دنیا میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ قائم کیا گیا جہاں اس موضوع پر کہ دنیا میں امن قائم کیسے کیا جائے کہ موضوع پر صرف تقریریں ہوتی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد جب مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت جنگ چھڑی تو ہمارے پہلے وزیر خارجہ سرظفراللہ خان نے اقوام متحدہ میں طویل ترین تقریر کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ کئی روز تک مسلسل و متواتر جاری رہنے والی اس تقریر سے کہتے ہیں مسئلہ کشمیر سلجھنے کے بجائے اور الجھ گیا اور آج تک یہ مسئلہ الجھا ہی ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو دوسرے وزیر خارجہ تھے جنہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں اپنی دھواں دھار تقریروں سے عالمی سطح پر شہرت کمائی اور اپنی خطابت کی دھاک جمائی لیکن مسئلہ کشمیر وہ بھی حل نہ کرا سکے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا کام بذریعہ تقریر کیا۔ ان کا ایک کارنامہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ پچپن سے زائد مسلم ممالک کے سربراہوں میں پہلے سربراہ ہیں جنہوں نے قرآن حکیم کی تلاوت سے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ اس کے لیے وہ اپنے ہمراہ ایک قاری بھی ساتھ لے گئے تھے اور عالمی سربراہوں کو کلام الٰہی ان ہی کے ذریعے سننے کی سعادت نصیب ہوئی لیکن ان سب بابرکت باتوں کے باوجود مسئلہ کشمیر اپنی ہی جگہ پہ لٹکا رہا۔ ساٹھ ستر برس اقوام متحدہ میں کی جانے والی ہمارے حکمرانوں کی تقریروں ہی میں گزر گئے۔ بھارت نے وعدے کے باوجود کشمیر میں نہ حق خود ارادی دی اور نہ استصواب رائے کرایا۔ ہم بھارت جیسے گرانڈیل ملک سے باوجود چھوٹے ہونے کے کئی جنگیں بھی کشمیر کے مسئلہ پر لڑ چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ یہی مسئلہ کشمیر ہے اور اب جو کشمیر کا اسٹیٹس مودی سرکار نے بالجبر جس طرح تبدیل کیا ہے اس نے کشمیریوں کے اندر ایک آگ سی لگا دی ہے۔ بھارتی حکومت نے اس آگ کو پھیلنے اور مزید بھڑکنے سے روکنے کے لیے مارے خوف کے کشمیر میں کرفیو لگا دیا ہے جس کو اب پچاس روز سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ کشمیری اپنے گھروں میں بند ہیں۔ اتنے دنوں سے وہ اپنے گھروں میں کس طرح فاقے کاٹ رہے ہیں، کن مصائب کا شکار ہیں اس کا حال اللہ جانتا ہے یا پھر ان کشمیریوں کا دل۔ ہم لوگ تو ان سے زبانی حکومتی ہمدردی ہی کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جلسے جلوس اور ان میں دھواں ھار تقاریرکر سکتے ہیں۔ قوم و ملک کی طرف سے ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی اقوام متحدہ کے تازہ اجلاس میں ایسی دل پذیر ایسی متاثر کن تقریر کر آئے ہیں جس کی ایک زمانے میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ کسی نوٹس وغیرہ کے بغیر کی جانے والی اس فی البدیہہ تقریر میں انہوں نے بھارت اور مودی سرکار کا جو پول کھولا ہے، اسلام کی جس طرح ترجمانی کی ہے اور جس قوت ایمانی اور طلاقت لسانی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی اپنوں ہی نہیں غیروں میں بھی شہرہ ہے۔ پچھلے جو حکمران گزرے ہیں، ان کا موازنہ موجودہ وزیر اعظم سے کیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے دونوں حکمرانوں کا اللہ معاف کرے اپر چیمبر بالکل ہی خالی تھا۔ اس کے برعکس ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر سے اپنے آکسفورڈ کی تعلیم کی نہ صرف لاج رکھ لی بلکہ یہ بھی دکھا دیا کہ لندن میں رہنے اور انگریزی ادارے میں زیر تعلیم رہنے کے باوجود ان کی حسِ مسلمانی قطعی متاثر نہیں ہوئی۔ وہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت اعتماد سے اپنے مذہب کا نہ صرف دفاع کر سکتے ہیں بلکہ مغرب اور اہلِ مغرب کی بدگمانیوں اور غفلتوں کا پردہ بھی چاک کر سکتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم کی اس تقریر سے عالمی رائے عامہ کشمیریوں کے حق میں ہموار ہو گی لیکن بات وہی ہے کہ عالمی رائے عامہ کے محض ہموار ہونے سے کشمیریوں کے دُکھ کون سے دور یا ہلکے ہو جائیں گے۔ تقریر پر لاکھ ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے برس جائیں لیکن کیا اس سے وہ بھوک اور پیاس مٹ جائے گی جو کشمیریوں کے پچاس روز سے اپنے گھروں میں مقید رہنے سے ان کے معدوں میں لگی ہو گی۔ دنیا عملاً طاقت ور کے سامنے بے بس ہوتی ہے۔ دانشمندوں کی دانش مندانہ تقریریں اگر سلگتے ہوئے مسائل کو سلجھا سکتیں تو اقوام متحدہ کے ہر اجلاس کے بعد دنیا اور پرسکون و پرامن ہوتی جاتی اور اب تک جنت ارضی بن چکی ہوتی لیکن ایسا نہیں ہے۔ بھینس اسی کی آج بھی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے۔ دنیا میں آج بھی جنگل کا قانون ہی رائج ہے۔ اقوام متحدہ کا قیام محض اس خوش گمانی کو تقویت دینے کے لیے ہے کہ انسان اور اس کی انسانیت مہذب ہو چکی ہے اور اپنے تنازعات سلجھانے کے لیے بات چیت اور مکالمے اور تبادلۂ خیال پر یقین رکھتی ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ جنگ خود ایک مسئلہ ہے لیکن کیا کیا جائے اس وقت جب مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانے اور ظالم کے چنگل سے چھڑانے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہی نہیں مجبوری بن جائے۔ بظاہر یہی اس کا حل ہے لیکن عقل اور دانشمندی یہ بھی کہتی ہے کہ ساٹھ ستر لاکھ مظلوموں کے لیے کروڑوں اور اربوں انسانوں کو ہلاکت میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب جنگیں افواج کے مابین نہیں، ایٹمی طاقت ہونے کے سبب ساری آبادیوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم کی ہوش مندانہ تقریر نے کشمیریوں اور ہمارے زخموں پر پھاہا ضرور رکھا ہے لیکن یہ پھاہا جب خشک ہو جائے گا تو زخم پھر ہرے ہو جائیں گے، ان کی شدت اور تکلیف اور زیادہ بڑھ جائے گی، تب کیا ہو گا؟ کیا پھر اقوام متحدہ کا ایک اور اجلاس؟ ایک اور ہوش مندانہ اور دانشمندانہ تقریر؟ کیا تقریریں ہمارے مسئلے کا مستقل حل ہیں؟ یا یہ ذہنوں میں لگے جالوں کو صاف کرنے کا محض ایک ذریعہ ہیں۔ جالے صاف ہو جائیں تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ یا خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک… چاہے تغافل میں کمی نہ کی جائے، احوال سے مظلوموں کے بے خبر نہ رہا جائے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ جن کے نزدیک الفاظ عمل کا متبادل ہیں۔ ہم سکون و اطمینان اور اُمید و مسرت کو لفظوں ہی میں ڈھونڈتے ہیں۔ جب اعمال ساتھ چھوڑ جائیں۔ سیرت و کردار میں اندرونی کمزوری موجود ہو، زندگی سے پیار اور موت سے سراسیمگی ہو تو اور کیا کیا جائے کہ ہم لفظوں سے مسرت اور امید کشید کرنے لگیں اور کیا کہنے ہیں ہمارے کہ اب تک ہمیں جتنے حکمران ملے ہیں انہوں نے ہمیں لفظوں ہی کی کٹھی میٹھی گولیاں کھلائی ہیں اور ان ہی سے ہم نے اپنے لیے سہانے خواب بنے ہیں۔ کیا یہی ہماری تقدیر ہے؟ کیا یہی تقدیر ہماری مجبوری ہے؟ سرظفر اللہ خان کی کئی روز کی تقریر ہو یا ہمارے وزیر اعظم کی پچاس ساٹھ منٹ کی بھرپور تقریر۔ بات ساری اتنی ہی ہے کہ ع ’’تقریر‘‘ تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی اس لیے کہ لاکھوں کشمیریوں پر جو افتاد ٹوٹی ہے، وہ کوئی ایسا پالیسی، ایسا لائحہ عمل چاہتی ہے جس سے غلامی کا وہ طوق کشمیریوں کی گردنوں سے اتر جائے جسے اتارنے کے لیے قربانیاں دی جا رہی ہیں۔وہ پالیسی، وہ لائحہ عمل کیا ہے، یہ سوال وزیر اعظم سے ہے کہ اچھی سے اچھی تقریر اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔