معزز قارئین!۔ جب کسی رشتہ دار / دوست کے بیٹے / بیٹی کی تقریب ِ شادی میں میری کسی پرانے دوست سے ملاقات ہوتی ہے اور باتوں باتوں میں ہم کسی مشترکہ دوست یا دوستوں کو یاد کرتے ہیں تو ، مَیں مزید تازہ دَم ہو جاتاہُوں۔ یہ سوچ کر کہ ابھی میرا ’’ دوستی کا سفر ‘‘ جاری ہے ۔ علاّمہ اقبالؒ نے بھی ہمیں یہی درس دِیا تھا / ہے کہ … ’’حیات ، ذوقِ سفر کے سِوا کچھ اور نہیں !‘‘ …O… لاہور کے ریٹائرڈ بنکر اور ماہرِ تعلیمات ،سیّد محمد یوسف جعفری سے میری 1966ء سے دوستی ہے ۔ وہ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے بانی رُکن تھے لیکن، جب 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہُوا تو وہ ہمیشہ کے لئے سیاست سے تائب ہوگئے ۔ دو روز قبل لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں جعفری صاحب کے چھوٹے بھائی کرنل (ر) محمد ایوب جعفری کے بیٹے سیّد محمد مصطفیٰ جعفری کی سیّد سعید احمد زیدی کی بیٹی ، سیّد ہ مہر فاطمہ زیدی سے شادی کی تقریب میں میری ، (صدیوں بعد ) اپنے دو دوستوں نامور صحافی سیّد حسین نقی اور سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل ( اب سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ) ملک پرویز اخترسے بھر پور ملاقات ہُوئی۔میرے ایک (مرحوم) سرگودھوی دوست شاعر ضامنؔ علی حیدری نے کہا تھا کہ … مَیں اُن کے دِل کی سمجھتا ہُوں، وہ میرے دِل کی! پیام آئے نہ آئے ، نظر ملے نہ ملے! …O… مَیں نے دیکھا کہ تقریب شادی میں دُلہا / دلہن کے رشتہ داروں کے علاوہ مہمانوں میں ساداتؔ کی اکثریت تھی اور ’’اُمتّی ‘‘ (غیر سیّد) خواتین و حضرات ۔ آٹے میں نمک کے برابر تھے لیکن ، مجھے تو ، تقریب کے سبھی ’’اُمتّی ‘‘ بہت اچھے لگے ۔ اِس لئے کہ ’’ انجیلِ مقدس ‘‘ (عہدنامہ جدید) میں حضرت عیسیٰ ؑ سے منسوب "Sermon of the Mount" ( پہاڑی کا وعظ) کے مطابق ایک خاص پہاڑی پر چڑھ کر حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے "Disciples" (شاگردوں ، چیلوں ، حواریوں ) سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ "You are Salt to the Earth" یعنی ۔ ’’ تُم میرے لئے ’’ زمین کے نمک ‘‘ (غنیمت ِ زمانہ، قابل ِ قدر ، ایماندار لوگ) ہو!‘‘ ۔ مَیں اِس لئے بھی خُوش تھا کہ ’’ میری طرح ’’ اُمتّی ‘‘ راجپوت ، پنجابی کے نامور شاعر "Salt Range" (کوہ ِ نمک کے علاقے )کے راجا صادق اللہ خان سے بھی مجھے جپھّی ڈالنے کا موقع مِلا۔ مجھے یاد آیا کہ ’’ 16 اگست 2009ء کو اسلام آباد میں میرے دیرینہ دوست (سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات ونشریات ) سیّد انور محمود گیلانی کے بیٹے سیّد بلال محمود کی تقریب شادی میں مَیں نے دیکھا کہ ’’مہمانوں میں ساداتؔ ۔ خال خاؔل تھے‘‘ لیکن ، شادی ہال ۔ اُمتّیوں ؔسے بھرا پڑا تھا ۔ 24 نومبر 2018ء کو لاہور میں بھی برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف ؔگیلانی کی بیٹی سیّدہ آمنہ شاہ گیلانی کی تقریب شادی میں بھی ’’اُمتّی ‘‘ ہی کثرت میں تھے ۔ اب مَیں کیا کرسکتا ہُوں ؟ ۔ یہ تو ، سادات ؔ کا اپنا معاملہ ہے۔ معزز قارئین!۔ دُلہا سیّد محمد مصطفیٰ جعفری کی تقریب ِ شادی میں اُس کے دونوں ماموں کمانڈر سیّد سجاد امام جعفری اور رئیر ایڈمرل سیّد امداد امام جعفری سمیت کئی"Serving" اور "Retired" لیفٹیننٹ جنرلز، بریگیڈئیر (ر) ،میجرز اور ریٹائرڈ جج صاحبان سینئر وُکلائ( مرد اور خواتین ) ڈاکٹرز اور پروفیسرزشامل تھے ۔ سیّد محمد یوسف جعفری خود اپنے نانا تحریکِ پاکستان کے نامور راہنما کی یادگار ’’ محمد علی جعفری ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کے چیئرمین ہیں ۔ سیّد محمد علی جعفری ؒ العمروف ’’ بابا جعفریؒ ‘‘ منقسم پنجاب کی اہم سیاسی اور سماجی شخصیت تھے ۔ لاہور میں قائدین و کارکنان تحریک پاکستان کے ’’ گڑھ ‘‘ اسلامیہ کالج لاہور کے 1903ء سے 1906ء تک پرنسپل رہے ۔خاکسار تحریک کے بانی علاّمہ عنایت اللہ خان المشرقی نامور ادیب و شاعر خواجہ دِل محمد سمیت بعد میں نامور ہونے والے بہت سے اصحاب بھی بابا جعفری ؒکے شاگرد ہونے پر فخر کِیا کرتے تھے ۔ متحدہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ’’ محکمہ تعلقاتِ عامہ ‘‘ میر نور احمد نے اپنی تالیف ’’ مارشل لاء سے مارشل لاء تک ‘‘۔ میں لکھا ہے کہ ’’ سکندر ،جناحؒ پیکٹ‘‘ بابا جعفری ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا ‘‘۔ تحریکِ پاکستان کے ایک اور نامور لیڈر چودھری خلیق اُلزمان نے اپنی کتاب "Path Way to Pakistan' میں تحریکِ پاکستان میں بابا جعفریؒ کا خاص طور پر ذکر کِیا ہے۔حضرت بابا جعفری ؒ کا وِصال 106ء سال کی عُمر میں 16 اپریل 1973ء کو لاہور میں ہُوا۔اِس سے قبل سیّد محمد یوسف جعفری مجھے حضرت بابا جعفری ؒسے ملوانے اُن کے گھر لے گئے ۔ سفید ریش اور نُورانی چہرے والے بابا جعفریؒ نے ایک دلفریب مسکراہٹ سے میرا استقبال کِیا۔ پھر آپؒ نے مجھے بتایا کہ ’’ میرے بزرگان سلطان شہاب اُلدّین محمد غوری اور اپنے مؤ رث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندرؒ کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے اور پھر اُنہوں نے راجستھان کے شہر ’’ بیانہ ‘‘ میں سکونت اختیار کرلی تھی ‘‘۔ معزز قارئین!۔ حضرت بابا جعفری ؒ بڑے دھیمے اور مؤثر انداز میں مجھے اپنے بزرگوں کی داستان سُنا رہے تھے اور مَیں سوچ رہا تھا کہ ’’ جب میرے بزرگوں نے نائب رسول ؐ فی الہند ، خواجہ غریب نواز، حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒکے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا تو، کیا اُن کی بھی بابا جعفری ؒ کے مؤرث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندرؒ سے ملاقات ہُوئی ہوگی؟‘‘۔ دُلہا سیّد محمد مصطفیٰ جعفری کی تقریب ِ شادی میں بھی مجھے تو، تصّور میں حضرت بابا جعفریؒ کا سایۂ شفقت ہی نظر آیا۔ دُلہا کے پھوپھا سیّد علیم حیدر زیدی سے بھی میری دوستی ہے ۔ اُنہوں نے مجھے اپنے دونوں بیٹوں ( Serving) بریگیڈئیر احسن رضا زیدی اور میجر نیئر عباس زیدی سے ملوایا تو، بہت خُوشی ہُوئی۔ تقریب میں سرگرم ، موجود سیّد محمد یوسف جعفری کے ’’ یارِ ڈیرہ ‘‘ سیّد حسن تاج المعروف ’’نواب صاحب ‘‘ کی میری 1977ء سے دوستی ہے ،جب یہ دونوں دوست اور ملک حامد سرفراز 1977ء کے عام انتخابات سے پہلے ائیر مارشل (ر) اصغر خان کو میرے دفتر میں لائے تھے۔ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن جسٹس سیّد جمیل حسین رضوی کے صاحبزادے ، سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سیّد ضیاء حیدر رضوی کو اور مجھے ایک دوسرے سے جپھّی ڈالنے میں بہت مزہ آیا ۔ سیّد جمیل حسین رضوی ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے اُن قائدین میں سے تھے کہ جنہوں نے سِکھّ ریاست پٹیالہ ؔ کے مسلمانوں کو سِکھّوں کی دہشت گردی سے بچانے کے لئے اہم کردار ادا کِیا تھا ۔ اُن میں میرے دو ماموں چودھری وزیر محمد بھٹی اور چودھری حسن محمد بھٹی بھی شامل تھے ۔ مجھے سیّد یوسف جعفری کے تین "Cousins" ،سیّد ابراہیم جعفری، سیّد مودود جعفری اور سیّد قاسم جعفری نے مجھے گلے لگایا تو، مَیں نہال ہوگیا۔ سیّد یوسف جعفری کے (مرحوم ) بھائی میجر محمد یونس جعفری سے میری محبت تھی ۔ اُن کی دونوں بیٹیوں سارہ جعفری اور سعدیہ جعفری نے مجھے سلام کِیا تو مَیں نے اُن کے سروں پر ہاتھ پھیر ا۔ اُس وقت مجھے میجر محمد یونس جعفری کے علاوہ دُلہا (سیّد محمد مصطفیٰ جعفری ) کے دادا سیّد محمد یعقوب جعفری بھی یاد آئے ۔ مَیں عارضۂ جگر سے تو صحت یاب ہوگیا ہُوں لیکن، لندن باسی میرے قانون دان بیٹے انتصار علی چوہان کے دوست ڈاکٹر عمران حسن خان اب بھی میری دیکھ بھال کرتے ہیں ، مجھے مریض نہیں بلکہ مہمان سمجھتے ہیں ۔ 6 ماہ پہلے ایک مسئلے پر اُنہوں نے مجھے سیّد حسین نقی کے بیٹے ڈاکٹر سرجن سیّد اصغرنقی کے پاس بھجوایا تو، اُس کی محبت سے میرا اور سیّد حسین نقی کا دوستی کے سفر کی پھر تجدید ہوگئی ۔ معزز قارئین ! ۔ مَیں نے اپنے کسی بیٹے کا سہرا نہیں لکھا لیکن ، سیّد انور محمود گیلانی اور بھابھی نیئر محمود کے بیٹے سیّد بلال محمود کا سہرا ضرور لکھا تھا ۔ 78 سالہ سیّد یوسف جعفری نے ابھی تک شادی نہیں کی ۔ مَیں ہر پانچ سال بعد اُنہیں آفر کرتا ہُوں کہ ’’ اگر آپ اب بھی شادی کرلیں تو، مَیں آپ کا سہرا لکھنے کو تیار ہُوں لیکن ، جواب میں مجھے صِرف ایک مسکراہٹ پر ٹرخا دِیا جاتا ہے ‘‘۔ اب مَیں کیا کروں ؟۔ جو کچھ کرنا ہے ۔ ساداتؔ ہی نے کرنا ہے ؟۔ کرلیں جو کرنا ہے ؟۔