’’مائی برادر‘‘ کے حوالے سے میرے کالم کی اشاعت کے چند روز بعد میرے سینئر دوست طارق محمود میاں نے واٹس ایپ پہ مجھے میسج کیا کہ یوں لگتا ہے جیسے مائی برادر والے آپ کے کالم کو آج ایک دوسرے اخبارمیں معروف سکالر نے اپنے نام سے چھپوا لیا ہے۔ ظاہر ہے میں یہ کالم پڑھ چکا تھا۔ طارق صاحب کی شکایت ایسی کچھ بے جا بھی نہیں تھی لیکن چونکہ میں ان صاحب کا بے حد احترام کرتا ہوں اور آج سے نہیں زمانہ طالب علمی سے رہی بات نقل نویسی کی تو اس خاکسار کے پی ایچ ڈی کا مقالہ پورے کا پورا ایک دوست نے نقل کر کے یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی اور اس ناچیز نے جب اس کا برا نہیں مانا اور دوست کو معاف کر دیا تو فقط کالم کا ایک حصہ ہی اپنے الفاظ میں نقل ہونے کا کیا اثر لینا۔ تحقیق ہمارے ہاں ویسے بھی ایک گودام کا مال دوسرے گودام میں منتقل کرنے کا نام ہے۔ اسے تحقیق اس لئے کہتے ہیں کہ محقق جس گودام سے مال اٹھاتا ہے اس کا دیانت داری سے حوالہ دے دیتا ہے ایک عرصے سے ہماری یونیورسٹیوں میں ایسی ہی تحقیق ہو رہی ہے اور اسی پہ ڈگریاں بٹ رہی ہیں۔ تحقیقی مقالے اپنی ضخامت کے زور پہ مقالے کہلاتے ہیں اور ڈگری پانے کے بعد لائبریری کی الماریوں میں محفوظ کر دیے جاتے ہیں۔ان سے نہ علمی دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ یونیورسٹیوں اور معاشرے کو۔اصل بات یہ ہے کہ تحقیق کے لئے بھی ایک درجے پر ذہن کا تخلیقی ہونا ضروری ہے۔ عام طور پر اذہان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ تقلیدی یا تخلیقی۔ تقلیدی ذہن وہ ہوتا ہے جو صرف نقل کرنا اور مکھی پہ مکھی مارنا جانتا ہے۔ وہ بنے بنائے راستوں پر چلتا ہے اور نئے راستے تلاش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ روایات کے بوجھ تلے دبا ہوا یہ ذہن اپنے شعبے‘ اپنے مضمون اور میدان میں کوئی بڑا کارنامہ کر کے نہیں دکھا پاتا۔ اس کے برعکس تخلیقی ذہن متحرک ہوتا ہے۔تقلیدی ذہن کی طرح جامد نہیں ہوتا۔ تخلیقی ذہن نئے افق ‘ نئے امکانات اور نئی منزلیں تلاش کرتا ہے۔ اقبال نے اسی تصور کو اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ: آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں تقلیدی ذہن آئین نو سے ڈرنے اور پرانے طریقوں پہ اڑے رہنے والا ذہن ہوتا ہے۔ سر سید ‘ اقبال‘ جناح اور مولانا مودودی کو اسی تقلیدی ذہن کی مزاحمت سے واسطہ پڑا۔ ان بزرگوں نے اسی تقلیدی ذہن کو تخلیقی ذہن کے ماتحت کرنے کی جدوجہد کی۔ تخلیقی ذہن جو نیا راستہ دکھاتا ہے۔ تقلیدی ذہن اسے آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ وہ سو معذرتیں اور ہزار عذر رکھتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تخلیقی ذہن کہاں سے آئے؟ تقلیدی اذہان اور تقلیدی معاشرہ تو ایک حقیقت ہے لیکن تخلیقی ذہن ہر میدان اور شعبے میں کیسے پیدا ہو؟ اس کے جواب کے لئے ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے چاہئیں۔یورپ میں بیداری کی لہر کیسے پیدا ہوئی؟وہاں نشاۃ ثانیہ میں مفکرین‘ فلسفی سائنس داں‘ادیب اور انشا پرداز دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کی فضا پہ کیسے چھا گئے؟ خود ہمارے خطے میں جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب انگریزوں نے ہمیں طوق غلامی میں جکڑا تو انیسویں صدی کے اوائل اور اواخر میں کیسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے‘ مسلمانوں میں بھی اور ہندوئوں میں بھی۔ جیسے یورپ کے مشاہیر نے یورپ کو تقلید سے نکال کر ترقی کی راہوں پہ گامزن کیا اسی طرح ہمارے محسنوں نے فکر نو سے ہمیں غلامی سے چھڑایا اور آزادی سے ہمکنار کیا۔ گویا تاریخ اپنے فیصلہ کن موڑ پہ تاریخی تقاضوں کے تحت ایسی شخصیات کو سامنے لاتی ہے جو تبدیلی اور تغیر کو روبہ عمل لائیں۔ اقبال نے اسی بات کو یوں کہا تھا کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی۔ فرانس‘ روس‘ چین اور ایران کے انقلابات پر غور کیجیے تو چند باتیں ان میں مشترک ملیں گی۔اول ظلم و ستم اور ناانصافی کا حد سے گزر جانا۔دوم نظام زندگی کا فرسودہ و پامال ہو جانا۔ سوم‘ انقلاب و تبدیلی کی پر زور خواہش کا پیدا ہو جانا۔ چہارم‘ اس انقلاب و تبدیلی کے لئے اس طبقے یا ان افراد کا ابھر آناجو ایک نئے نظام زندگی کا تصور رکھتے ہوں یا اس کا خواب دیکھتے ہوں۔ (نئے معاشرے کا خواب تخلیقی ذہن دیکھتا ہے۔) اوپر درج باتوں کی روشنی میں آپ اپنے ملک اور اس کے حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔میں صرف ایک بات کہتا ہوں جو قانون فطرت میں مضمر ہے وہی قوموں اور تہذیبوں کے عروج زوال میں موجود ہے۔ یہاں غلط فہمی سے بچنے کے لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ تقلیدی اور تخلیقی ذہن کی اس بحث میں یہ مراد ہرگز نہیں کہ سارا معاشرہ اور تمام لوگ تخلیقی ذہن کے مالک ہو جائیں۔ عام آدمی ہمیشہ تقلیدی ذہن ہی کا مالک ہوتا ہے‘ وہ کبھی تخلیقی نہیں ہو سکتا۔میرا مطلب یہ ہے کہ وہ خاص الخاص طبقہ جو معاشرے کا ذہن ہوتا ہے جس کے ذریعے کوئی معاشرہ سوچ بچار کرتا ہے‘ جملہ مسائل پر غورو فکر کرتا ہے‘اس طبقے کو تخلیقی ذہن کا حامل ہونا چاہیے۔اس میں دانشور‘ اہل فکر‘ شعرا ادبا‘ معلمین‘ سیاسی مدبرین‘ سائنس داں‘ مذہبی اسکالر اور وہ لوگ جو معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں‘ ان میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ پچھلے کسی کالم میں یہ بحث سعدیہ قریشی صاحبہ نے چھیڑی تھی کہ ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں تقلید کا رجحان پایا جاتا ہے۔ کالم پڑھ کر میں نے انہیں میسج کیا کہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن اس کا تجزیہ آپ نے نہیں کیا کہ ایسا ہے تو کیوں ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ یہ کام آپ کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم کہاں کے دانا ہیں کس ہنر میں ہیں یکتا۔جو بری بھلی باتیں سمجھ میں آئیں‘ رقم کر دی گئیں۔اب کوئی اور کالم نگار اس بحث میں اضافہ کرے تو شاید ہم سب کسی نتیجے پر پہنچ سکیں ع گفتگو سے اور بڑھ جاتا ہے جوش گفتگو