اس وقت دنیا بھر کی جامعات، یورپ ہو یا امریکا، جاپان ہو یا ٹانگانیکا، ہر جگہ طلبہ و طالبات کی قابلیت و صلاحیت کو جانچنے کے درجنوں انداز مقرر ہیں، جن میں شخصیت کی پرداخت، باطنی خصائل، ذہنی استعداد، مثبت منفی اخلاقی و اطلاقی رویے، نت نئے تحقیقی تجربات سے واقفیت، انفرادی قابلیت، گروہی سرگرمیاں، حاضری و حاضر دماغی، عملی ذہانت، مجموعی اعتماد اور سب سے بڑھ کے تخلیقی صلاحیتیں،ان سب کی مجموعی جانچ پرکھ سے گریڈ، درجے اور درجۂ حکمت و حرارت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عملی زندگی میں اس کا علمی، تحقیقی رجحان اور زیست کی منڈی میںرسد، طلب کی صورتِحال کے جائزے سے اس کے مستقبل کا مستقل فیصلہ ہوتا ہے۔ ایک طرف ہماری جامعات ہیں، جہاں روکڑے کی برکت اور ’اکڑ دکڑ بھمبے بھو، اسی نبے پورا سَو‘ والی کاروباری سوچ کی حرکت کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی تو آ گئی لیکن نئی سوچ اور مثبت اپروچ کی پنیری نہ پنپ سکی۔ ایک زمانے میں ممتاز مفتی نے اپنے ایک نہایت دیسی قسم کے دوست کو اچانک کوٹ ٹائی لگائے دیکھ کر برملا کہا تھا: ’’ایسا لگ رہا ہے جیسے اللہ رکھی نے ساڑھی پہن لی ہے۔‘‘ آج جس طرح وطن کے ایک ایک کوچے میں جہالت سانس لیتی ہے اور جھوٹی سچی دانش کبھی کبھی کھانس لیتی ہے۔ ایسے ہی ہماری یونیورسٹیوں میں بھی دل ، دماغ، درایت، دانائی کی آنکھیں بند کر کے روایت کی تیزی سے موہوم ہوتی لکیر کو پورے رِدھم اور اُدھم کے ساتھ پیٹا جا رہا ہے۔ ہمارے باریک بیں علما کی سمجھ میں اتنی سی بات بھی نہیں آئی کہ اس وقت ہماری نئی نسلوں کو قدیم یا جدید نہیں، جامع نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے۔ ’رٹّا سٹّا سسٹم‘ پوری دنیا میں کب کا اپنی موت آپ مر چکا لیکن ہمارے ہاں اپنی اپنی پسند کے بے مصرف طوطے تیار کرنے کا عمل پوری مستقل مزاجی (جسے نہایت آسانی سے ڈھٹائی کا نام دیا جا سکتا ہے) جاری و ساری ہے۔ہمیں آج تک معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ پھوپھی گوگل، چچا انٹرنیٹ اور آپا یوٹیوب کے ہوتے ہوئے ہمیں ڈیٹا یا مواد کی فکر نہیں کرنی چاہیے، وہ تو انفرمیشن ٹیکنالوجی میںہم سے کئی ہاتھ آگے طلبہ و طالبات کی انگشتِ شہادت کے ایک اشارے پہ دھرا ہے۔ ہمارے بیشتر اساتذہ کو علم ہی نہیں کہ اکیسویں صدی نصاب کی مستقلی کی نہیں مہارتوںکی منتقلی کی صدی ہے۔اپنی معلومات دوسروں تک پہنچانے کا عمل ٹرانسمشن کہلاتا ہے،ایجوکیشن اس سے آگے کی چیز ہے۔اگر بچے وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم نے سکھایا تو یہ ٹریننگ ہے، جوجانوروں اور پرندوں کی بھی ہوتی ہے۔ ریچھ کا ناچ، بندر کا سسرال جانا، میاں مٹھو کا چوری مانگنا اور بکرے کا اصلی چاروں پاؤں کے ساتھ لکڑی کے ایک پائے پہ کھڑا ہونا اس کی ادنیٰ سی مثالیں ہیں۔ انسان کے بچے کو سدھایا یا اس کے حافظے کو آزمایا نہیں جاتا بلکہ اسے ایجوکیٹ کیا جاتا ہے، نکھارا جاتا ہے، اُس کو نصاب کی آڑ میں زندگی سکھائی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے مزید آگے کے سفر کے بارے میں نہ صرف سوچ سکے بلکہ مستقبل کے لیے بہتر اور قابلِ عمل فیصلے کرنے کے قابل ہو سکے۔ المیہ دیکھیے کہ آج کے دور میں بھی ہم طالب علم سے اس کا گریڈ، ڈویژن، سی جی پی تو پوچھتے ہیں، کوئی یہ نہیں دریافت کرتا کہ اس نے اس سارے تعلیمی دورانیے میں سیکھا کیا ہے؟ ایک بہت بڑے ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سی جے ڈوباش کہا کرتے ہیں کہ آج کے استاد کو یہ جان لینا چاہیے کہ ہم بیسویں صدی کے ہیں اور ہمارے طلبہ اکیسویں صدی کے۔ ہم ان جدید، شدید، مزید اور اَتھرے جِنّوں کو تعلیم کی پرانی بوتل میں زیادہ دیر بند نہیں رکھ سکتے،ایسا کرنے سے یہ ضائع ہو جائیں گے یا جہالت کے عادی…ہمارے لیے یہ دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ ہمیں نئی صدی کے تقاضوں اور طلبہ کی ضرورتوں کے مطابق خود کو بھی بدلنا پڑے گا۔ ہمیں طلبہ میں سننے، دیکھنے، سوچنے، بولنے اور لکھنے کی صلاحیتیں ایک ساتھ بیدار کرنا ہوں گی۔ بچے تو بچے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں سال ہا سال سے تحقیق کے نام پہ بھی کچھ نیا یا اچھوتا کر گزرنے کی بجائے علم و ادب کی جوئیں ہی نکالی جا رہی ہیں۔ بے نام ادیبوں، بدنام شاعروں،گمنام محققین کے کسمپرسی بھرے حالات کو مقالوں میں ٹائپ کر کر کے ان کی معاشرتی اور ادبی بے بضاعتی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ بہت سے بدبخت کاروباری ، جنھیں استاد کہنے میں اس لفظ کی توہین کا شائبہ ہے، آج سوشل میڈیا پہ اعلان کر کے ایسی بے مغز تحقیق اور ہر سطح کے بے برکت مقالے، خواہش وروں اور ضرورت مندوں کو نئے آلوؤں اور پرانے چاولوں کے بھاؤ بیچ رہے ہیں۔ اوپر سے جامعات کی روز افزوں میانہ روی، استقامت پذیرروایت پرستی اور وفورِ مساوات نے مؤرخ اور مورکھ کا فرق مٹا ڈالا ہے۔ پھر ہم جیسے اساتذہ کی خدمتِ خلق، طلبہ نوازی، علم پروری اور کسی چائے کے اشتہار سے بھی بڑھے ہوئے اپنے پن کا یہ عالم ہے کہ ایک بار ہمارا کوئی نوخیز محقق جیسے تیسے، ایسا، جیسا، ویسا مقالہ لکھ یا لکھوا کے، اُسے جلد کے قالب میں پھنسا کے لے آئے، اُس کے بعد کسی سخت سے سخت ممتحن کا باپ بھی اسے علمی و عملی دنیا کی مزید فتوحات سے باز نہیں رکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نقل و چسپ (Copy, Paste) کا دلچسپ ہنر یا کار آمد دَھندا عروج پر ہے۔ لالہ بسمل کے بقول: تحقیقِ جامعات کے دلچسپ جرم پر ہنستا تو ہو گا آپ بھی ٹیچر کبھی کبھی جہاں تک ہمارا محدود علم یاوری کرتا ہے، اُردو دنیا کی ساری رونق، تخلیق یعنی شعر وادب کے دم قدم سے تھی، ہے اور رہے گی،جس کے اوپر بقول شخصے:’ تحقیق کب سے چڈھی گانٹھے بیٹھی ہے۔‘ ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری ایک دم دیسی جامعات میں اپنے خالص مقامی ادب پر تحقیق و تنقید کے نت نئے ٹوٹکے اور بدیسی تجربات استعمال کرتے کرتے اس کا ذائقہ، زائچہ اور حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ ادب کا سیدھا سادہ طالب علم انھی اجنبی تقاضوں کی آڑ میںادبی قرأت اور تخلیقی حظ اندوزی کی بجائے محاکمے، موازنے اور مضاربے کے سنگھاسن پہ براجمان ہے۔ (جاری ہے)