مکرمی !ہمارے نظام تعلیم میں بہت سی خرابیاں اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم آج دنیا سے پیچھے ہیں۔وہ تعلیم جو ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دے رہے ہیں وہ بالکل بھی کافی نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ ہماری سوچ بدل رہی ہے اور نہ ہی ہمارے ذہن کو وسعت عطا کر رہی ہے۔ ہم تعلیم حاصل کر کے بھی اسی پرانی اور بے بنیاد سوچ اور نظریہ کے حامی ہیں جسے بدل جانا چاہئے تھا۔ گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر میٹرک کا رزلٹ گردش کر رہا ہے جس کے مطابق کسی کے بھائی نے نوے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔کسی کا بیٹا چورانوے فیصد نمبر لیے ہوئے ہے اور کسی کے عزیز نے بانوے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔ بلاشبہ اس کامیابی کے پس پردہ طلبائ، ان کے والدین اور اساتذہ کی محنت ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ لیکن ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ پچھلے تین چار سالوں سے اچانک نئی نسل آئن سٹائن ہوگئی ہے یا ہمارے تعلیمی نظام میں مارکس بانٹے جارہے ہیں۔ نمبروں کی اس دوڑ نے طلبا ء کے اندر ایک سراسیمگی سی پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے اب وہ کتابیں پڑھنے، لائبریری کا رخ کرنے اور تعلیمی استعداد بڑھانے کے دیگر ذرائع اپنانے کے بجائے ماڈل پیپرز اور معروضی سوالات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (اللہ ڈتہ انجم،دھنوٹ )