ایک زمانہ تھا کہ ادب کے طالب علموں کے لیے اچھا اور کلاسیکی ادب پڑھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع اور امکانات پیدا کیے جاتے تھے اور اسے ہی ادبی تعلیم کا حسن اور سلیقہ سمجھا جاتا تھا۔ ہمارا آج بھی ایمان ہے کہ آپ ادب کے طالب علم کو سو پچاس اچھی کتابیں پڑھا دیجیے، اچھی، خالص اور شستہ تنقید کے رستے وہ خود بنا لے گا۔ خدا لگتی کہتا ہوں کہ اجنبی دیسوںسے سمگل کی جانے والی تحقیق و تنقید کی نئی نئی موشگافیوں نے ہمارے ادب کی خدمت کم کی ہے، سیاپا زیادہ ڈالا ہے۔ ہمیں یہ بھی جان چکنا چاہیے کہ اگر ہم نے زندگی کو قابلِ قبول بنانا ہے تو ہمیں جلد یا بدیر ادب کے ہاتھ پہ بیعت کرنا ہوگی اور اگر اس میں رس بھرنا ہے تو دیارِ غیر کے غیر مؤثر تحقیقی ٹوٹکوں اور کڑوی کسیلی بدیسی تنقیدی اصطلاحات سے جان چھڑا کے عفیفہ تنقید اور مسماۃ تحقیق کے لیے مقامی سانچے یاد یا ایجاد کرنا ہوں گے۔ ادبی بیوٹی پارلروں( ملکی جامعات کے شعبہ ہائے اردو) میں مِس تخلیق کی زلفیں سنوارنا ہوں گی۔ یہاں یہ عالم ہے کہ تخلیق سے عاری لوگ، تحقیق اور تنقید کے نئے پہلوؤں پہ غور کرنے ہی سے گھبراتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک جامعہ میں کسی زبانی امتحان کے بعد کہا گیا کہ پی ایچ۔ ڈی کے لیے کوئی موضوع تجویز کریں۔ عرض کی: ’’اُردو شاعری کی آنکھیں‘‘ بڑا دل کش اور بھرپور موضوع ہے۔پورا سٹاف سوچ میں پڑ گیا، ابھی تک پڑا ہوا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ادب میں کرونا، ڈینگی، وباؤں، سماجی مسائل، عجیب و غریب اداؤں، پرندوں، درختوں، تصورِ بیگانگی، طرزِ حیرانگی، اندازِ حماقت، سلسلۂ دشنام، جادۂ کمنام پہ ڈاکٹریٹ ہو سکتی ہے لیکن آنکھیں جو کائنات کے حُسن کا نصف ہیں، جن کی تعریف میں خدائے لم یزل رطب اللسان ہے اور جن کے طلسم میں امیر خسرو سے لے کے قلی قطب شاہ، ولی، میر، سودا، غالب، اقبال، فیض و فراق و فراز و پروین و شاہین عباس تک سب گرفتار ہیں: آنکھیں تمھارے ہاتھ پہ رکھ کر مَیں چل دیا اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں مَیں اس پہ پی ایچ۔ ڈی کرانے میں اس لیے تأمل ہے کہ اس میں تخلیق کا حُسن ڈُل ڈُل پڑے گا، جو ہماری روایتی تنقید اوردرایتی بلکہ درانتی تحقیق سے سنبھالا نہیں جائے گا۔ اس وقت نصاب کی یہی یبوست اور نظام کی وہی نحوست تعلیمی جادے کی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کے لگتا ہے تحقیق کو تخلیق کی بد دعا لگی ہوئی ہے۔ ایک لطیفہ یہ کہ پنجاب بھر کے کالجوں میں اساتذہ کی ترقیوں کو ایچ ای سی کے اپرووڈ جرنلز میں شائع شدہ مقالہ جات سے مشروط کر دیا گیا ہے، مزے کی بات یہ کہ پورے پنجاب میں کروڑوں کے بجٹ کے حاملہ کالجوں کے پاس شاید ایک بھی اپرووڈ مجلّہ نہیں… ایک دُرفنطنی یہ کہ پی ایچ۔ ڈی کے زبانی امتحان کے لیے ایک مقالے کی اشاعت کی بھی شرط ہے۔ یہ دیکھے جانے بغیر کہ کتنی جامعات سے کتنے طلبہ ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں اور کتنے مجلّے حرکت میں ہیں۔ ہمارے ایک خیر خواہ نے بتایا: متحرک مجلّوں کے وارث غرض مند دیوانوں سے اس کارِ مشقت کا بھاری معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔ درجہ چہارم کی شاعری کی بات چھوڑیں، ہمیں انگلیوں پہ گن کے بتایا جائے کہ اس وقت پاکستان کی جامعات میں محققین و ناقدین کی بلا ضرورت فصلیں اگانے کے ساتھ تخلیق کار کتنے تیار کیے جا رہے ہیں؟ (تخلیق دار ہونا اور بات ہے!) چلیں یہ بھی چھوڑیں، صرف اتنا بتا دیں، ان میں تخلیق شناس کتنے ہیں؟ کوئی تو گڑ بڑ ہے، جس کی بنا پر ہر سال سب سٹینڈرڈ تحقیق کی صورت مکھی پہ مکھی ماری جا رہی ہے۔ غرض کا مارا طالب علم ایسے موضوعات ڈھونڈتا ہے، جس پہ پہلے کام ہو چکا ہو۔ پھر ایچ ای سی یا کسی جامعہ کو اپنی مارا ماریوں سے فرصت ہی نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کے اس دَور میں بھی تمام جامعات میں ہونے والے تحقیقی موضوعات کا کوئی گوشوارا ہی تیار کرا لیا جائے۔ لے دے کے سرقہ بازی (Plagerism) کا ایک ٹُٹا پَجا نظام وضع کیا گیا ہے، جس سے بچ نکلنے کے ہم نوری نت کی طرح اِک سَو اِک وَل جانتے ہیں۔ اگر جامعات میں تحقیقی وفور اور تنقیدی ظہور کا یہی عالم رہا تو چند سال بعد تحقیق کے موضوعات مزاحیہ ادب میں شمار ہوا کریں گے۔ حکیم جی پوچھتے ہیں: ذرا مجھے ’جامعہ تلاشی‘ لے کے بتاؤ کہ ہر مہینے وطنِ عزیز کے کروڑوں ، اربوںروپے ڈکار لینے والی جامعات نے اکیسویں صدی کے ان اکیس سالوں میں اچھے خاصے ’بلکہ، چونکہ، چنانچہ، اورینٹل، یونیورسٹی‘ کو: بَل کہ، چوں کہ، چناں چہ، اوری اینٹل، یونی ورسٹی‘بنانے اور غیر زبانوں کے تنقیدی ضابطوں، تحقیقی سانچوں کے ساتھ مقامی فن پاروں کا بے ڈھنگا ناپ لینے اور ان کے لیے آڑے تِرچھے چولے تیار کرنے کے سوا کیا تیر مارا ہے؟ لفظوں کی شکلیں بگاڑنے کے پیچھے ان کے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ رشید حسن خاں، گیان چند، دھیان چند، گمان چند نے ایسے ہی لکھا ہے!! رشید حسن خاں واقعی ایک مستند و مستعد محقق تھے، انھوں نے اُردو ادب کے بعض متون کو نہایت عمدگی اور کامل سنجیدگی سے مرتب کیا لیکن زبان کے معاملے میں ہر علاقے کا اپنا رواج، اپنا مزاج ، اپنا خراج ہوتا ہے۔ ہم پنجابیوں کو لاکھ دلیلیں دیں، ہاتھ جوڑیں،دعوتیں کھلائیں، یہ دلی لکھنو کی طرح گندم، قمیص، مرہم، فوٹو، موٹر، اخبار اور بلبل کو مذکر نہیں باندھ سکتے۔ ان سے تو ہر فہمائش کے باوجود آج تک میز، جھاڑو، سائیکل، مؤنث نہیں ہو سکے۔ یہ اپنی رہتل میں رچے بسے لوگ، تسلّی کو تسلّا، ذمہ داری کو ذمہ واری اور بتی چوک کو بتیس چوک کہہ کے امتحان میں فیل ہونا گوارا کر لیں گے لیکن زبان کے معاملے میں کتابی اور غیابی باتوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔مزے کی بات یہ کہ اپنے یہی رشید حسن خاں ذہن کا استعمال نہ کرنے والے اہلِ قلم کو’’ حرام زدگانِ ادب‘‘ کے لقب سے یاد کرنے کے ساتھ یہاں تک فرماتے ہیں: ’’خدا بندے کو غلام بنائے، غلام صورت نہ بنائے۔‘‘ افسوس ناک پہلو یہ کہ آج جامعات میں بسائے گئے آستانوں کے اندر ’’علم، حلم، چلم کا داخلہ سختی سے منع ہے۔ ہاں جہل کی چہل پہل، سہل ہے، اندر پیرانِ حشم، گردنوں، بالوں، کپڑوں، لہجوں کو من من کلف لگائے بیٹھے ہیں ۔ جس میں مزید اضافے کی غرض سے مریدین و زائرین و گدی نشینوں کے لیے بھرتیاں کھلی ہیں۔ علمی حوالے سے کسی سے کوئی موازنہ، مقابلہ یامسابقہ نہیں، بس کرسیوں، گریڈوں، عہدوں پہ عقابی نظر ہے۔ پھر تحقیق کو جانچنے کے لیے بھی ہم نے برہمنوں والا انداز اپنا رکھا ہے۔ خبردار! اگر ہمارے مقالوں کو کھول ، بول، موضوعات کو پھول اور محقق کو تول کر دیکھا، آنکھیں بند کر کے پچاسی اور پچانوے کے درمیان نمبر لگا سکتے ہو تو لگاؤ ورنہ… اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں!!! مطلب یہ کہ خبردار ہو جاؤ کہ اسی شہر میں ایسے ایسے اصیل اور فرماں بردار ممتحن بھی موجود ہیں جنھوں نے کبھی چائے، بسکٹ کے ذائقوں اور چیک کے ہندسوں کے علاوہ کوئی فضول بات کرنا سیکھا ہی نہیں!!!