درجن سے زیادہ جماعتیں حکومت چلا رہی ہیں لیکن حکومت چل نہیں رہی۔جہاز میں سوراخ ہیں اور بھاری پتھر پیندے سے بندھے ۔بحران کی بنیاد یہ ہے کہ آئینی طور پر مقتدر ادارے اور قوتیں کمزور بنا دیے گئے ہیں۔جنہیں حکومت کا اختیار نہیں ان کا حکم ہر جگہ چل رہا ہے۔بس یہ ہے موجودہ بحران اور کانپتی ٹانگوں کا سچ۔ دو روز ہوئے قومی اسمبلی میں مختصر تقریر کر کے راجہ ریاض نے واک آئوٹ کا اعلان کر دیا۔ان کا کہنا تھا بجٹ پر تقریر کسے سنائیں۔وزیر اعظم‘ وزراء تک موجود نہیں۔حکومتی رکن شیخ روحیل اصغر نے بھی اپنے وزراء اور وزرائے مملکت کی بجٹ اجلاس سے مسلسل غیر حاضری کی مذمت کی۔حکومت بجٹ پیش کرنے کے بعد روز اک نیا بجٹ پیش کر رہی ہے ، بجٹ پاکستان کی ضروریات کے لئے نہیں عالمی اداروں کی فرمائش پر بنایا جا رہا ہے ۔ ہر ترمیم اور اضافہ پہلے انہیں بھیجا جاتا ہے ۔جب وہاں سے او کے کی آواز آئی دیکھئے گا ہائبرڈ نظام اسے منظور کرنے کا اعلان کر دے گا۔حکومت اور پاکٹ اپوزیشن کے ممبران ٹی وی شوز میں عوام کا درد زبان سے ٹپکاتے ہیں۔گلہ سب کو ہے لیکن ادراک نہیں کہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ بے توقیر کیسے ہو رہے ہیں۔منحرفین کود کو اسلی اپوزیشن ثابت کرنے کے لئے کیا کیا جتن کر رہے ہیں۔مخصوص شوز میں ان کو بلا کر ان کی امیج بلڈنگ کی جا رہی ہے۔رجیم چینج میں میڈیا کا کردار ابھی ختم نہیں ہوا۔ جدید پارلیمنٹ کا تصور برطانیہ سے آیا جہاں آمرانہ اختیارات کے مالک بادشاہ سے اختیار بتدریج پارلیمنٹ کو منتقل ہوا۔وزیر اعظم خود آمر نہ بن جائے اس لئے عوام کے منتخب کئے گئے نمائندوں کو بااختیار اور شریک اقتدار کیا گیا۔برطانیہ میں جونہی کوئی ایسا عمل سامنے آیا ہے جس سے پارلیمنٹ کمزور ہو سکتی ہو تو حزب اختلاف اور حزب اقتدار ایک ہو جاتی ہیں۔ان کی لڑائی اور اختلاف کے سامنے پارلیمنٹ کی خود مختاری اور آزادی آ جائے تو وہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ہمارے ہاں ابھی تک جمہوریت بحالی کی تحریکوں کو مزاحمت کا سامنا ہے۔حقیقی جمہوری جماعتوں کو پارلیمنٹ میں میں نہیں پہنچنے دیا جاتا،غیر جمہوری قوتوں کی اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ میں آتی ہیں۔یہ سب اسٹیبلشمنٹ نامی جس بادشاہ کی وفادار ہیں وہ ان کو باری باری اقتدار دیتا ہے۔حکومت اشرافیہ میں رہتی ہے،جو اس کے مقاصد سے انحراف کرتا ہے اسے تقسیم کر دیا جاتا ہے، اس کے دھڑے بن جاتے ہیں،فارورڈ بلاک بن جاتے ہیں ۔ادارے اس کے خلاف اتحاد بنا لیتے ہیں ، اسے تنہا کر دیتے ہیں۔ بھارت میں سینکڑوں ایسی خرابیاں ہیں جن پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ان خرابیوں کی ہم مذمت کرتے رہتے ہیں لیکن کیا پنڈت جواہر لال نہرو نے جرنیل کو دفتر کے باہر انتظار میں بٹھا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طے نہیں کر دیا تھا کہ پارلیمنٹ سے بالادست کوئی نہیں اور پارلیمانی جمہوریت میں چیف ایگزیکٹو وزیراعظم ہوتا ہے۔ 1215ء میں برطانوی عوام کے نمائندوں اور کنگ جان کے درمیان میگنا کارٹا ہوا۔اس معاہدے میں طے ہوا کہ بادشاہ صرف جاگیرداروں سے ٹیکس لے سکے گا۔باقی ٹیکسز رائل کونسل وصول کرے گی۔یہی رائل کونسل بعدازاں پارلیمنٹ کہلائی۔لگ بھگ ساڑھے چار سو سال بعد (1688ء میں) پارلیمنٹ نے جیمز دوم کو اختیارات سے محروم کر دیا۔جیمز دوم کی بیٹی میری اور اس کے شوہر ولیم کو مشترکہ طور پر حکمرانی کی پیشکش کی گئی۔اس واقعہ کے بعد پارلیمنٹ بادشاہ سے زیادہ طاقتور بن گئی۔میرے سامنے ڈنمارک‘ ناروے‘ فن لینڈ اور سویڈن کے نام ہیں جنہیں رینکنگ کے اعتبار سے دنیا کی پہلی چار جمہوریتیں کہا جاتا ہے۔ انتظامی درجہ بندی میںجنوبی کوریا‘ تائیوان‘ ڈنمارک اور آسٹریا کے نظام حکومت کو بہترین قرار دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کا مضبوط ہونا جمہوریت اور ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔پارلیمنٹ قانون منظور کرتی ہے اور حکومت سے اس کے فیصلوں پر جواب طلبی کرتی ہے۔ایک ادارہ انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین کے نام سے ہے۔ہمارے اراکین پارلیمنٹ اس کی دعوت اور فنڈزپر ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔آئی پی یو سکھاتا ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کیسے بحال رکھی جا سکتی ہے۔کسی ملک میں پارلیمنٹ کو کمزور کیا جا رہا ہو تو وہاں کے مزاحمتی اراکین پارلیمنٹ اس یونین سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں تاہم یہ ادارہ ریاستی معاملات میں عدم مداخلت کا قائل ہے۔ پاکستان میں مبینہ رجیم چینج آپریشن کے دوران پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے اقدامات ہوئے۔قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے لئے اپوزیشن کے ووٹ پورے نہ تھے‘منحرفین کا گروپ تیار کیا گیا۔اس گروپ نے ووٹ نہ ڈالا مگر پی ٹی آئی سے الگ ہو کر پارلیمنٹ اور پی ٹی آئی کو اہم فیصلے کرنے سے محروم کر دیا۔پنجاب میں زیادہ غدر مچا۔ وزیر اعلیٰ کا انتخاب متنازع ہوا۔گورنر نے حلف سے انکار کیا تو ایسا فیصلہ لے لیا گیا جس میں سپیکر قومی اسمبلی وزیر اعلیٰ کا حلف لینے لاہور آئے۔ پنجاب اسمبلی تقسیم ہو چکی۔ ایک کا اجلاس آئینی طور پر سپیکر پرویز الٰہی کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی کی عمارت اور دوسرا اجلاس ایوان اقبال میں ہو رہا ہے منحرفین کے متعلق جو فیصلہ آیا اس پر تحفظات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ہر روز پارلیمنٹ کی بے توقیری پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔درجن سے زیادہ جماعتیں مل کر حکومت چلا رہی ہیں لیکن حکومت چل نہیں رہی۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے سے پہلے دو تہائی والی لیگی اکثریت کو تقسیم کیا گیا۔ پھر جمالی اور شوکت عزیز حکومت کو پیپلزپارٹی پٹریاٹ سے مدد ملی۔ اب پی ٹی آئی کی تقسیم کے ساتھ پارلیمنٹ کی تقسیم کا نمونہ پیش کیا گیا۔ پارلیمنٹ اور جمہوری ادارے ٹکڑے ہو رہے ہیں ۔عوام کی پارلیمانی طاقت تنکا تنکا ہورہی ہے ۔اس صورت حال کو مزید برباد کرنے کا کام وہ شعلہ نوا لیڈر کر رہے ہیں جو اپنی فراست کی بجائے زبان کی کاٹ سے مقبول بنائے جاتے ہیں ۔نتیجہ یہ کہ اب مسائل حل کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ،سب زبان کے کالے جادو سے ملک کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں ۔درجن سے زیادہ جماعتیں ہیں، پارلیمنٹ تقسیم ہے اور تقسیم کرنے والی قوتیں مطمئن۔