم موجودگی میں مسلمانوں میں ان کی سی قابلیت کا حامل شخص دور دورتک موجود نہیں۔‘ـ کانگرس کے برعکس مسلمانوں کے ہاں یہ کمی کیونکر محسوس کی گئی؟ ہندوئوں نے جدید تعلیم کے حصول کی خاطر کلکتہ میں ہندو کالج کے قیام کی قرارداد1823ء میں پیش کی تھی۔ مختار مسعود کے مطابق، ’ کلکتہ میں ہندوکالج اورعلی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی رسمِ افتتاح کے درمیان یہ وہی ساٹھ سالہ تعلیمی فاصلہ ہے، جو برصغیر کے مسلمان قیام پاکستان تک طے نہ کر سکے‘۔آر ۔سی۔ موجمدار کی ’تاریخ آزادی‘ کے مطابق سر سید کی درس گا ہ کے قیام کے وقت ہندوستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم17,350 طالب علموں میں سے صرف 1630 مسلمان تھے۔ 104 مقامی ڈاکٹرز تھے جن میں سے صرف ایک مسلمان تھا۔ پورے برصغیر میں صرف تین مسلمان انجنیئزز تھے۔ 1636ہندو گریجویٹس اور 240 بار ایٹ لاء کے اندر سارے ہندوستان میں صرف 27 گریجویٹس اور محض ایک مسلمان بارایٹ لاء تھا۔قیام پاکستان کے وقت 55 فیصد مسلم آ بادی والے صوبہ پنجاب کی لاہور ہائی کورٹ کی 81 سالہ تاریخ میں صرف سات مسلمان جج گزرے تھے۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو دیگر اثاثوں کے ساتھ ساتھ، تعلیمی اثاثے ، زرخیز سیاسی و قانونی دماغ بھی ا وپر بیان کی گئی نسبت سے دونوں آزاد ممالک میں تقسیم ہو گئے۔گزرے 73 سالوں کے دوران پاکستان میں دیگر شعبہ جات کی طرح ہمارا نظامِ تعلیم بھی مزید تنزل کا شکار ہوا ہے۔کسی زمانے میں پاکستان دنیابھر کو متعدد شعبہ جات میں تکنیکی ماہرین فراہم کیا کرتا تھا۔ مڈل ایسٹ کی تعمیر پاکستانی ہنر مندوں کے ہاتھوں ہوئی۔ مغرب میں پاکستانی ڈاکٹرز اور سائنسدان قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔تاہم ہر گزرتے دن اب ان ممالک کے اندر بھارتیوں کی نسبت، پاکستانی ماہرین کی تعداد کم ہو چکی ہے۔اس کے برعکس ، گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں ہمارے ہاں وکلاء کی تعداد اور اسی لحاظ سے ان کے سیاسی اثر ورسوخ میں بے مثال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت 55 فیصد مسلم آ بادی والے صوبہ پنجاب کی جس ہائی کورٹ کی 81 سالہ تاریخ میں صرف سات مسلمان جج گزرے تھے، آج اس میں بیک وقت پچاس سے زیادہ معزز ججز ہر روز جلوہ افروز ہوتے ہیں۔عزت مآب چیف جسٹس کی عدالت سے آنے والے ریمارکس بھی عدلیہ کے قوت کا احساس دلاتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی کے باب میںایک حالیہ عالمی درجہ بندی کے مطابق مگر ہمارا انصاف کا سیکٹر124 ممالک میں حیران کن طور پر 120 ویں نمبر پر بتایا جاتا ہے۔