دس برسوں نے آفریدی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اسکا چھریرا بدن فربہی مائل اوربال بھی قدرے کم ہوچکے ہیں اور جتنے بھی ہیں ان میں بھی سفیدی کی زیادتی ہے۔ میں کبھی آفریدی کو دیکھتااور کبھی اس چمکتی ہوئی نئی نکور گاڑی کوجس سے وہ برآمد ہوا تھاآفریدی مجھ سے ویسے ہی محبت سے ملاویسے ہی گرمجوشی سے جپھی ڈالی اور اسی لب و لہجے میں حال چال پوچھا جس کی اشاعت ممکن نہیں ،میں نے بھی اس کی محبت کا جواب اسی ’’محبت ‘‘ سے دیا اوربیٹھک میں لے آیا،آفریدی کے ہاتھ میں ایک باسکٹ تھی جو سوئٹرزلینڈ کی مزیدار چاکلیٹوں سے بھری ہوئی تھی مجھے ان کی قیمت کا نہیں پتہ لیکن وہ اچھی خاصی مہنگی رہی ہوں گی کم از کم میں انہیںخریدنے سے پہلے چھ بار ضرور سوچتا اور ساتویں بار ارادہ موخرکردیتا ،آفرید ی کا لائف اسٹائل اس کی خوشحالی کی گواہی دے رہا تھا ،بہترین سوٹ، قیمتی امپورٹڈ کا ر او ربائیں ہاتھ کی کلائی سے لپٹی بیش قیمت گھڑی اور ناک پر دھری برانڈڈ عینک بتا رہے تھے کہ آفریدی کے دن پھر گئے ہیں اب وہ پہلے والا آفریدی نہیں رہا جودوستوں سے ادھار سگریٹ لے کر سوٹے لگایا کرتا تھااورمہینے کی پہلی کو پانچ تاریخ کی واپسی کے وعدے پر دو سو روپے قرض لیا کرتا تھا۔یہ قرض بھی ان سگریٹوں کی طرح کاادھار تھاجو کبھی چکایانہ گیا۔ آفریدی میرے سامنے صوفے پر دھنس گیا اور میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اچھی سی چائے کی فرمائش کردی میں نے یہ فرمائش بیٹے کے ذریعے زوجہ محترمہ تک پہنچانے کے بعدآفریدی سے حال احوال پوچھا اور ادھر ادھر کی رسمی باتیں کرنے کے بعد کہا’’یار ! یہ بتا کتنے پرچے ہیں ؟‘‘ میرے سوال پر وہ چونک پڑا ’’ کیا مطلب ؟‘‘ ’’تیرے ٹھاٹھ باٹھ سے تو یہی لگ رہا ہے کہ تجھ پر کئی پرچے کٹ چکے ہوں گے ‘‘میری اس بات پر آفریدی نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قہقہہ لگایا اور بتانے لگا میرے پا نچ اسکول ہیں اور ابھی ایک کالج کا فیتہ کٹنے والا ہے وہ بتانے لگا ’’ پانچ مہینے پہلے ہی فیتہ کٹ جانا تھا لیکن یہ کورونا کی مصیبت آگئی ،اب ستمبرکے آخری دنوں میں افتتاح کروں گا‘‘ آفریدی نے ایک وفاقی وزیر کا نام لے کر بتایا کہ اسکول کی افتتاحی تقریب میں انہوں نے آنا ہے ،میں نے آفریدی سے پوچھا کہ کیا ان پانچ اسکولوں سے یہ سب ٹھاٹھ باٹھ ممکن ہے ؟ جواب میں آفرید ی نے ہنس کر کہاکہ بس یار ! گزارہ ہوجاتا ہے ۔ دو ماہ پہلے ہونے والی ملاقات میں میرے دوست نے جس سوال کا جواب گول کر دیا تھا اس کا جواب مجھے ان دنوں صاحبزادے کے یونیورسٹی میں داخلے سے مل گیا مجھے لگ پتہ گیا کہ سیر کی کتنی بکتی ہیں اور یہ بھی علم ہوگیا کہ تعلیم فروشی کتنا منافع بخش کاروبار ہے،صاحبزادے کے گیارھویں میں اچھے نمبر تھے بارھویں میں اس نے خو ب محنت کی لیکن کورونا کی وجہ سے اسے امتحان دیئے بنا ہی پاس قرار دے دیا گیا اب مرحلہ یونیورسٹیوں کے چکر کاٹنے اور اینٹری ٹیسٹوں کی فیسیں بھرنے کا تھا ،ایک دن صاحبزادے نے ساڑھے تین ہزار روپے مانگے کہ فلاں یونیورسٹی کے اینٹری ٹیسٹ کی فیس ہے ،کچھ دن بعد دوسری یونیورسٹی نے اپنے داخلہ دینے کا اعلان کردیا ،صاحبزادہ پھر حاضر ہوگیا کہ بابا ! اس یونیورسٹی کا بھی اینٹری ٹیسٹ دینا ہے ،بابا کے پا س دوسرا کوئی آپشن نہ تھا فیس دے دی گئی اس طرح اسلام آبا دکی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری جامعات میں داخلے کے لئے لگ بھگ بیس پچیس ہزار روپے اینٹری ٹیسٹ کے نام پر خرچ ہوئے،ان اینٹری ٹیسٹوں کی تیاری کے لئے پچیس ہزار روپے کی ٹیوشن کا حساب الگ سے ہے ۔ اینٹری ٹیسٹوں کی تیاری اور رجسٹریشن کے بعد باری امتحان دینے کی تھی ،ہرہفتے صاحبزادہ کسی نہ کسی یونیورسٹی کااینٹری ٹیسٹ دینے پہنچا ہوتا ایک دو بار تو میں اسے چھوڑ آیا پھر کہا کہ بیٹا ! ان آنیوں جانیوں میں مجھے شامل نہ کرو،مجھے تو معاف رکھو،ویسے مجھے سمجھ یہ بھی نہیں آئی کہ ان اینٹری ٹیسٹوں کی ’’پخ ‘‘ کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ خود ہمارے امتحانی نظام پر سوالیہ نشان ہے،اگر یہ اینٹری ٹیسٹ اتنے ہی ضروری ہیں اور ان ہی کی ساکھ کسی طالب علم کی قابلیت اہلیت جانچنے کا پیمانہ ہے تو پھر سرکاری سطح پر لئے جانے والے امتحانات کی کیا منطق ہے ؟ امریکہ میں بھی پیشہ وارانہکالجوں جامعات میںداخلے کے لئے طالب علم کو مختلف زاویوں سے جانچا پرکھا جاتا ہے ان کا غیر نصابی سرگرمیوں کا ریکارڈ دیکھا جاتا ہے ،ان کے رحجانات دیکھے جاتے ہیں اور پھر اسے داخلہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ہمارے یہاں کہنے کو یہی کام ان اینٹری ٹیسٹوں سے لیا جاتا ہے جس میں صرف بچے سے نصابی سوال ہی پوچھے جاتے ہیں یا چند ایک سوال ادھر ادھر کے کر کے خانہ پری کر دی جاتی ہے ۔اس کام کے لئے این ٹی ایس والے ساڑھے سات سو روپے وصول کرتے ہیں اور نجی جامعات خواہشمندوں سے ساڑھے تین تین ہزار روپے وصول کرتی ہیں۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کے نام پر کھلنے والی ان جامعات کی چاندی کا یہیں سے آغاز ہوتا ہے ،اچھے نام والی جامعہ کے لئے ہزاروں طلباء ’’قسمت‘‘ آزماتے ہیں۔ ٹیسٹوں میں چار پانچ ہزار طلباء کی شرکت تو عام سی بات ہے ،پانچ ہزار طلباء کی شرکت کا مطلب اس جامعہ کی اکاؤنٹ میں پونے دو کروڑ روپے کا اضافہ ہوگیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اینٹری ٹیسٹوں کے ’’سیزن ‘‘ کے بعد ان کا اصل داخلوں کا سیزن شروع ہوتا ہے اس میں طریقہ ء واردات بھی خوب ہے ،ایک جامعہ نے کامیاب امیداروں کی فہرست جاری کردی اور طالب علم کو فیس جمع کرانے کے لئے تین دن دے دیئے داخلہ اور سمسٹر فیس کے ساتھ یہ رقم عموما ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہوتی ہے ،دوسری جامعہ کامیاب امیدواروں کی فہرست کسی اور دن جاری کرتی ہے اور تیسری کسی اور دن ،اب پہلی یونیورسٹی میں داخلے کا اہل طالب علم اس خدشے سے داخلہ لینے پر مجبور ہوتا ہے کہ دوسری تیسری میں اگر نام نہ آیا تو یہ بھی ہاتھ سے نہ جائے، وہ اگر پہلے لسٹ جاری کرنے والی میں داخلہ لے لے اور بعد میں کسی دوسری یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے اپنی فیس واپسی کا تقاضہ کرے تو اسے چالیس ہزار روپے کی کٹوتی کی مالیاتی سزا بھگتنی پڑتی ہے ،یہ کیا نظام ہے ،یہ کیا طریقہ ہے ،یہ جامعات ایک ہی دن کامیاب امیدواروں کی فہرست کیوں نہیں جاری کرتیں ؟ حیرت تو یہ ہے کہ اس پر وزارت تعلیم منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہتی ہے ،کئی نجی یونی ورسٹیاں خلوص نیت سے معیاری تعلیم فراہم کر رہی ہیں لیکن جو ایسا نہیں کر رہیںان کے چنگل میں پھنسے عوام منتظر ہیں کہ تحریک انصاف اور شفقت محمود صاحب کب ان کے حال پر کن شفقت فرماتے ہیں ۔